وجہ دروجہ
آپ کو تھوڑا سا بیک گراؤنڈ میں جھانکنا ہوگا، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے تھے، ڈاکٹر صاحب نے 1970ء کے انتخابات میں لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا، لاہور میں اس وقت دو بڑے صنعتی گروپ تھے، اتفاق گروپ اور بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (بیکو)۔ میاں شریف اتفاق گروپ کے روح رواں تھے جب کہ سی ایم لطیف بیکو کے مالک تھے۔
ان دونوں گروپوں نے جسٹس جاوید اقبال کو سپورٹ کیا، الیکشن کے دن میاں شریف نے جاوید اقبال کے ووٹروں کے لیے ٹرانسپورٹ اور کھانے کا بندوبست کیا جب کہ سی ایم لطیف نے الیکشن کے باقی اخراجات برداشت کیے، ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن سے پہلے دونوں کو عبرت ناک سزا کی نوید سنا دی لیکن یہ دونوں اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے نہ ہٹے، آپ دونوں کی بدنصیبی ملاحظہ کیجیے، ذوالفقار علی بھٹو1971ء کے آخر میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے، آئین معطل ہوا اور حکومت نے ملک کے تمام صنعتی اور پرائیویٹ ادارے سرکاری تحویل میں لے لیے، ان اداروں میں اتفاق گروپ اور بیکو بھی شامل تھے یوں ملک کے دو بڑے صنعت کار ایک ہی رات میں فٹ پاتھ پر آ گئے، میاں شریف کے پاس چنگڑ محلے کے ایک برف خانے، ایک گاڑی اور خواتین کے زیورات کے علاوہ کچھ نہ بچا، میاں شریف کے ساتوں بھائیوں کے گھروں سے کل اسی ہزار روپے نکلے۔
"گرینڈ لائز" بینک کے منیجر نے ذاتی ضمانت پر قرض دیا اورمیاں شریف نے دوبارہ کاروبارشروع کر دیا، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں، میاں نواز شریف کی چار نسلوں میں لیڈر ایک ہی تھے اور وہ تھے ان کے والد میاں شریف، یہ وہ شخص تھے جنہوں نے جاتی عمرہ کے انتہائی غریب خاندان کو تین بار ملک کا بڑا صنعتی گروپ بنایا، جنہوں نے نواز شریف کو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو میاں شہباز شریف بنایا، اگر اس ملک میں شک کم اور برداشت زیادہ ہوتی تو میاں شریف کی کہانی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی، ان پر کتابیں بھی لکھی جاتیں مگر افسوس ان جیساشخص بھی سیاسی مخالفت کا شکار ہوگیا، آپ سی ایم لطیف کو بھی دیکھئے، وہ بھی ایک کمال انسان تھے لیکن وہ بھٹو کا جھٹکا برداشت نہ کر سکے، وہ جرمنی چلے گئے اور انھوں نے باقی زندگی ایک گم نام جرمن گاؤں میں گزار دی، وہ دوبارہ نہ اٹھ سکے۔
ہم میاں شریف کی طرف واپس آتے ہیں، یہ 1970ء کی دہائی میں اتفاق گروپ کو دوبارہ بنا رہے تھے، لاہور میں جرمنی کے قونصل جنرل اکثر ان سے ملاقات کے لیے آتے تھے، قونصل جنرل نے انھیں ایک دن مشورہ دیا"آپ اگر مستقبل میں 1972ء جیسے حادثوں سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ اپنے کسی بچے کو سیاست میں لے آئیں، یہ بچہ آپ کے صنعتی گروپ کی حفاظت کرے گا ورنہ کوئی اور بھٹو آئے گا اور آپ کی یہ ایمپائر بھی تباہ ہو جائے گی" میاں شریف کو یہ مشورہ اچھا لگا اور انھوں نے اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کو اصغر خان کی پارٹی پاکستان تحریک استقلال میں شامل کر دیا، اصغر خان اس دور میں اتنے ہی مشہور تھے جتنے آج عمران خان ہیں اور ان کی پارٹی تحریک استقلال کی وہی حیثیت تھی جو آج پاکستان تحریک انصاف کو حاصل ہے۔
جنرل ضیاء الحق اندرون خانہ اصغر خان کو سپورٹ کر رہے تھے، اصغرخان نے شیروانی تک سلوا لی تھی، ان کا خیال تھا، میں بھٹو کے خلاف عوامی تحریک چلاؤں گا، جنرل ضیاء الحق بھٹو کو فارغ کریں گے، فوج "فیئر اینڈ فری" الیکشن کرائے گی اور یوں اقتدار اصغر خان کے حوالے کر دیا جائے گا، یہ خواب ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذ تک جاری رہا لیکن فوج جوں ہی اقتدار میں آئی، اصغر خان، ان کی پارٹی اور ان کی شیروانی تینوں ماضی کا حصہ بن گئے اور جنرل ضیاء الحق اپنے "رفقاء کار" کے ذریعے مزے سے حکومت کرنے لگے، یہ تبدیلی میاں نواز شریف کو تحریک استقلال سے "کنگز پارٹی" میں لے آئی۔
یہ بھی جنرل ضیاء الحق کے رفیق کار بن گئے، باقی کہانی ملک کے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں، ہم 1980ء تک کے شریف خاندان کا تجزیہ کریں توہمیں محسوس ہوگا اگر ذوالفقار علی بھٹو اتفاق گروپ کو نیشنلائز نہ کرتے تو یہ خاندان شاید سیاست میں نہ آتا اور یہ لوگ بھی ملک کے درجنوں سیٹھوں کی طرح چپ چاپ "فائیو اسٹار لائف" انجوائے کرتے رہتے، یہ ایک سیاسی حادثہ تھا جس نے انھیں سیاستدان بنا دیا اور ایک دوسرے سیاسی حادثے نے انھیں اپنے اثاثے باہر منتقل کرنے اور اپنے بچے بیرون ملک رکھنے پر مجبور کر دیا، وہ دوسرا سیاسی حادثہ کیا تھا؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے بھٹو خاندان کی طرف آئیں گے۔
جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء لگا دیا، ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا، بھٹو کی گرفتاری کے ساتھ ہی ان کا پورا خاندان بکھر گیا، بھٹو کرپٹ نہیں تھے، وہ صنعت کار اور تاجر بھی نہیں تھے چنانچہ ملک سے باہر ان کی کوئی پراپرٹی، کوئی بینک اکاؤنٹ اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا لہٰذا بھٹو خاندان 1977ء سے 1988ء تک دنیا میں دربدر پھرتا رہا، اس وقت اگر کرنل قذافی بھٹو کے بچوں کی مدد نہ کرتے تو یہ لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے، بھٹو خاندان دس سال کے اس خوفناک دورانئے میں اس نتیجے پر پہنچا، ہم نے اگر سیاست کرنی ہے تو پھر ہمارے پاس سرمایہ بھی ہونا چاہیے اور ملک سے باہر ٹھکانے بھی چنانچہ جب 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا تو پھر بھٹو خاندان نے سوئس اکاؤنٹس بھی کھولے، سرے محل بھی خریدے، دوبئی میں بھی پراپرٹی بنائی۔
فرانس اور امریکا میں بھی نان نفقے کا بندوبست کیا اور پاکستان کے اندر بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، دولت کے اس انبار میں 1993ء سے 1996ء میں ہزار گنا اضافہ ہوگیا، شریف خاندان بھی 1992ء اور 2000ء میں اسی عمل سے گزرا، میاں نواز شریف سے18 جولائی 1993ء کو راولپنڈی کے کور کمانڈر نے چھڑی کے ذریعے استعفیٰ لیا تھا، صدر غلام اسحاق نے بھی ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنا دیے اور یہ وہ دوسرا سیاسی حادثہ تھا جس نے شریفوں کو بھی بھٹوز کی طرح ملک سے باہر ٹھکانے بنانے کا راستہ دکھا دیا، رہی سہی کسر 1999ء میں پوری ہوگئی، جنرل پرویز مشرف نے ان کی ساری پراپرٹی، جائیداد، فیکٹریاں اور گھر ضبط کر لیے، یہ شاہ عبداللہ کی مدد سے جیلوں سے نکلے، سعودی عرب پہنچے اورسات سال جلاوطن رہے، یہ جلاوطنی کے وہ سات سال تھے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کے دونوں بیٹے اور ایک داماد ملک سے باہر ہیں۔
جس کے نتیجے میں ان کے کاروبار دوبئی، جدہ اور لندن میں ہیں، آپ اگر تھوڑا سا مزید غور کریں گے تو آپ کو الطاف حسین کی لندن، آصف علی زرداری کی نیویارک اور جنرل پرویز مشرف کی دوبئی میں رہائش گاہوں کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی، آپ کو یہ بھی سمجھ آ جائے گا عمران خان کے بچے ان کی نانی کے گھر کیوں ہیں اور شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، چوہدری سرور اور علیم خان کی اولاد ملک سے باہر کیوں ہے اور یہ لوگ بھی باہرکیوں ٹھکانے بنا رہے ہیں؟ آپ اگر غور کریں گے تو آپ کو یہ جانتے ہوئے بھی دیر نہیں لگے گی ہمارے بیورو کریٹس، ریٹائر فوجی افسر، صنعت کار، تاجر اور زمیندار یورپ، ملائشیا، مڈل ایسٹ اور سری لنکا میں جائیدادیں کیوں خرید تے ہیں۔
یہ دوسری شہریت کیوں لیتے ہیں، یہ بچوں کو ملک سے باہر کیوں سیٹل کرا تے ہیں اور یہ اپنی زندگی کے آخری سال اسلامی جمہوریہ پاکستان سے باہر کیوں گزارتے ہیں؟ مجھے یقین ہے ہم جس دن ٹھنڈے دل و دماغ سے ان وجوہات پر غور کریں گے، ہم اس دن ان کے حل تک پہنچ جائیں گے، ہمیں ماننا ہوگا، ہم اگر آدھی رات کے وقت صنعت کاروں سے صنعتیں، تاجروں سے تجارت اور زمینداروں سے زمینیں چھین لیں گے تو بزنس مین اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے سیاست میں بھی آئیں گے، ہم اگر حکومتوں کو ڈنڈوں کے زور پر گھر بھجواتے رہیں گے، ہم اگر لیڈروں کے گھروں پر قبضے کراتے رہیں گے تو یہ آف شور کمپنیاں بھی بنائیں گے، یہ اپنے کاروبار اور اپنے بچے بھی باہر رکھیں گے اور یہ دوسرے ملکوں میں جائیدادیں بھی خریدیں گے اور ہم اگر انھیں ملک میں تحفظ نہیں دیں گے تو یہ لوگ یہ تحفظ باہر سے لیں گے اور اس کا نقصان بہرحال اس ملک کو ہوگا، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں۔
ہمیں اب دائروں کا یہ سفر بند کر دینا چاہیے، ہمیں بار بار پرانی کہانی دوہرانا بند کر دینی چاہیے، کیوں؟ کیونکہ ہماری تاریخ گواہ ہے، ہم نے جب بھی کرپشن کے نام پر پرانے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی، ہمیں ان سے زیادہ کرپٹ لوگ ملے اور یہ لوگ بھی زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے، مجھے خطرہ ہے ہم نے اگر ان لوگوں کو ایک بار پھر نکال دیا تو اس بار صرف یہ لوگ اپنے اثاثے باہر نہیں رکھیں گے بلکہ ان کے وزیر، ان کے ایم این ایز بھی باہر بیٹھ جائیں گے اور جب "انقلاب" چھ سات سال بعد واپس جائے گا تو یہ لوگ زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آ جائیں گے، ہم یہ کھیل کب تک کھیلتے رہیں گے، ہم کب تک ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی گیم کرتے رہیں گے، آپ یقین کیجیے کرپشن ان لوگوں کو نکالنے سے ختم نہیں ہوگی، سسٹم بنانے سے کم ہوگی اور ہم لوگ وہ نہیں بنا رہے۔