شاردا۔ قدیم ترین یونیورسٹی
کیرن کا ریسٹ ہاؤس دریائے نیلم کے کنارے بھارتی مقبوضہ علاقے کے بالکل سامنے تھا، ہمارے کمرے کی کھڑکی اور ٹیرس سے مقبوضہ کشمیر کے مکانات، کیرن کی جامع مسجد اور بھارتی پوسٹیں نظر آتی تھیں، یہ ریسٹ ہاؤس آزاد کشمیر کے محکمہ سیاحت کی ملکیت ہے، وادی نیلم کے انچارج غلام مرتضیٰ ملک ہیں، یہ سادہ طبیعت اور دھیمے مزاج کے انسان ہیں، خدمت گزار ہیں، ملک اور وادی نیلم دونوں کے لیے پریشان رہتے ہیں، ریسٹ ہاؤس کے لان میں سیب، ناشپاتی اور اخروٹ کے بیسیوں درخت ہیں۔
یہ درخت پھلوں سے لدے تھے، میں نے زندگی میں پہلی بار درخت سے سیب اور اخروٹ توڑ کر کھائے، آپ نے اگر زندگی میں تازہ اخروٹوں اور سیبوں کا مزہ نہیں چکھا تو آپ پھر بہت بڑے تجربے سے محروم ہیں اور آپ کو پہلی فرصت میں یہ تجربہ کرنا چاہیے، پاکستانی علاقے میں کھڑے ہو کر مقبوضہ مسجد سے اذان کی آواز سننا بھی ایک تجربہ تھا، مقبوضہ کشمیر کا مؤذن بھارتی توپوں کے سائے میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدا لگا رہا تھا اور ہم سرحد کے پار کھڑے ہو کر اللہ کا یہ پیغام سن رہے تھے، دنیا کی ساری فوجیں سرحدوں پر قابض ہو سکتی ہیں، یہ انسانوں کے راستوں میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر سکتی ہیں لیکن یہ پرندوں، ہواؤں اور اذانوں کی آوازیں نہیں روک سکتیں، مجھے اس وقت محسوس ہوا مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پابند ہیں لیکن بھارتی فوجی کوشش کے باوجود اذانوں کو نہیں روک سکے، یہ کل بھی آزاد تھیں، یہ آج بھی آزاد ہیں اور یہ کل بھی آزاد رہیں گی۔
شاردا کیرن کے بعد ہماری اگلی منزل تھی، یہ علاقہ ہندو مت میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو اسلام میں مکہ مکرمہ، عیسائیت میں ویٹی کن سٹی اور یہودیت میں یروشلم کو حاصل ہے، ہندو مت میں شاردا علم و حکمت کی دیوی تھی، آپ اگر ہندومیتھالوجی سے واقف ہیں تو پھر آپ نے سراسوتی ندی کا ذکر ضرور سنا ہو گا، اس ندی کا پانی ہندوؤں میں اتنا ہی متبرک سمجھا جاتا ہے جتنا مسلمان آب زم زم اور عیسائی ہولی واٹر کو سمجھتے ہیں، یہ ندی سراسوتی جھیل سے نکلتی ہے اور یہ جھیل شاردا کے بعد ہندوؤں کے دوسرے مقدس ٹمپل ناردا کے پیروں میں موجود ہے اور یہ دونوں علاقے آزاد کشمیر میں ہیں، ہندوؤں نے تین ہزار سال قبل مسیح سے دو ہزار قبل مسیح میں ناردا اور شاردا کے مقامات پر شاندار ٹمپل تعمیر کیے، یہ ٹمپل فن تعمیر کے عظیم شاہکار ہیں، شاردا کیرن سے دو اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
سڑک کی حالت بہت خراب تھی لیکن ہم اس کے باوجود شاردا پہنچے، یہ بھی پہاڑوں میں گھری ہوئی خوبصورت وادی ہے، آپ جوں ہی شاردا میں داخل ہوتے ہیں، آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ جنت کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں، وادی لکڑی کے معلق پل سے منسلک ہے، گاڑیاں ہچکولے کھاتی ہوئی پل پار کرتی ہیں، شاردا میں ملٹری کیمپ بھی ہے، آپ کو وہاں فوجی جوان نظر آتے ہیں، شاردا کا ٹمپل ملٹری کیمپ سے متصل ہے، سیاح باقاعدہ شناخت کے بعد ٹمپل تک پہنچتے ہیں، ٹمپل تک جانے کے لیے چبوتروں جیسی 63 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں، ہندوؤں میں 63 کا ہندسہ مقدس مانا جاتا تھا چنانچہ یہ مندر 63 سیڑھیوں کے بعد ٹیلے پر بنایا گیا، ٹمپل زمانے کی دست برد کا شکار ہے، دیواریں، چھتیں اور نقش نگار وقت کے پیٹ میں دفن ہو چکے ہیں لیکن مرکزی عبادت گاہ کی دیواریں تاحال قائم ہیں، مین گیٹ کی آرچ آدھی غائب ہے مگر عمارت کا شکوہ آج بھی باقی ہے، آپ کو قدیم پتھروں اور کائی زدہ دیواروں سے عظمت رفتہ کی صدا آج بھی سنائی دیتی ہے۔
یہ جگہ کبھی ہندوستان کا متبرک ترین مقام تھا، ٹمپل کے دائیں جانب پہاڑی نالہ رواں دواں تھا، یہ نالہ مدومتی کا تالاب کہلاتا تھا، ہندو یاتری شاردا پہنچ کر اس تالاب میں اشنان کرتے تھے اور اس کے بعد ننگے پاؤں 63 سیڑھیاں چڑھ کر ٹمپل آتے تھے، ٹمپل میں شاردا دیوی کا بت تھا، یہ بت ہوا میں معلق تھا اور چاند کی ہر 18 ویں تاریخ کو جھومتا تھا، پرانوں میں لکھا ہے جو شخص شاردا دیوی کے بت کو ہاتھ لگاتا تھا وہ چند لمحوں میں پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا، یہ ٹمپل بعد ازاں ہندوستان کا مذہبی کمپلیکس بن گیا، بدھ مت آیا تو اس نے بھی اسے مرکز مان لیا، ٹمپل کے گرد یونیورسٹی بن گئی، یونیورسٹی میں ادب، طب، فلکیات، ہیت، نجوم اور فلسفے کی تعلیم دی جانے لگی، شاردا یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی عمارتوں کے آثار آج بھی وادی کے مختلف پہاڑوں اور چٹانوں پر موجود ہیں، ٹمپل سے ایک کوس کے فاصلے پر کشن کھاٹی تھی، یہ روحانی غار تھا، ہندو پنڈت اور بودھ بھکشو 1947ء تک اس غار میں تپسیا کرتے تھے، یہ غار میں دم سادھ کر دو دو سال تک بیٹھے رہتے تھے۔
کھاٹی پر آج بھی مورتی کے آثار اور نقش موجود ہیں، شاردا تاریخ میں اس قدر اہم تھا کہ اس کا ذکر پرانوں میں بھی ملتا ہے، قدیم ہندو مؤرخین کی کتابوں میں بھی اور انگریز مؤرخین اور افسروں کے روزنامچوں میں بھی۔ آپ اگر ٹمپل کے صحن میں کھڑے ہوں اور آپ بائیں جانب دیکھیں تو آپ کو دور سفید برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں، ان پہاڑوں میں ناردا کا ٹمپل اور سراسوتی جھیل ہے، ہندو اور بودھ یاتری شاردا سے ننگے پاؤں ناردا جاتے تھے، ناردا کا ٹمپل نوگھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے، یہ دونوں ٹمپل اس قدر مقدس ہیں کہ جنوبی ہندوستان کے ہندو آج بھی صبح اشنان کے بعد شاردا کی طرف منہ کر کے شاردا دیوی کو پرنام کرتے ہیں، یہ دونوں ٹمپل مذہبی سیاحت کے اہم ترین مراکز ہیں مگر حکومت نے کیونکہ آزاد کشمیر میں غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے، کوئی غیر ملکی شخص این او سی کے بغیر آزاد کشمیر میں داخل نہیں ہوسکتا اور این او سی کا عمل بہت مشکل ہے لہٰذا ہم ان سیاحتی مقامات سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
حکومت اگر اپنی پالیسی میں ذرا سی نرمی پیدا کرلے، یہ شاردا اور ناردا کے مقامات کو سیاحوں کے لیے کھول دے تو ہر سال ہزاروں لاکھوں بودھ اور ہندو ان مقامات کی زیارت کے لیے آ سکتے ہیں، اس سے علاقے میں بھی خوش حالی آئے گی اور سیاحت کی انڈسٹری بھی مضبوط ہو گی، دنیا اوپن ہو چکی ہے، آج اسرائیل تک مسلمانوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے رہا ہے، بس اس کے لیے کسی اسرائیلی سیاحتی کمپنی کا پیکیج لینا ضروری ہے، پاکستان سے ہر سال سیکڑوں ہزاروں زائرین خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی درگاہوں پر حاضری کے لیے بھارت جاتے ہیں لیکن ہم 2014ء میں بھی دیواریں اونچی کر کے اندر محصور بیٹھے ہیں، ہم اگر بھارت کے ساتھ مل کر شاردا اور ناردا کے سیاحتی پیکیج بنا لیں تو اس سے دونوں ملکوں کی ٹینشن میں بھی کمی آجائے گی اور سیاحتی انڈسٹری بھی مضبوط ہوگی۔
شاردا کو قدرت نے حسن کی دولت سے نواز رکھا ہے، وادی میں دریائے نیلم بہتا ہے، ہندو اس دریا کو کشن گنگا کہتے تھے، بھارت اسی مناسبت سے دریائے نیلم کے ماخذ پر کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے، شاردا میں چاروں اطراف چیڑھ کے گھنے جنگل ہیں، جنگل میں آبشاریں، ندیاں اور جھیلیں ہیں اور ان جھیلوں، ندیوں اور آبشاروں پر تیز آوارہ ہوائیں اڑتی ہیں، آپ کو علاقے کی خوبصورتی مبہوت کر دیتی ہے لیکن جہاں تک ہماری ذہنی گندگی اور سماجی بے ترتیبی کا معاملہ ہے وہ تہذیب اور شائستگی کو بری طرح روند چکی ہے، ہم نے قدرت کی شاہکار وادی کو بدترین شکل میں تبدیل کر دیا ہے، پورے علاقے میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔
پلاسٹک کی بوتلیں، ریپر اور گتے کے ڈبوں کے انبار ہیں اور کیچڑ اس آلودگی کو بیماری میں تبدیل کر رہا ہے، میری محکمہ سیاحت، آزاد کشمیر حکومت اور فوج سے درخواست ہے آپ فوری طور پر شاردا ویلی کی صفائی کا بندوبست کریں، یہ وادی عملاً فوج کے پاس ہے، اگر ملٹری کیمپ کے انچارج مہربانی کریں، یہ مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر وادی میں صفائی مہم شروع کریں اور ساتھ ہی سیاحوں کو سمجھانے کی ذمے داری اٹھالیں تو قدرت کا یہ شاہکار برباد ہونے سے بچ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ خوبصورت وادی تخلیق کرنے والا اللہ تعالیٰ ہمیں اس گناہ عظیم پر معاف نہیں کرے گا، جان شیر خان شاردا میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے انچارج ہیں، یہ بھی شاندار انسان ہیں، میں نے ان سے بھی صفائی کی درخواست کی، یہ بھی تیار ہیں بس ملٹری کیمپ کے انچارج کی طرف سے ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے اور یہ وادی دوبارہ اپنے اصل مقام پر آ جائے گی۔
ہم شاردا سے واپس کیرن آئے، کیرن سے ایک سڑک اپر نیلم کی طرف جاتی ہے، آپ اس پر سفر کرتے ہوئے دس منٹ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں، پہاڑ پر درمیانے سائز کا ایک میدان ہے اور اس میدان میں نیلم گاؤں آباد ہے، میدان کے دائیں بائیں اور پیچھے بھی پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں کی اترائیوں پر سیکڑوں گھر آباد ہیں، یہ گھر، یہ اترائیاں اور یہ میدان نیلم ہیں، وہ نیلم جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ نیلم ویلی کہلاتا ہے، نیلم کے بالکل سامنے کیرن سیکٹر کے پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں پر بھارتی فوج کی توپیں لگی ہیں، نیلم ویلی کے باسی روز کیرن کے پہاڑ دیکھتے ہیں، چیڑھ کے درختوں میں چھپی توپوں کو محسوس کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں۔
اگر یہ توپین بول پڑیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ یہ اندیشہ درست ہے کیونکہ ایل او سی کے دونوں طرف ہمارے لوگ آباد ہیں، ہمارے فوجی احتیاط سے گولی چلاتے ہیں جب کہ بھارتی فوج کی نظر میں ادھر بھی دشمن ہیں اور ادھر بھی دشمن لہٰذا یہ جب بھی فائرنگ کرتے ہیں اندھا دھند کرتے ہیں اور اس فائرنگ سے بیسیوں لوگ شہید ہو جاتے ہیں، ہماری پوزیشن "ایل او سی" پر ہمیشہ حساس ہوتی ہے، ہمارے فوجی اندھا دھند فائرنگ نہیں کر سکتے اور بھارت ہمیشہ ہماری کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتا ہے، کاش امن ہو جائے، کاش کشمیریوں کو بھی سانس کی مہلت مل جائے، کاش ہم کشمیر کا کوئی پرامن حل نکال لیں۔