ذلالت کا گڑھا
پی ٹی آئی کے دور میں آرمی چیف اور وزیر خزانہ امداد مانگنے کے لیے ابوظہبی گئے، سلطان نے بات سن کر نہایت پتے کی بات کی، ان کا کہنا تھا "ایک وقت تھا جب آپ کا ہاتھ اوپر ہوتا تھا اور ہمارا نیچے، ہم امداد کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔ آج ہمارا ہاتھ اوپر ہے اور آپ کا نیچے، آپ ہمارے بھائی ہیں، ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں لیکن میرا مشورہ ہے ہم اوپر یا نیچے والا ہاتھ بننے کے بجائے ایک دوسرے سے برابری سے ہاتھ ملاتے ہیں، آپ کسی ملک سے امداد نہ لیں، آپ ملکوں سے بزنس کریں۔ آپ اس طریقے سے امیر ہوں گے"۔ پاکستانی وفد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیے۔
دوسری مثال سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز کی ہے، یہ بادشاہ بننے سے پہلے 48سال ریاض کے گورنر رہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے سفیر ایڈمرل شاہد کریم اللہ صدر کا پیغام لے کر ان کے پاس گئے۔ شاہ سلمان نے پاکستانی سفیر سے کہا "ہم پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں لہٰذا ہم ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں یہ جذبہ صرف ہم تک ہے، ہمارے بچے پریکٹیکل ہیں۔ ہمارے بعد یہ آپ کا خیال نہیں رکھیں گے چناں چہ آپ کے لیے بہتر ہے آپ ہماری زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں"۔ سفیر نے یہ پیغام من وعن سائفر بنا کر ایوان صدر بھجوا دیا۔
تیسری مثال چین کی ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ 2021 میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے بیجنگ گئے، صدر شی نے انھیں صرف دو مشورے دیے، آپ ایک ہی بار یہ فیصلہ کر لیں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ یاد رکھیں ترقی اور لڑائی میں ترقی پہلے نمبر پر آتی ہے اور لڑائی دوسرے پر، آپ لوگ ترقی پر کمپرومائز نہ کریں۔ بھارت سے لڑیں لیکن پہلے ترقی کریں۔ انھوں نے چین کی مثال دی "ہمارے بھارت کے ساتھ 70 سال سے تنازعے چل رہے ہیں، ہماری تازہ تازہ جھڑپ بھی ہوئی مگر اس کے باوجود بھارت کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم بڑھتا چلا جا رہا ہے، ہم لڑائی کے بعد بھارت سے زیادہ تجارت کر رہے ہیں۔ "
آپ تھوڑی دیر کے لیے ان تمام مشوروں کو سائیڈ پر رکھیں اور دہلی میں 9 اور 10 ستمبر کے جی 20 سربراہی اجلاس پر فوکس کریں، بھارت نہ صرف دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے بلکہ یہ آج بڑی معیشتوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔
دوسری حقیقت جی 20 میں انڈونیشیا، جنوبی کوریا، میکسیکو، جنوبی افریقا اور ترکی بھی شامل ہیں اور یہ پانچوں ملک ہمارے سامنے اس ریس میں شامل ہوئے، آپ ترکی کو 2000میں دیکھیں اور اس کے بعد اسے 2010 اور 2023 میں دیکھیں، ترکی نے کساد بازاری اور ری سیشن کے باوجود ٹھیک ٹھاک ترقی کی، جنوبی کوریا نے 1960 کی دہائی میں پاکستان سے "پانچ سالہ معاشی منصوبہ" مستعار لیا تھا اور اپنے تین سو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس بھجوائے تھے تاکہ یہ ڈاکٹر صاحب سے نوبل پرائز جیتنے کا طریقہ سیکھ سکیں۔
انڈونیشیا ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ملکوں میں سب سے پہلے دہشت گردی اس ملک میں شروع ہوئی تھی، 12 اکتوبر 2002 کو دہشت گرد اسلامی جماعت نے بالی میں 204 لوگ قتل کر دیے تھے جس کے بعد انڈونیشیا کی سیاحتی انڈسٹری تباہ ہوگئی لیکن صرف 20سال بعد 2022 میں انڈونیشیا نے جی 20 کی میزبانی کی، ایک وقت تھا انڈونیشیا کے سیاست دانوں، فوجی سربراہوں اور ارب پتی بزنس مینوں کے بچے تعلیم کے لیے پاکستان آتے تھے لیکن آج وہ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟
میکسیکو بھی چند برس پہلے تک لاطینی امریکا کا غریب ملک ہوتا تھا، اس کا مافیا آج بھی پوری دنیا میں بدنام ہے لیکن یہ بھی اب جی 20 میں شامل ہے اور جنوبی افریقہ 1994 میں آزاد ہوا اور اس سے پہلے وہاں خوف ناک نسلی فسادات ہوئے، لاکھوں لوگوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی تھیں، آج بھی اس ملک میں گوروں اور کالوں کے درمیان اختلافات ہیں لیکن یہ بھی آج جی 20 میں شامل ہے، بھارت نے ان کے علاوہ بنگلہ دیش، مصر، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدرلینڈ، اسپین اور ماریشیس کو بھی بطور مہمان دعوت دی، یہ تمام ملک کبھی پاکستان کے دوست ہوتے تھے۔
بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ پاکستان کی بنیاد ہی بنگالیوں نے رکھی تھی، آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکا میں بنی تھی اور 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی، ہم نے 1971 میں بنگالیوں کو نالائق، پس ماندہ اور گندہ قرار دے کر الگ کر دیا لیکن آج بنگلہ دیش معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے ہے اور یہ جی 20 ملکوں کے ساتھ بھی بیٹھا ہے۔
ہم نے بھٹو دور میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر، اردن اور شام کی مدد کی تھی، نائیجیریا جیسے درجن بھر افریقی ملک پاکستان سے ٹیکنالوجی سیکھا کرتے تھے، نائیجیریا کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں تربیت حاصل کرتے تھے، متحدہ عرب امارات نے اسٹارٹ ہی پاکستان سے لیا تھا، ایمریٹس ایئرلائن کا مخفف آج بھی ای کے ہے اور ای ایمریٹس سے لیا گیا اور کے کراچی سے، دنیا کی یہ بڑی ایئرلائن کراچی سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور ہم نے اسے جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی، یو اے ای کے تمام صحرا پاکستانی ہنرمندوں نے آباد کیے لیکن آج یہ کہاں ہے اور ہم کہاں؟ عمان ہمارا دوست تھا، آج بھی عمان میں اڑھائی لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں۔
سلطان قابوس پاکستان آتے تھے تو انھیں کراچی کا ڈپٹی کمشنر ریسیو کرتا تھا اور ان کی صدر سے ملاقات کے لیے سفیر کو ٹھیک ٹھاک پاپڑ بیلنے پڑتے تھے، سنگا پور نے بھی پاکستان سے ترقی کا سفر شروع کیا تھا، سنگاپور ایئرلائن ہو یا پھر سنگا پور پورٹ یہ پاکستانیوں نے بنائی اور ایک وقت تھا جب لی کو آن یو نے پاکستان کے سب سے زیادہ دورے کیے اور یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور مشہور لوگوں کو جانتے تھے۔
نیدر لینڈ نے 1960کی دہائی میں پاکستان کو ٹیلی ویژن سیٹ بیچے تھے، فلپس نیدر لینڈ کا برینڈ ہے، پاکستان نے فلپس کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی اور ہالینڈ نے اسے اس وقت کی سب سے بڑی ڈیل قرار دیا تھا، اسپین یورپ کا واحد ملک تھا جو ہر قسم کے پاکستانی کو امیگریشن بھی دے دیتا تھا اور کام کی اجازت بھی، آج بھی اسپین میں لاکھوں پاکستانی ہیں۔
مونس الٰہی بھی ان میں شامل ہیں اور پیچھے رہ گیا موریشیس تو ہم نے آج تک اسے دوستی کے قابل ہی نہیں سمجھا لیکن یہ تمام ملک اس وقت جی 20 کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ہم دور بیٹھ کر انھیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔
ہم اب سعودی عرب کی طرف آتے ہیں، دنیا نے ہمیشہ ان دونوں ملکوں کو اکٹھا دیکھا، 1979 میں خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تو صرف پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا، یمن میں حوثی باغیوں کے ایشو پر بھی پاکستان نے سعودی عرب کی مدد کی، ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں، اس وقت سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا، ہمیں مفت پٹرول تک دیا گیا، آج بھی پاکستان کے 20 لاکھ ورکرز عرب ملکوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں اور ان کی رقوم سے ملک چل رہا ہے۔
بھارت سعودی عرب اور یو اے ای پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے آپ پاکستانی ورکرز کو نکال دیں، ہم آپ کو سستے اور زیادہ ہنرمند دے دیتے ہیں مگر عرب یہ پیش کش قبول نہیں کر رہے لیکن سوال یہ ہے عرب ممالک کب تک انکار کریں گے؟ ہمیں ماننا ہوگا دنیا بدل چکی ہے، عرب ملکوں میں نئی نسل اقتدار اور بزنس میں آچکی ہے اور یہ نسل بھائی چارے کے بجائے کاروبار کو اہمیت دیتی ہے، یو اے ای میں حکومت نے انویسٹمنٹ کمپنی بنا رکھی ہے۔
یہ کمپنی پانچ سو بلین ڈالر کی مالک ہے اور اس کے کارندے پوری دنیا میں کاروباری مواقعے تلاش کر رہے ہیں، یہ ایسے ملازمین کو سال بعد نکال دیتے ہیں جو کمپنی کے پیسے انویسٹ نہیں کرتے لہٰذا ان حالات میں عربوں کو پاکستان میں کیا دل چسپی ہوگی؟ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر حقیقت یہی ہے ہم دنیا اور اپنے دوستوں کی نظروں میں اس قدر بے وقعت ہو چکے ہیں کہ ہم نے سعودی ولی عہد کو بھارت جاتے وقت چند گھنٹے پاکستان میں گزارنے کی دعوت دی مگر ولی عہد تیار نہیں ہوئے۔
دوسری طرف کانفرنس10 ستمبرکو ختم ہوئی مگر ولی عہد 11ستمبرکی رات تک بھارت میں رہے، یہ کانفرنس کے بعد بھی بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے رہے، کیوں؟ کیوں کہ انھیں بھارت میں بزنس کے مواقعے نظر آرہے ہیں، بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت 5 کھرب ڈالر کی تجارت ہے جب کہ ہم جب بھی سعودی عرب جاتے ہیں پیسے مانگنے جاتے ہیں چناں چہ یہ لوگ پھر ہماری عزت کیوں کریں، یہ پاکستان کیوں آئیں؟
ہمارے پاس اب صرف دو آپشن بچے ہیں، ہم ذلالت کے اس گڑھے میں گرے رہیں اور گل سڑ کر ختم ہو جائیں یا پھر ہم غیرت کھائیں اور ایک بار جی ہاں آخری بار اٹھ کر اس ملک کی سمت ٹھیک کر لیں اور عزت کے ساتھ زندگی گزاریں، چوائس صرف ہماری ہے تاہم ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا ہم افغانستان سے لے کر امریکا تک پوری دنیا کے لیے بوجھ بن چکے ہیں اور ہم نے اگر آج اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو دنیا زیادہ دیر تک ہمارا بوجھ برداشت نہیں کرے گی۔
یہ ہمیں مرنے اور مٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دے گی، ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، ہم نے جو کرنا ہے بس چھ ماہ میں کرنا ہے، ہم نے کر لیا تو بچ جائیں گے ورنہ اس بار واقعی ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔