Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Ye To Kuch Bhi Nahi

Ye To Kuch Bhi Nahi

یہ تو کچھ بھی نہیں

وہ ہر چیز، ہر حادثے، ہر پریشانی اور ہر مسئلے کو معمولی سمجھتے تھے اور ہمیشہ " یہ تو کچھ بھی نہیں " کہہ کر ٹال دیتے تھے، میں انھیں " انکل یہ تو کچھ بھی نہیں " کہتا تھا، یہ ان کا "نک نیم" تھا، میں نے ان کے منہ سے یہ فقرہ پہلی ملاقات میں سنا تھا، میں انھیں ائیر پورٹ سے لا رہا تھا، راستے میں گاڑی لگ گئی، گاڑی کی فرنٹ لائٹ ٹوٹ گئی اور بمپر پر نشان پڑ گئے۔

میں پریشان ہو گیا، میں گاڑی میں بیٹھا، اسٹارٹ کی اور دکھی منہ بنا کر چل پڑا، انھوں نے میری طرف دیکھا، مسکرائے اور کہا " بیٹا یہ تو کچھ بھی نہیں " میں نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا، وہ بدستور مسکرا رہے تھے، وہ مجھے اس وقت بہت نادان، بے وقوف اور غیر تہذیب یافتہ شخص لگ رہے تھے۔

ہم میں بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں دکھ یا خوشی کے اظہار کا طریقہ نہیں آتا، یہ " بے وسبے" لوگ ہوتے ہیں، مجھے یہ لوگ زہر لگتے ہیں اور میں انھیں تہذیب کا توا کہتا ہوں، مجھے انکل بھی پہلی ملاقات میں تہذیب کے توے محسوس ہوئے، آپ بھی میری جگہ ہوتے تو آپ بھی اسی طرح سوچتے، آپ خود سوچیے آپ کی گاڑی نئی ہو، آپ نے ابھی اس کی سیٹوں سے پلاسٹک کور بھی نہ اتارے ہوں، یہ گاڑی کھڑے ٹرک کے ساتھ ٹکرا جائے اور ایک اجنبی جس کے ساتھ آپ کی شناسائی چند لمحے پرانی ہو، وہ آپ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہو، مسکرا رہا ہو اور بار بار کہہ رہا ہو " یہ تو کچھ بھی نہیں " تو آپ کیا سوچیں گے؟

میں بھی اس وقت وہی سوچ رہا تھا جو آپ سوچ رہے ہیں، مجھے وہ اس وقت تہذیب کے توے محسوس ہوئے اور میں نے ان سے منہ پھیر لیا لیکن مجھے اگلے چند دنوں میں محسوس ہوا " یہ تو کچھ بھی نہیں " ان کا تکیہ کلام ہے اور یہ ہر قسم کے نقصان، ہر قسم کی خرابی اور ہر قسم کے مسئلے پر " یہ تو کچھ بھی نہیں " کہتے ہیں اور ساتھ ہی مسکراتے بھی ہیں، میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو انکل کا بیک گرائونڈ بھی بتاتا چلوں۔

یہ انکل میرے ایک دوست کے تایا تھے، میرا یہ دوست بیرون ملک رہتا تھا، ان کے تایا کراچی میں اکیلے تھے، میرے دوست نے مجھے فون کیا اور مجھے کہا " میرے تایا علاج کے لیے اسلام آباد آ رہے ہیں، تم انھیں چند دن کے لیے اپنے پاس رکھ لو" میرے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی، میں نے تایا جی کو ائیرپورٹ سے لیا، چند دنوں کے لیے ایک کمرے کے فلیٹ کا بندوبست کیا اور تایا جی کو اس فلیٹ میں "رکھ" دیا اور اس کے بعد میرے برے دن شروع ہو گئے۔

میں صبح اٹھ کر انکل کو ناشتہ کراتا اور اس کے بعد انھیں مختلف حکیموں، مختلف بابوں اور مختلف درباروں پر لے کر جاتا، میں گاڑی میں بیٹھ جاتا اور انکل درباروں، بابوں اور حکیموں کی محفل میں چلے جاتے، میں دو تین گھنٹے گاڑی میں اونگھتا رہتا، انکل کو دوپہر کا کھانا کھلانے گھر واپس آتا، چند گھنٹے سوتا، انکل کے لیے رات کے کھانے کا بندوبست کرتا اور رات کی شفٹ میں کام کرنے کے لیے دفتر چلا جاتا، اس دوران ہر بری بات، ہر حادثے اور ہر مسئلے پر ان کا ایک ہی ریسپانس ہوتا " یہ تو کچھ بھی نہیں " اور میں دل ہی دل میں اس وقت کو کوسنا شروع کر دیتا جب میں نے انکل کو ریسیو کیا تھا لیکن ان تمام قباحتوں کے باوجود انکل دل چسپ انسان بھی تھے۔

یہ دنیا جہاں کی باتیں سناتے تھے، انھیں بے شمار کتابیں ازبر تھیں، انھیں پرانی فلمیں بھی یاد تھیں اور انھوں نے تقریباً آدھی دنیا کا سفر بھی کر رکھا تھا اور سب سے بڑھ کر دنیا کے کسی مسئلے، کسی حادثے اور کسی مشکل کو بڑا نہیں سمجھتے تھے، یہ اس پر مسکراتے تھے اور " یہ تو کچھ بھی نہیں " کا نعرہ لگا دیتے تھے، آپ ان کے سامنے اپنے بچوں کی نالائقی کا ذکر کریں، وہ مسکرا کر کہیں گے " یہ تو کچھ بھی نہیں " آپ ان سے اپنے باس کی زیادتیوں کا شکوہ کریں وہ قہقہہ لگائیں گے اور کہیں گے یہ تو کچھ بھی نہیں۔

آپ ان کے سامنے مہنگائی کا رونا روئیں، آپ اپنی شوگر یا بلڈ پریشر کا ذکر کریں، آپ انھیں ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتائیں جس میں آپ کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی یا آپ انھیں ان چوریوں کے بارے میں بتائیں جن میں آپ کی ساری کمائی لٹ گئی یا آپ انھیں اس بری سرمایہ کاری کے بارے میں بتائیں جس میں آپ اپنے سرمائے سے محروم ہو گئے تھے یا آپ انھیں اپنی بیوی کی بدمزاجی، نئے لیپ ٹاپ کی خرابی، دوائوں کی مہنگائی اور ہمسایوں کی لڑائی کے بارے میں بتائیں ان کا ایک ہی ریسپانس ہوگا " یہ تو کچھ بھی نہیں " میں نے پندرہ دنوں میں ان کے منہ سے یہ فقرہ اس قدر سنا کہ یہ آہستہ آہستہ میرے منہ پر بھی چڑھ گیا اور میں بھی ہر قسم کے مسئلے پر " یہ تو کچھ بھی نہیں " کہنے لگا۔

اس دوران انکل کا دورہ مکمل ہو گیا اور ان کے جانے کا وقت آ گیا، میں نے راستے میں ان سے پوچھا " انکل آپ ہر چیز کو یہ تو کچھ بھی نہیں کیوں سمجھتے ہیں، آپ کی زندگی میں سارے مسئلے چھوٹے چھوٹے کیوں ہیں " انھوں نے قہقہہ لگایا، ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں میں پانی آ گیا اور وہ جذباتی ہو کر بولے یہ تھوڑی سی لمبی کہانی ہے" میں نے عرض کیا " انکل کوئی بات نہیں میرے پاس بھی ضایع کرنے کے لیے بہت وقت ہے"۔

انکل نے اس پر بھی قہقہہ لگایا اور بولے " آپ اچھے انسان ہیں، آپ نے میری بہت خدمت کی، آپ اگر مجھ سے یہ نہ بھی پوچھتے تو بھی میں نے آپ کو یہ ضرور بتانا تھا، اچھی باتیں، اچھی عادتیں بھی صدقہ ہوتی ہیں اور آپ کو یہ صدقہ بھی تقسیم کرتے رہنا چاہیے" اور اس کے بعد انکل نے مجھے وہ بات بتائی جس نے آنے والے دنوں میں میری زندگی میں بہت " کنٹری بیوٹ" کیا۔

ان کا کہنا تھا"وہ ایک کام یاب انسان تھے، انھوں نے شان دار نمبروں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی، دنیا کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی، بزنس شروع کیا اور روپے پیسے اور کام یابی کے دروازے کھلتے چلے گئے، شادی کی تو شہر کے سب سے بڑے خاندان کی خوب صورت ترین لڑکی ان کی بیوی بن گئی، گاڑیوں کا شوق ہوا تو دنیا کی شان دار ترین گاڑیاں ان کے گیراج میں کھڑی ہو گئیں۔

سیرو تفریح شروع ہوئی تو دنیا کو ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دوسرے کونے تک چلے گئے، عیش و عشرت شروع ہوئے تو دنیا کو جنت بنا لیا، بچے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے کمال خوب صورت اور فرمانبردار بچے عطا کیے، دوست ملے تو وقت کے شان دار ترین لوگ دوست بن گئے، اثر و رسوخ کی طرف نکلے تو صدر کینڈی نیویارک میں ان کے گھر آنے جانے لگا اور ملکہ برطانیہ انھیں لنچ اور ڈنر پر بلانے لگیں اور روپیہ پیسہ آیا تو دولت ان پر باقاعدہ عاشق ہو گئی، یہ جس مٹی پر پائوں رکھ دیتے تھے وہ سونا بن جاتی تھی اور یہ جس کوئلے کو چھو دیتے تھے اس میں ہیرے کی خصوصیت پیدا ہو جاتی تھی غرض یہ ہر لحاظ سے ایک خوش قسمت شخص تھے۔

انکل کا کہنا تھا اس آسائش، اس کام یابی اور اس کامرانی نے انھیں اور ان کے خاندان کو " شارٹ ٹمپرڈ" بنا دیا، انھیں چھوٹی چھوٹی تاخیر، چھوٹے چھوٹے مسئلے بڑے لگتے تھے، پیزا کی ڈیلیوری میں دیر ہو گئی تو ان کا پارہ چڑھ گیا، کافی کا مگ ٹھنڈا ملا تو غصہ آ گیا، گاڑی کے اندر ائیر فریشنر کا چھڑکائو نہیں ہوا تو ڈرائیور کو ڈانٹ دیا، گھنٹی بجانے پر چپڑاسی نہیں پہنچا تو کنپٹیوں میں آگ لگ گئی اور سفر کے دوران گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا تو پوری دنیا کو آگ لگانے کا اعلان کر دیا وغیرہ وغیرہ لیکن پھر اچانک وقت نے پلٹا کھایا اور زندگی کی تمام نعمتیں ایک ایک کر کے ان کے ہاتھ سے نکلنے لگیں، بڑا بیٹا کار ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔

اس وقت معلوم ہوا ہر وہ حادثہ جس میں جان بچ جائے " یہ تو کچھ بھی نہیں " ہوتا ہے، چھوٹا بیٹا سوئمنگ کے دوران ہلاک ہو گیا اس وقت معلوم ہوا کھیل کود کے دوران چوٹ لگ جائے تو یہ بھی کچھ نہیں ہوتا پھر سب سے چھوٹا بیٹا بیمار ہوا، علاج ہوا لیکن وہ بچ نہ سکا، اس سے معلوم ہوا دنیا کی ہر وہ بیماری جو آپ کی جان نہ لے وہ بھی کچھ نہیں ہوتی، پھر سارا کاروبار تباہ ہو گیا، جائیداد بک گئی، اکاؤنٹس سیز ہو گئے اور یہ محل سے سڑک پر آ گئے اس وقت معلوم ہوا دنیا کا ہر وہ نقصان جس کے آخر میں آپ کی فیکٹری، آپ کی کمپنی، آپ کا دفتر اور آپ کا گھر بچ جائے وہ بھی کچھ نہیں ہوتا، پھر تمام دوست ساتھ چھوڑ گئے۔

اس سے معلوم ہوا آپ کے ساتھ اگر ایک آدھ دوست موجود ہے تو یہ نقصان، یہ محرومی بھی کچھ نہیں، پھر بیوی کو کینسر ہوا، انکل نے رہے سہے اثاثے بیچ کر ان کا علاج کرایا لیکن وہ تندرست نہ ہوئی، ان کا انتقال بھی ہو گیا اس وقت معلوم ہوا وہ بیماریاں جو آپ کی جان بخش دیں وہ بھی کچھ نہیں ہوتیں اور آخر میں یہ خود بھی پراسٹیٹ کینسر کا شکار ہو گئے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو حکیموں اور بابوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور اس وقت معلوم ہوا آپ اگر دنیا کے تمام حادثوں کے بعد بھی صحت مند ہیں تو بھی یہ حادثے کچھ نہیں ہیں، انکل کا کہنا تھا " میں لوگوں کو جب چھوٹے چھوٹے حادثوں پر چیختا اور پریشان ہوتا دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے "یہ تو کچھ بھی نہیں " اصل حادثے، اصل پریشانیاں تو وہ ہیں جو میں نے دیکھی ہیں "۔

انکل چلے گئے اور چند دن بعد اس دنیا سے بھی رخصت ہو گئے لیکن یہ اپنی سوچ کی پنیری میرے ذہن میں لگا گئے اور آج میں جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوتا ہوں تو مجھے بے اختیار انکل یاد آ جاتے ہیں اور میں اپنے آپ سے کہتا ہوں " یہ تو کچھ بھی نہیں " اور اس کے بعد لمبی سانس لے کر دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شریک ہو جاتا ہوں، انکل میرے محسن تھے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani