سینٹ پال کے دیوانے
گراس ایک پرانا شہر ہے، گلیاں تنگ، مکان تہہ در تہہ اور پرانا اونچا گرجا گھر، آپ اس قسم کے قصبے اور شہر عموماً ہالی ووڈ کی پرانی فلموں میں دیکھتے ہیں، میں شہر میں اتر گیا، ہر دس بیس قدم کے بعد سیڑھیاں آ جاتی تھیں، گلیوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر چنے تھے، مکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، دیوار سے دیوار اور کھڑکی سے کھڑکی ملی تھی، شہر میں ایسی جگہیں بھی تھیں جہاں سے نیچے دیکھیں تو گلی سرنگ محسوس ہوتی تھی، گرجا گھر کا گھنٹہ اس سرنگ کو ماضی میں لے جاتا تھا۔
گلیوں میں چھوٹی چھوٹی بے شمار دکانیں تھیں اور ہر دکان میں خوشبو، عطر، صابن اور موم بتیاں بک رہی تھیں، آپ کو اگر ہالی ووڈ کی فلم "پرفیوم، دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ "گراس" تک پہنچ جائیں گے، فلم کا زیادہ تر حصہ گراس اور اس کے مضافات میں فلمایا گیا تھا، گراس ہو بہو پرفیوم فلم کا سیٹ ہے، وہی گرجا گھر، وہی تنگ گلیاں، وہی تہہ در تہہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مکان اور وہی پھولوں کی مارکیٹ، ہر چیز، ہر منظر ویسا تھا جیسا فلم میں دکھایا گیا تھا۔
گراس کا "پرفیوم میوزیم" دیکھنے کے قابل ہے، آپ اگر خوشبو کی تاریخ کو سمجھنا چاہتے ہیں، آپ اگر یہ جاننا چاہتے ہیں قدیم زمانے کا انسان پھولوں، درختوں اور پودوں سے خوشبو کیسے کشید کرتا تھا، فراعین مصر کے دور میں عطر کیسے بنایا جاتا تھا، عربوں نے اس آرٹ کو سائنس کیسے بنایا اور پرفیومری کا جدید دور کب اور کیسے شروع ہوا تو آپ یہ میوزیم ضرور دیکھیں، میوزیم میں خوشبو کو کشید کرنے کا پرانا سسٹم بھی موجود ہے اور جدید ترین آلات بھی، خوشبودار پودے اور پھول بھی ہیں اور جگہ جگہ ایسی نلکیاں بھی لگی ہیں جن کے ساتھ پش بٹن لگے ہیں، آپ بٹن دبائیں تو نلکی سے خوشبو کی پھوار برستی ہے۔
میوزیم میں پرفیوم کی لیبارٹری بھی ہے، یہ لیبارٹری دیکھنے والوں کو سمجھاتی ہے، کون سی خوشبو کس خوشبو کے ساتھ مل کر کون سی پرفیوم بنتی ہے، عمارت میں خوشبو سازی کے دنیا جہان کے آلات اور نوادرات بھی رکھے ہیں، ان میں بریلی کا عطر اور پاکستان کی سرمے دانی بھی موجود ہے، دیواروں پر خوشبو کی تاریخ درج ہے، گراس کی پرفیوم انڈسٹری کے ارتقاء کی تصاویر بھی لگی ہیں اور پرانے حمام اور آلات بھی رکھے ہیں۔
میں میوزیم کے بعد فراگونارڈ کمپنی کی فیکٹری بھی گیا، یہ کمپنی 1926ء میں بنی تھی اور یہ آج تک پرفیوم بنا رہی ہے، فیکٹری کا اپنا عجائب گھر بھی ہے جس میں پہلے دن سے لے کر آج تک کی تاریخ درج بھی ہے اور دیواروں اور فرش پر مشینوں کی شکل میں رکھی ہوئی بھی ہے، یہ کمپنی خوشبودار صابن، شیمپو، باڈی جیل، کریمیں اور کھانے کی خوشبوئیں بھی بناتی ہے، یہ گراس کی پہچان ہے اور گراس اس کی پہچان۔
گراس خوبصورت شہر ہے لیکن اس کی اصل خوبصورتی اس کے مضافات ہیں، شہر کے گرد چھوٹے چھوٹے درجنوں دیہات ہیں، یہ دیہات پہاڑی جنگلوں میں واقع ہیں، میں اور مبشر شیخ نے گراس سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو دن گزارے، گاؤں میں پہاڑ کی اترائیوں پر ویلے بنے ہیں، ہم نے انٹرنیٹ پر ایک ویلامیں دو کمرے بک کرا لیے، یہ ویلا ایک ایرانی نژاد فرانسیسی خاتون کی ملکیت تھا، وہ اپنے فرانسیسی خاوند اور سوتیلے بیٹے کے ساتھ وہاں رہتی تھی، پرنٹنگ کا کام کرتی تھی اور سیاحوں کو ایک آدھ کمرہ بھی کرائے پر چڑھا دیتی تھی، ویلا جنگل میں تھا۔
ہمارے سامنے اور پیچھے دونوں طرف پہاڑی تھی اور ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان یہ خوبصورت گھر تھا، بارش میں یہ جگہ مزید خوبصورت لگتی تھی، جنگلی پرندے سارا دن گھر کے دائیں بائیں منڈلاتے رہتے تھے، جنگلی ہوا بھی جنگلی پھولوں کی خوشبو کے ساتھ پردوں پر برستی اور انھیں گدگداتی رہتی تھی اور رات کے وقت چاند بھی سوئمنگ پول میں نہانے کے لیے آ جاتا تھا، یہ ویلا رات کے پچھلے پہر بچوں کی کہانیوں کی کتابوں کا ایسا قلعہ بن جاتا تھا جس میں پریاں اڑتی اور تتلیاں تالیاں بجاتی تھیں، میں 20 برسوں کے سفر میں بے شمار جگہوں، گھروں، ہوٹلوں اور ہٹس میں رہا ہوں لیکن یہ گھر اور اس کی دو راتیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔
اس جگہ میں کچھ تھا، کچھ ویسا جسے آپ چاہیں بھی تو شاید بھلا نہ سکیں، کیوں؟ شاید اس جگہ میں وہ سب کچھ تھا جس کی انسان خواہش کرتا ہے، جنگل، پہاڑ، پھول، خوشبو، پانی اور نورجہاں، میں رات دیر تک پول کے قریب بیٹھ کر نورجہاں کے گانے سنتا رہا، ملکہ ترنم کی آواز نے اس جگہ کے حسن میں اضافہ کر دیا، نورجہاں واقعی نورجہاں تھی اور اس جیسی آواز اور اس جیسی خاتون دنیا میں شاید ہی دوبارہ پیدا ہو، وہ صرف گاتی نہیں تھی وہ لفظوں میں زندگی پھونک دیتی تھی، وہ نقطوں کو نئے معانی بھی دے دیتی تھی اور یہ معانی اگر رات کے وقت گراس کے اس ویلے کے سوئمنگ پول کے کنارے پیدا ہو رہے ہوں اور آپ کے اردگرد جنگل ہو، جنگلی پھولوں کی خوشبو ہو اور سردی کی لہریں شمال سے جنوب کی طرف دوڑ رہی ہوں تو آپ خود ان لفظوں اور ان لفظوں کے معانی کی قیمت کا اندازہ لگا لیجیے۔
آپ کبھی زندگی میں ایک بار، صرف ایک بار کسی ایسی جگہ آدھی رات کے وقت "میں تے میرا دلبر جانی" اور "دل دار صدقے" سن کر دیکھیں، آپ بھی لفظوں اور ان کے بدلتے معانی دونوں سے واقف ہو جائیں گے۔
ہم گراس کے دو دیہات میں بھی گئے، پہلا گاؤں گوردون تھا، یہ گراس سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ الپس کی اترائی پر واقع ہے، قدیم گاؤں ہے، اس کی دو وجہ شہرت ہیں، پہلی وجہ 180 درجے کے مناظر ہیں، یہ پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر آباد ہے، گاؤں کے چاروں طرف گہری کھائیاں اور وادیاں ہیں اور آپ گاؤں کے گرد گھوم کر 180 درجے پر وادیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں، یہ نظارہ حقیقتاً منفرد ہے اور یہ آپ کے دل پر نقش ہو جاتا ہے، گلیاں گراس کی طرح تنگ اور مکان ایک دوسرے سے جڑے ہیں، گاؤں میں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی ہے۔
آپ گاڑی گاؤں سے باہر کھڑی کر کے گاؤں میں داخل ہوتے ہیں، یہ فیصلہ اچھا تھا، کیوں؟ کیونکہ گاؤں کی تنگ گلیوں میں گاڑیاں داخل ہی نہیں ہو سکتیں، گاؤں میں ہوٹلز بھی ہیں، ریستوران بھی، کافی شاپس اور لوکل پروفیومز شاپس بھی۔ یہ لوگ بھی خوشبو کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ گھروں میں خوشبو بناتے ہیں اور سیاحوں کو فروخت کرتے ہیں، گوردون کی دوسری وجہ شہرت اس کے گھنے جنگل اور لیونڈر کے باغات ہیں، گاؤں کے گرد میلوں تک لیونڈر کے باغات بکھرے ہوئے ہیں۔
، ہم لوگ اگر اپریل میں وہاں جاتے تو ہمیں دور دور تک "پرپل" رنگ بکھرا ہوا ملتا، قدرت نے دنیا میں نیلا رنگ بہت کم پیدا کیا ہے لیکن یہ جہاں بھی نظر آتا ہے یہ وہاں کمال کر دیتا ہے اور گوردون میں یہ رنگ پانچ ماہ تک کمال کرتا رہتا ہے، ہم نے وہاں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا، اللہ تعالیٰ نے اگر موقع دیا تو ہم لوگ یہاں دوسری بار بہار کے موسم میں آئیں گے اور لیونڈر کو لیونڈر کے باغوں میں اتر کر دیکھیں گے۔
ہم ابھی گوردون ہی میں تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور یہ بارش دیکھتے ہی دیکھتے برف باری میں تبدیل ہوگئی، ہم برف باری میں سینٹ پال کی طرف روانہ ہو گئے، سینٹ پال ونیز کے قریب تھا، یہ گاؤں اپنے آرٹسٹوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، ونیز گوردون سے دور نہیں لگا لیکن شدید برف باری کی وجہ سے ہمارا سفر لمبا ہوگیا، ہمارے چاروں طرف برف کی سفید چادر تھی اور آسمان سے برستی ہوئی، اترتی ہوئی نرم نرم برف تھی، برف باری کا منظر دنیا کے قیمتی ترین مناظر میں شمار ہوتا ہے، آپ کسی دن گرتی ہوئی برف میں کھڑے ہو کر دیکھیں، آپ چند لمحوں کے لیے بھول جائیں گے کہ آپ زمین پر ہیں اور آپ انسان ہیں۔
ہماری زمین برف باری کے دوران جنت بن جاتی ہے اور ہم اس جنت میں دس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ونیز کی طرف بڑھ رہے تھے، ونیز ایک قصبہ تھا اور سینٹ پال اس قصبے کے پاؤں میں گرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں۔ یہ گاؤں قلعے کی طرح تھا، قلعے جیسی فصیل، فصیل پر تیر اندازوں کے بیٹھنے کی جگہ اور تیر پھینکنے کے سوراخ، فصیل پر گیٹ اور گیٹ کے اندر تنگ گلیاں، جڑے ہوئے مکان اور چوکوں میں گھوڑوں اور انسانوں کے پینے کے لیے پانی کے حوض۔ گاؤں کا چرچ بھی پرانا تھا اور قبرستان اس سے بھی پرانا، سینٹ پال بھی گوردون کی طرح پہاڑی پر بنا ہوا تھا، گلیاں اوپر کی طرف چڑھتی تھیں، گاؤں میں صرف ساڑھے تین سو لوگ رہتے ہیں، یہ تمام لوگ آرٹسٹ ہیں، یہ پینٹنگز سے لے کر پچی کاری تک کرتے ہیں۔
ان کے مکان ان کے اسٹوڈیو بھی ہیں اور ان کی دکانیں بھی، یہ لوگ دن رات اپنے اسٹوڈیوز میں کام کرتے رہتے ہیں اور سیاح کھلے دروازوں سے گزر کر ان کا کام دیکھتے رہتے ہیں، یہ لوگ اس گاؤں سے محبت کرتے ہیں چنانچہ یہ اسے چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ گاؤں بھی 180 درجے پر قائم ہے، گاؤں کے گرد دائرہ سا بنا ہے اور آپ اس دائرے پر سفر کرتے ہوئے دس منٹ میں پورے گاؤں کا طواف کر لیتے ہیں، اندر گلیوں کا جال بچھا ہے، آپ اگر شریانوں جیسی ان گلیوں میں چلے جائیں تو آپ کو پورا گاؤں کھنگالنے میں مزید بیس منٹ لگ جائیں گے یوں آپ آدھ گھنٹے میں پورا گاؤں دیکھ لیں گے۔
ہم سینٹ پال پہنچے تو بارش جاری تھی، بارش میں بھیگ کر وہ گلیاں مزید مصورانہ ہوگئی تھیں، سردی بھی تھی، بارش بھی تھی اور فضا میں ہلکا ہلکا اندھیرا بھی تھا لیکن اس کے باوجود سیاح سینٹ پال کی گلیوں میں دیوانہ وار گھوم رہے تھے، ان کا یہ گھومنا بنتا بھی تھا، سینٹ پال کی گلیاں واقعی اس قابل تھیں، ان گلیوں میں حسن بھی تھا، متانت بھی اور آرٹ بھی، گلیوں کی دیواروں اور مکانوں تک سے مصوری جھلکتی تھی، آپ کو پوری دیوار میں سیاہی کا ایک چھوٹا سا نقطہ نظر آتا تھا اور وہ نقطہ پوری دیوار کو آرٹ کا نمونہ بنا دیتا تھا، میں سینٹ پال کی گلیوں میں گھوم رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔
یہ کون لوگ ہیں اور ان سے زیادہ وہ کون لوگ ہیں جو ان دیوانوں کو عزت سے پال رہے ہیں، کاش ہماری حکومت بھی پورے ملک میں آرٹسٹوں کا ایک گاؤں آباد کر دے، ایک ایسا گاؤں جس میں یہ دیوانے بھی سینٹ پال کی طرح عزت سے رہ سکیں اور انھیں دیکھنے کے لیے ہم جیسے دیوانے بھی وہاں جا سکیں، کیا ہم 20 کروڑ لوگ دیوانوں کا ایک بھی گاؤں آباد نہیں کر سکتے، سینٹ پال جیسا ایک گاؤں۔