بنگلہ دیش کے بعد سری لنکا میں بھی اتھل پتھل
لگتا ہے تبدیلی کی ہواؤں نے جنوبی ایشیا کا رخ کر لیا ہے۔ رواں سال بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور اب سری لنکا میں عوام کی طاقت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ گو پاکستان کی حد تک بیلٹ کے فیصلے سے پیدا ہونے والے تنازعات ابھی تک حکومت کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ تاہم باقی تین ممالک کی حد تک عوامی قوت اور رائے کا اظہار فیصلہ کن ثابت ہوا۔
تازہ ترین انتخابات سری لنکا میں منعقد ہوئے۔ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں گزشتہ صدر جنھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ بمشکل تمام معاہدہ کیا بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں اپوزیشن لیڈر اور معزول سابق سیاسی فیملی راج پاکسے فیملی کے فرزند بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔
نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سری لنکا کی سیاست پر روایتی سیاسی خاندان چھائے رہے۔ دو سال قبل راج پاکسے خاندان کا طوطی اس قدر بلند آواز میں بول رہا تھا کہ صدارت اور وزارت عظمی سمیت نصف درجن کابینہ کے ارکان بھی خاندان سے ہی تھے۔ سیاسی نظم اور گورننس سالہا سال سے کچھ اس انداز میں تشکیل پائی کہ کرپشن، سیاسی اقربا پروری اور دھونس دھاندلی کے ساتھ سیاسی برتری ایک وطیرہ رہا۔
طویل سیاسی ابتری، سیاسی کھینچا تانی اور کرپشن نے ملک کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ عوام دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ دنیا یہ حیرت انگیز مناظر دیکھتی رہی کہ کس طرح عوام کا جم غفیر صدارتی محل اور راج پاکسے فیملی کے گھروں میں دندناتا پھرا۔ عوامی غم و غصہ کے سامنے تمام انتظامی اور سیکیورٹی اسٹرکچر دھرے کا دھرا رہ گیا۔ جان بچانے کے لیے فیملی کے تمام ارکان کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ فوج نے یہ رعایت ضرور کی کہ انھیں عوام سے بچا اور چھپا کر فرار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس انداز میں فرار ہوتے وقت انھوں نے ایک نشست کے حامل وکرما سنگھے کو پارلیمنٹ سے اپنی جماعت کے ذریعے صدر منتخب کروا دیا۔
گزشتہ ہفتے صدارتی انتخاب ہوا تو مارکسسٹ خیالات کے حامی ڈسانائیکے اپنی جماعت اور اتحادیوں کے ساتھ 42 فی صد ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی بار ہوا کہ صدارتی انتخاب کے لیے دوسرے مرحلے میں جانا پڑا۔ دوسرے مرحلے میں واضح طور پر 55 سالہ ڈسا نائیکے کافی سبقت سے کامیاب ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر بمشکل 33 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ تیسرے نمبر پر حاضر سروس صدر رانیل وکرماسنگھے رہے جنھوں نے ڈیفالٹ ہونے پر 2022 میں صدارت سنبھالی تھی، بمشکل 17 فیصد ووٹوں کے ساتھ۔ راج پاکسے خانوادے کا چشم و چراغ کہیں دور چوتھے نمبر پر بمشکل چار فیصد ووٹ لے سکا۔
دنیا بھر کے لیے یہ ایک بہت بڑا آپ سیٹ تھا۔ اول: روایتی سیاسی حریفوں کے بجائے مارکسسٹ خیالات کی حامی جماعت جو ایک زمانے میں سری لنکا میں اسلحہ بردار جدوجہد کا حصہ رہی اس کے امیدوار نے روایتی سیاسی حریفوں کو پچھاڑ دیا۔ دوم: مغربی ممالک کو یہ زعم ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی طوطی پوری دنیا میں بول رہا ہے اور بولتا رہے گا۔ ان کے لیے یہ خبر ہضم کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک چھوٹے سے ملک میں مارکسسٹ خیال کے حامی امیدوار کو صدارت کے لیے چنا جائے۔
سری لنکا کے نئے صدر نے حلف اٹھانے کے بعد انتہائی متوازن انداز میں دنیا کے سامنے اپنا پروگرام پیش کیا۔ سری لنکا کو معاشی ڈیفالٹ کے بعد آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کے لیے انتہائی مشکل اصلاحات سے گزرنا پڑا جس کا عوام پر بھاری بوجھ پڑا، عوام کا غم و غصہ اور بے بسی بیلٹ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ تاہم نئے صدر ڈسا نائیکے نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف پروگرام سری لنکا اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک باضابطہ معاہدہ ہے جسے وہ مکمل Own کرتے ہیں۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوگا۔
کوئی بھی لگی لپٹی رکھے بغیر نئے صدر نے یہ اقرار بھی کیا کہ ملک کرپشن، بری گورننس اور گونا گوں مسائل کا شکار ہے۔ ان کے لیے معاملات کو راتوں رات سلجھانا آسان نہیں۔ ان کی انتخابی فتح کو اس انداز میں نہ لینا چاہیے کہ وہ چٹکی بجاتے مسائل حل کر دیں گے۔ اس اعتبار سے یہ بروقت ایک ریلٹی چیک تھا۔
اس سے قبل بنگلہ دیش میں گزشتہ دو سال کے دوران کئی شدید مظاہرے ہوئے جنھیں حکومت نے بری طرح کرش کیا۔ تاہم جولائی میں شروع ہونے والے پر تشدد مظاہروں نے حکومت کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مضبوط اور آہنی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ حسینہ واجد چوتھی بار جنوری 2024 میں منتخب ہوئیں تو اپنے تئیں وہ کئی سالوں کا پروگرام طے کیے بیٹھی تھیں۔ آناً فاناً عوامی غم و غصے کی آندھی کے سامنے انھیں فرار کے وقت اپنا ضروری سامان سمیٹنے کے لیے صرف پون گھنٹہ مل سکا۔ وقت رخصت وڈیو پیغام ریکارڈ کرانے کی حسرت کے ساتھ بھارت فرار ہوگئیں۔
زمانے کا رنگ دیکھیے کہ جس بھارت کے ساتھ انھوں نے پینگیں بڑھائیں، سیاست میں بھارت کی دوستی اور اعانت کا فائدہ اٹھایا، اسی ملک میں حسینہ واجد کی موجودگی اب سر درد ہے۔ بھارت کا دوست بنگلہ دیش اب دوست نہ رہا۔ دوسری طرف دنیا کا کوئی ملک معزول وزیراعظم حسینہ واجد کو مہمان رکھنے پہ آمادہ نہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
ان حالیہ سیاسی زلزلوں میں پاکستان کے لیے کئی سبق ہیں۔ پی ڈی ایم ون اور پی ڈی ایم ٹو کی موجودہ حکومت یہ کریڈٹ لیتے نہیں تھکتی کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے اور یہ کہ اس کوشش میں سیاست کی پروا نہیں کی۔ فروری کے الیکشن کے سرکاری نتائج اپنی جگہ لیکن مشکل معاشی حالات سے تنگ عوامی موڈ کچھ اور ہی نظر آیا۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ مسلسل رزم آرائی نے ملک میں سیاسی استحکام کو پاؤں نہیں دھرنے دیا۔ آئینی پیکیج کی پراسرار منظوری کی کوششیں ابھی تک پس پردہ جاری ہیں۔ سپریم کورٹ کے ادارے میں تقسیم اور حکومت کی محاذ آرائی نے سیاسی ماحول میں تناؤ، تقسیم اور باہمی بد اعتمادی کو نئے لیول پر کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے منظور حالیہ پیکیج اپنی کڑی شرائط کے ساتھ عوام کی اکھڑی سانسوں کو بحال کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو۔
خطے میں حکومتوں کی اتھل پتھل اس امر کی غماض ہے کہ کرپشن، بری گورننس اور اشرافیہ کی یک طرفہ موج مستیوں کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہے!