یہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا
ہم مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ہم گناہ گار ہوں یا نیک، ہم غریب ہوں یا امیر اور ہم چھوٹے ہوں یا بڑے خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ یہ دونوں ہماری حسرتوں، ہماری عقیدتوں اور ہماری محبتوں کے مراکز ہیں، ہم رسولؐ کی محبت اور خانہ کعبہ کی عظمت کے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتے، یہ دونوں صرف ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارا کُل ایمان بھی ہیں، ہم کتنے ہی گناہ گار، سیاہ کار، لبرل اور دنیا دار کیوں نہ ہو جائیں ہمارے سامنے جب بھی رسول اللہ ﷺ کا نام لیا جائے گا۔
ہم بے تاب ہو جائیں گے، ہم دنیا میں ہر قسم کی گستاخی برداشت کر لیتے ہیں مگر ہم رسول اللہ ﷺ کی توہین برداشت نہیں کر سکتے، ہم حرمت رسولؐ پر ہر وقت کٹنے کے لیے، مرنے کے لیے اور مٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور یہ وہ سچائی ہے جس پر دنیا حیران ہے، دنیا یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں اور دنیا مغربی معاشروں میں پیدا ہونے اور بڑے ہونے والے نوجوان مسلمانوں کے رویوں پر بھی حیران ہے، یہ دیکھتے ہیں، مسلمان نوجوانوں میں وہ تمام خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہوتی ہیں جو مغربی تہذیب کا خاصا ہیں لیکن یہ لوگ اچانک شدت پسند ہو جاتے ہیں، یہ اٹھتے ہیں۔
گستاخ کو قتل کرتے ہیں اور ہنستے ہنستے پھانسی پر چڑھ جاتے ہیں، کیوں؟ مغرب طویل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا، یہ کیوں حب رسولؐ ہے، یہ لوگ سب کچھ برداشت کر لیں گے لیکن جوں ہی عشق رسولؐ کا معاملہ آئے گا، جوں ہی کوئی شخص ان کے سامنے رسول اللہﷺ کی توہین کرے گا، یہ لوگ چونک اٹھیں گے، ان کا خون کھولے گا اور یہ لوگ اسامہ بن لادن بن جائیں گے، ان لوگوں نے 14 سو سال کے ڈیٹا کے تجزیے کے بعد فیصلہ کیا دنیا کو اسلام سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ عشق رسولؐ سے ہے، ان کا خیال ہے، ہمیں اسلام کے مقابلے کے بجائے عشق رسولؐ سے نبٹنے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔
یہ لوگ ایسی حکمت عملی بناتے بھی رہتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے رہتے ہیں اور سلمان رشدی جیسے لوگوں کے ذریعے ان حکمت عملیوں کے نتائج بھی جانچتے رہتے ہیں، ان لوگوں کے دو بڑے ہتھیار ہیں، پہلا ہتھیار عالم اسلام کو اپنی ٹیکنالوجی کا غلام بنانا ہے، یہ اپنا یہ ہتھیار کیسے استعمال کرتے ہیں، آپ اس کی پہلی مثال ملاحظہ کیجیے۔
ہم غلاف کعبہ کو کتنی عزت، کتنی تکریم دیتے ہیں، یہ ہمارے لیے سعادت اور برکت کی حیثیت رکھتا ہے، ہمارا ایمان ہے، ہم اگر غلاف کعبہ کو تھام کر اپنے رب سے دعا کریں تو اللہ ہماری درخواست قبول کر لیتا ہے، ہم غلاف کعبہ کے حصوں کو تعویز بھی سمجھتے ہیں لیکن یہ غلاف بنتا کیسے ہے؟ کپڑا کہاں سے حاصل آتا ہے اور یہ کن کن مراحل سے گزر کر خانہ کعبہ کی چھت، اس کی دیواروں تک پہنچتا ہے، اس کے بارے میں پچھلے ہفتے عرب ٹی وی نے ایک رپورٹ جاری کی، عرب ٹی وی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا غلاف کعبہ کا کپڑا اٹلی سے منگوایا جاتا ہے، یہ کپڑا خالص سیاہ ریشم سے تیار کیا جاتا ہے، یہ تول کر خریدا جاتا ہے۔
پورے خانہ کعبہ کو ڈھانپنے کے لیے 670 کلو گرام وزنی کپڑا خریدا جاتا ہے جس میں 120 کلو گرام سونا اور 100 کلو گرام خالص چاندی استعمال ہوتی ہے، اس کپڑے سے اللہ کے گھر کے لیے لباس تیار کیا جاتا ہے، اس کی قیمت دنیا کے مہنگے ترین کپڑے سے زیادہ ہوتی ہے، غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مختص کارخانے کے چیئرمین ڈاکٹر محمد باجود نے عرب ٹی وی کو بتایا، خانہ کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل کرنے والے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے، وہ اللہ کے گھر کے لباس کی خصوصی توجہ اور عقیدت کے ساتھ زیارت کرے، غلاف کعبہ کے لیے کارخانہ ماہ محرم 1346 ہجری میں شاہ عبدالعزیز کے حکم سے قائم کیا گیا، جس کے بعد پہلی بار باضابطہ طورپر غلاف کعبہ کی تیاری ایک ادارے کی نگرانی میں شروع ہوئی۔
اس طرح غلاف کعبہ کی تیاری کا جو سلسلہ قبل از اسلام شروع ہوا تھا، وہ آج بھی جاری و ساری ہے، ان سے پوچھا گیا "غلاف کعبہ کی تیاری میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے" ان کا کہنا تھا " ایک غلاف 8 ماہ میں مکمل ہوتا ہے، غلاف کا آغاز کپڑے کی سلائی سے ہوتا ہے اور اختتام اسے خانہ کعبہ پر لہرانے سے ہوتا ہے، غلاف کی تبدیلی کے لیے تاریخ مقرر ہے، غلاف 9 ذی الحج کو 13 گھنٹے کی کوشش کے بعد تبدیل کیا جاتا ہے، غلاف کی تیاری اور سلائی میں ٹیلروں، ان کے معاونین اور دیگر کارکنوں سمیت 100 افراد کام کرتے ہیں، غلاف کعبہ کے کئی حصے ہوتے ہیں، ایک خصوصی پٹی 47 میٹرکی ہوتی ہے جس کی لمبائی 95 سینٹی میٹر ہے، غلاف کعبہ کے کپڑے کی قیمت سالانہ 22 سے 25 ملین ریال ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر باجود کا کہنا تھا" غلاف کعبہ کی تیاری کے دوران سلائی بھی ہوتی ہے، اس پر کڑھائی بھی اور آیت کی کشیدہ کاری بھی، اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی قائم ہے، یہ کمیٹی غلاف پر ہونے والی کڑھائی کی نگرانی کرتی ہے اور اس میں حسب ضرورت قطع وبرید کی ذمے دار ہوتی ہے، غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے قائم کردہ کارخانے میں 210 افراد کام کرتے ہیں، ان میں ٹیلر بھی ہیں، پرنٹر بھی، غلاف کی تیاری کے نگران بھی اور کپڑے کو رنگنے والے بھی، ان مستقل ورکروں کے علاوہ سعودی عرب کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء کو بھی گریجوایشن کے بعد نو ماہ کا کورس کرایا جاتا ہے۔
ان طالب علموں کو غلاف کعبہ کی تیاری کے تمام مراحل سے آگاہ کیا جاتا ہے"۔ آپ ملاحظہ کیجیے، کعبہ ہمارا، غلاف ہمارے کعبے کا لیکن کپڑا اٹلی سے آتا ہے اور اٹلی کہاں ہے، یورپ میں! آپ تھوڑی سی مزید تحقیق کریں تو آپ کو معلوم ہوگا، اٹلی عیسائی دنیا کا مقدس ترین ملک ہے، کیوں؟ کیونکہ عیسائیوں کا مقدس ترین شہر ویٹی کن سٹی اٹلی میں ہے، یہ روم کا حصہ ہے اور ہمارے کعبے کا غلاف اسی ملک کی ایک عیسائی کمپنی بناتی ہے۔
یہ کیا ہے؟ یہ تکنیکی غلامی ہے اور ہم اس غلامی میں ان ملکوں کے محکوم ہیں جن سے ہماری دشمنی ہے، جن پر ہم غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ محکومی یہ ثابت نہیں کرتی، ہم 58 اسلامی ملک مل کر اپنے کعبے کے لیے ایسا کپڑا تیار نہیں کر سکتے جس سے غلاف بنایا جا سکے؟ ہم اگر غلاف کعبہ تیار کرنے والی فیکٹری کا دورہ کریں تو یہ معلوم کر کے ہماری روح کانپ اٹھے گی کہ غلاف کی تیاری کی ساری ٹیکنالوجی، تمام آلات اور تمام مٹیریل ہمارے وہ دشمن فراہم کر رہے ہیں جنھیں ہم توہین رسالت کا اصل ذمے دار سمجھتے ہیں۔
ہمارے دشمنوں کا دوسرا ہتھیار ان مسلمانوں کو عالم اسلام سے دور لے جانا ہے جو اسلامی دنیا میں اثر رکھتے ہیں، جو اسلامی ذہنوں کومتاثر کر سکتے ہیں، یہ لوگ کون ہیں؟ یہ اسلامی دنیا کے دانشور، مصنف، شاعر، صحافی، مصور، پروفیسر، موسیقار اور سائنس دان ہیں، ہمیں یہ ماننا ہوگا، یہ لوگ مقامی معاشروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اقوام عالم میں بھی اسلامی تشخص کی آواز بنتے ہیں، یہ ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر اسلامی معاشرے کی شناخت ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک سازش کے تحت ان لوگوں کو اسلامی معاشرے سے دور کیا جا رہا ہے، یہ لوگ اپنے اپنے معاشروں سے برگشتہ ہوتے چلے جا رہے ہیں، مثلاً آپ تازہ ترین مثال لیجیے، حکومت نے 29 فروری کو ممتاز قادری صاحب کو پھانسی دے دی۔
لیکن میڈیا نے تمام تر مشکلات کے باوجود پھانسی، جنازے اور احتجاج کی خبریں نشر کیں، میں نے یہ خبریں تمام چینلز پر دیکھیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت تھی، یہ ایشو بڑا تھا اور اسے اتنی کوریج نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی، میں"میڈیا پرسن" کی حیثیت سے یہ تسلیم کرتا ہوں مگر وجہ پوری قوم کے سامنے ہے، ہماری راہ میں مشکلات ہوں گی تو ہم کہاں بولیں گے، ہم کہاں لکھیں گے؟ یہ ایک ایشو تھا، دوسرا ایشو عوام کا ردعمل تھا، عوام نے میڈیا اور میڈیا پرسنز کو ماں بہن کی گالیاں بھی دینا شروع کر دیں اور ہمارے دفتروں اور ہمارے ورکروں پر حملے بھی شروع کر دیے، ہم ان رویوں کے عادی ہو چکے ہیں۔
ہمیں بوری والوں سے لے کر انقلاب خانوں تک کس کس نے گالی نہیں دی اور کس کس جمہوریت پسند نے ہم پر حملہ نہیں کیا، یہ اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ہم لوگ اب اس رویئے پر زیادہ دکھی نہیں ہوتے لیکن عاشقان رسولؐ کی طرف سے گالی اور ڈنڈا یہ ہمارے لیے نیا تھا، ہمیں گالی دینے والے خود کو عاشق رسولؐ اور ہمیں کافر قرار دے رہے تھے، اس رویئے نے مجھ سمیت میڈیا کے تمام کارکنوں کو اندر سے زخمی کر دیا، یہ لوگ ہمیں گالی دیتے، ہمارے لیے قابل برداشت تھا لیکن یہ لوگ گالی دیتے وقت ہمارے اس رسولؐ کا نام تو نہ لیتے جس پر ہم بھی اپنی جان، آل، عزت اور مال سب قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
جن سے محبت ہمارا ایمان ہے، یہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا، ممتاز قادری صاحب کو عدالتوں نے سزا سنائی، پھانسی حکومت نے دی، ہمارا کیا قصور تھا، ہماری کیا غلطی تھی؟ ممتاز قادری صاحب غازی ہیں یا شہید، یہ عاشق رسولؐ ہیں یا مومن یہ فیصلہ بھی ہم نے نہیں کرنا، یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمانا ہے، ہم لوگ جو اپنے کعبے کے غلاف کا کپڑا تک تیار نہیں کر سکتے، ہم کسی کے عشق رسول اور ایمان کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں، ہمیں اپنی نمازوں کی قبولیت کاتو یقین نہیں ہوتا لیکن ہم دوسروں کو عشق رسولؐ اور مومن کا درجہ دیتے چند سیکنڈ لگاتے ہیں، کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا؟
آپ میڈیا کے لوگوں کو گالی ضرور دیں لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کہیں آپ کی گالی آپ کے دانشوروں، آپ کے صحافیوں کو اسلام سے دور نہ لے جائے، کیوں؟ کیونکہ یہ دوری اسلام کے دشمنوں کا ہتھیار ثابت ہوگی، یہ لوگ اسلامی دنیا کے دانشوروں کو اسلام اور اسلامی معاشرہ سے دور دیکھنا چاہتے ہیں اور آپ کہیں اپنی سادگی کے ہاتھوں اپنے ان دشمنوں کا ایجنٹ تو نہیں بن رہے، کہیں آپ دشمنوں کا دوسرا ہتھیار تو ثابت نہیں ہو رہے!۔