دی گیونگ پلیج
بل گیٹس اور وارن بفٹ دنیا کی امیر ترین شخصیات ہیں، بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے بانی ہیں جب کہ وارن بفٹ سرمایہ کاری کی درجنوں کمپنیوں کے مالک ہیں، یہ دونوں دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ بھی ہیں، بل گیٹس 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ 99 فیصد دولت دنیا کے غریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں، بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010ء میں" دی گیونگ پلیج" کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنایا، یہ ادارہ "بلینر کلب" بھی کہلاتا ہے، اس کلب کی ممبر شپ کی صرف دو شرائط ہیں، ایک، دنیا کے صرف ارب پتی لوگ اس کلب کے رکن بن سکتے ہیں، دو، یہ کلب صرف ان ارب پتی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے جو اپنی دولت کا کم از کم آدھا حصہ خیرات کرنے کے لیے تیار ہوں، جولائی 2013ء تک دنیا کے 115 ارب پتیوں نے اس کلب کی ممبر شپ حاصل کر لی تھی، ان ارب پتیوں میں زنانہ مصنوعات بنانے والی کمپنی (Spanx) کی مالکہ سارا بلیک لی، بل گیٹس کے ساتھی اور مائیکرو سافٹ کے بانی رکن پال ایلن (یہ دنیا کے 53 ویں امیر ترین شخص ہیں)، فلم ساز سٹیو بینگ، امریکی بزنس مین اور سیاستدان مائیکل بلومبرگ (یہ 31 بلین ڈالر کے مالک ہیں)، آریکل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لیری ایلی سن، فیشن ڈیزائنر ڈیانی وان فرسٹن برگ، آسٹریلین بزنس مین اینڈریو ٹویگی فاریسٹ شامل ہیں، ان کے علاوہ امریکا کے بڑے بزنس مین ریڈ ہیسٹنگز، ہلٹن ہوٹلز کے مالک بیرن ہلٹن، جارج لوکس، جیفری اسکول، سڈنی کیمل، ٹیڈ ٹرنر اور مارک ذکر برگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں، یہ تمام لوگ اپنی دولت کا نصف سے تین چوتھائی حصہ عام لوگوں کے لیے وقف کر چکے ہیں۔
"دی گیونگ پلیج" چیرٹی کے لیے ریسرچ بھی کرتا ہے، یہ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں، یہ ماہرین پوری دنیا کا سروے کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ڈونر کو وہ شعبے بتاتے ہیں جن میں یہ اپنی دولت لگا سکتے ہیں مثلاً آپ بل گیٹس کو لے لیجیے، یہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے ویکسین تیار کرتے ہیں، بل گیٹس نے دسمبر 1999ء میں پولیو کے خلاف جہاد شروع کیا، پولیو اس وقت 127 ممالک میں موجود تھا، بل گیٹس نے اربوں روپے کی پولیو ویکسین تیار کرائی اور عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ویکسین بچوں تک پہنچانا شروع کر دی، آج بل گیٹس کی وجہ سے پولیو صرف تین ممالک پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا تک محدود ہے، بل گیٹس ان ممالک کو بھی پولیو فری بنانا چاہتے ہیں، یہ پاکستان کے ہر وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور صرف ایک ہی درخواست کرتے ہیں"آپ مہربانی کرکے پولیو ورکرز کو تحفظ دیں تا کہ ہم آپ کے ملک سے پولیو ختم کر سکیں" حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن شکیل آفریدی کی "مہربانی" سے ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو چکی ہیں، شکیل آفریدی این جی او "سیو دی چلڈرن" کے ملازم تھے، انھوں نے پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم تیار کی، ایبٹ آباد کی دو ایل ایچ ڈبلیوز آمنہ بی بی اور بخت بی بی کی خدمات حاصل کیں، یہ خواتین اسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوئیں، اسامہ کے بچے کا ڈی این اے لیا، یہ ڈی این اے اسامہ کے ڈی این اے سے میچ ہوگیا اور امریکا نے خون کے اس قطرے کی بنیاد پر اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کر دیا، اسامہ بن لادن مارے گئے لیکن پاکستان کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں اندیشوں میں گھر گئیں، اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے والے آج پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں، ان حملوں میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظ قتل ہوتے ہیں، ان کے قتل کی خبریں عالمی میڈیا میں جگہ پاتی ہیں لیکن بل گیٹس اس کے باوجود پولیو کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، یہ ہار نہیں مان رہے، پال ایلن نے اپنی دولت سائنسی ریسرچ کے لیے وقف کر دی، یہ سائنس پر ریسرچ کرنے والے مختلف اداروں کو ڈونیشن دیتے ہیں، لیری ایلی سن اپنی دولت سے بڑھاپے اور اس کے علاج پر ریسرچ کرا رہے ہیں، ڈیانی وان نے اپنی دولت خواتین کے مسائل کے حل کے لیے وقف کر دی ہے جب کہ دوسرے بزنس مین اپنی دولت ماحولیات، صاف پانی، پرائمری تعلیم، میڈیکل اور جانوروں کی بہبود پر خرچ کر رہے ہیں۔
دنیا میں مسائل حل کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں، حکومت، عوام اور حکومت عوام۔ حکومتوں کا کام ملکوں میں نظام بنانا اور اس نظام پر سختی سے عمل کرانا ہوتا ہے لیکن اگر حکومتیں یہ کام نہ کرا سکیں تو پھر تمام تر ذمے داری عوام پر شفٹ ہو جاتی ہے، عوام کو آگے بڑھ کر اپنے مسئلے خود حل کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر عوام بھی متحرک نہ ہوں تو پھر تیسرا طریقہ حکومت اور عوام کا اشتراک بچ جاتا ہے، عوام بالخصوص معاشرے کے بااثر لوگ اگر حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو مسائل حل ہونے لگتے ہیں اور یہ بلینر کلب تیسرا طریقہ ہے، یہ لوگ دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ہم اگر اپنے ملک کا جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا، ہمارے ملک میں حکومتیں اور عوام دونوں فیل ہو چکے ہیں، حکومت ختم ہو چکی ہے جب کہ عوام بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں چنانچہ اب معاشرے کو متحرک کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے، ملک کے بااثر لوگ "دی گیونگ پلیج" کی طرح آگے آئیں، پاکستان میں بلینر کلب بنائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں، یہ ملک دوبارہ پٹڑی پر آ جائے گا چنانچہ ملک ریاض، میاں منشاء اور اقبال زیڈ احمد جیسے لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے، یہ "ارب پتی کلب" بنائیں، یہ ملک کے بنیادی مسائل کی فہرست بنائیں، آپس میں شعبے تقسیم کریں، حکومت سے تعاون لیں اور کام شروع کر دیں، ان میں سے ایک بنیادی تعلیم کی ذمے داری اٹھالے، یہ جدید ترین سلیبس بنوائے، سرکاری اسکولوں کو بتدریج "اون" کرنا شروع کرے اور ملک میں تعلیم کا انقلاب برپا کر دے، کوئی ایک ارب پتی صحت کی ذمے داری اٹھا لے، یہ اسپتال بنوائے، میڈیکل کے طالب علموں کو اپنے ساتھ شامل کرے، بین الاقوامی ڈونرز کی مدد لے، ادویات پر ریسرچ کرائے اور عام اور غریب لوگوں کی طبی ضروریات پوری کر دے، کوئی صاف پانی کی ذمے داری اٹھا لے، کوئی ماحولیاتی آلودگی پر کام کرے، کوئی تھر میں پانی کا بندوبست کر دے، کوئی ملک میں سستے گھروں کی ٹیکنالوجی عام کر دے، کوئی غریب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ سنبھال لے، کوئی منشیات کے خلاف بڑے پیمانے پر کام کرے، کوئی گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنوائے، کوئی یتیم بچوں، بیوہ عورتوں اور بوڑھے لوگوں کے سینٹر بنائے، کوئی ایمبولینس سروس شروع کر دے اور کوئی صرف قبرستانوں کی ذمے داری اٹھا لے، یہ لوگ اگر اکٹھے ہو جائیں، یہ کلب بنائیں، یہ نظام ترتیب دیں اور اگر یہ ایک سسٹم کے تحت لوگوں کی مدد کرنا شروع کردیں توہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں ملک میں انقلاب آ جائے گا۔
پاکستان دنیا میں چیرٹی کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ چیرٹی کرتے ہیں، ہمارے ملک کے بھوکے ترین لوگ بھی مسجد، درگاہ اور مدرسے کو چندہ دیتے ہیں یا دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں، اس کی وجہ ہماری کوششوں میں تسلسل اور خیراتی اداروں میں کوآرڈی نیشن کی کمی ہے، ملک کے مخیر حضرات چیرٹی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، یہ بیک وقت تمام مسائل جھولی میں ڈال لیتے ہیں، یہ دستر خوان بھی بنا لیتے ہیں، اسپتال بھی کھول لیتے ہیں، اسکول بھی قائم کر دیتے ہیں اور ایمبولینس سروس بھی شروع کر دیتے ہیں، منصوبہ بندی کی اس کمی کی وجہ سے چیرٹی ورکرز تھک جاتے ہیں، سرمایہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور مسائل بھی قائم رہتے ہیں، یہ لوگ بھی اگر امریکی بزنس مینوں کی طرح آپس میں ایک ایک شعبہ تقسیم کر لیں تو اس سے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور یہ لوگ اپنے اپنے شعبے کے ایکسپرٹ بھی بن جائیں گے، پاکستان میں چیرٹی کا دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی تنظیمیں اور ادارے ہیں، یہ ادارے اور تنظیمیں انتہائی فعال اور متحرک ہیں، یہ عام لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں لیکن صرف مساجد، درگاہوں اور مدارس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، یہ زندگی کے دوسرے شعبوں کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے، یہ درست ہے، مدارس، درگاہیں اور مساجد بھی ضروری ہیں لیکن معاشرہ بھی ہم سب کی ذمے داری ہوتا ہے، میں نے آج تک کسی مذہبی تنظیم کو منشیات کے خلاف کام کرتے نہیں دیکھا، کاش ملک کی کوئی ایک مذہبی تنظیم ہیروئن کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی ذمے داری اٹھا لے، یہ ملک بھر میں نشیوں کی بحالی کا ذمے اٹھا لے یا کوئی مذہبی تنظیم بوڑھوں کے لیے اولڈ ہومز بنا لے یا پھر کوئی مذہبی تنظیم پورے ملک کو صاف پانی کی فراہمی شروع کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت تھر کے قحط زدہ علاقوں میں پانی کے تالاب بنا دے یا پھر کوئی جماعت پورے ملک میں بلڈ بینکس قائم کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت پولیو ویکسین کی ذمے داری اٹھا لے یا کوئی مذہبی جماعت ملک بھر میں چوکیدار کا نظام بنا دے یا کوئی مذہبی جماعت ٹریفک، ٹریفک سگنلز یا صفائی کا نظام سنبھال لے، ہماری مذہبی جماعتیں ان مسائل کو اپنی ذمے داری کیوں نہیں سمجھتیں، یہ صرف مساجد، مدارس اور درگاہوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئی ہیں؟ یہ عام انسانوں کو اپنا فرض کیوں نہیں سمجھتیں؟ عالم اسلام بالخصوص ہمارے ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی گورے خیرات میں بھی ہم سے آگے نکل گئے، ہمارے ملک سے پولیو ختم کرنے کی ذمے داری بھی بل گیٹس نے اپنے سر لے رکھی ہے جب کہ ہم پولیو ورکرز کو قتل کر رہے ہیں، کاش ہمارے علما پولیو کے خلاف اکٹھے ہو جائیں اور ارب پتی سرمایہ کار ملک میں"دی گیونگ پلیج" جیسے ادارے بنا لیں، یہ نیکی کے کام میں ہی جمع ہو جائیں۔