سینٹ لوئس ماڈل
دنیا میں نوول کورونا پہلی عالمی وبا نہیں، چودھویں صدی میں دنیا میں طاعون پھیلی اور یہ 20 کروڑ زندگیاں چاٹ گئی تھی، 1918ء میں اسپینش انفلوئنزا نکلا اور اس نے بھی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تباہی پھیلا دی، انفلوائنزا سے یورپ میں دس کروڑ اور امریکا میں 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے اور دنیا اب نوول کورونا کے خوف میں مبتلا ہو چکی ہے، دسمبر 2019 میں کورونا کا خوف پھیلنا شروع ہوا تو دنیا کے سامنے دو ماڈل تھے، سینٹ لوئس ماڈل اور فلاڈلفیا ماڈل، یہ دونوں ماڈل عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے تمام اعلیٰ فورمز پر ڈسکس ہوئے اور آخر میں دنیا نے سینٹ لوئس ماڈل پر جانے کا فیصلہ کر لیا، آپ اس وقت پوری دنیا کا نقشہ اپنے سامنے پھیلا کر دیکھیں آپ کو تمام ملک بند ملیں گے۔
یہ کیوں بند ہیں؟ یہ سینٹ لوئس ماڈل کی وجہ سے بند ہیں، اب سوال یہ ہے یہ ماڈل ہے کیا؟ ہمیں یہ سمجھنے کے لیے بیک گراؤنڈ میں جانا پڑے گا، 1918 کے درمیان اسپینش انفلوئنزا امریکا پہنچا، سینٹ لوئس اور فلاڈلفیا دونوں شہروں میں ستمبر میں پہلے کیس سامنے آئے، دونوں شہروں کی انتظامیہ نے میٹنگ بلا لی، فلاڈلفیا کامیئر تھامس بی اسمتھ لاابالی اور کیئر لیس تھا، اس نے بورڈ میٹنگ میں اعلان کیا" یہ معمولی لہر ہے، آئی ہے اور گزر جائے گی، نزلہ زکام کوئی بیماری نہیں، ہمیں روز زکام ہوتا ہے چناں چہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، لوگوں کو احتیاط کی ہدایت کریں اور شہری زندگی کو چلنے دیں " چند ممبرز نے اعتراضات کیے لیکن میئر نے ان کے اعتراض ہوا میں اڑا دیے، ممبرز اس کے باوجود باز نہ آئے تو میئر نے 28 ستمبر 1918 کو شہر میں سینٹ پیٹرک ڈے پریڈ کا اعلان کر دیا۔
ارکان چیختے رہ گئے مگر میئر صاحب اپنی ضد پر ڈٹ گئے جب کہ دوسری طرف سینٹ لوئس میں انفلوائنزا کا پہلا کیس نکلا تو میئر نے بورڈ کی میٹنگ کال کی، سینٹ لوئس میں بھی سینٹ پیٹرک ڈے پریڈ شیڈول تھی لیکن میئر نے یہ پریڈ منسوخ کر دی اور پورے شہر میں پبلک گیدرنگ پر پابندی لگا دی، اسکول، بس، ٹرین، شاپنگ سینٹرز، اناج اور سبزی منڈی حتیٰ کہ جنازے تک بند کر دیے، میئر نے پولیس کو حکم دیا شہر کے تمام چرچ بھی شام تک لاک کر دیے جائیں، لوگوں نے میئر کے ان احکامات کو پسند نہیں کیا، شہر میں احتجاج شروع ہو گئے، والدین، لواحقین، چرچز کی انتظامیہ اور دکان داروں نے "میئر مردہ باد" کے نعرے لگانا شروع کر دیے لیکن یہ میئر بھی ضد کا پکا تھا، یہ بھی باز نہ آیا، اس نے آہستہ آہستہ لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا، شہر کی حالت یہ تھی کوئی شخص کھڑکی سے منہ باہر نکال کر آواز دیتا تھا تو آدھے شہر میں اس کی آواز گونجتی تھی، پولیس گشت کرتی تھی تو اسے گلیوں میں کتا تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔
یہ پابندی دو ماہ جاری رہی، نومبر کا مہینہ آیا اور فلاڈلفیا اور سینٹ لوئس دونوں کے میئرز کے احکامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے، فلاڈلفیا میں انفلوئنزا پھیلا اور اس نے تباہی پھیلا دی، 60ہزار لوگ ہلاک ہوگئے، شہر میں کوئی ایک بھی ایسا گھر نہیں تھا جس میں لاش نہ ہو اور شہر میں گورکن تک زندہ نہ رہے، پادری بھی جنازے پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے چناں چہ انتظامیہ لاشوں کو جلانے پر مجبور ہو گئی، میئر خود بھی انفلوئنزا کا شکار ہو گیا اور لوگ فلاڈلفیا کے قریب سے نہیں گزرتے تھے یہاں تک کہ امریکن حکومت اسے باقی ملک سے کاٹنے پر مجبور ہوگئی جب کہ دوسری طرف سینٹ لوئس محفوظ ترین شہر ثابت ہو رہا تھا۔
انفلوئنزا وہاں بھی تھا لیکن اموات اور بیمار لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، بچے اور خواتین بھی محفوظ تھیں اور بزرگ بھی، آپ آج بھی 1918 اور 1919 کے اعدادوشمار کا گراف نکال کر دیکھ لیں، آپ کو فلاڈلفیا میں گراف روزانہ کی بنیاد پر اوپر جاتا جب کہ سینٹ لوئس میں نیچے سے نیچے سرکتا دکھائی دے گا، اسپینش انفلوئنزا 1919 کے آخر میں امریکا میں ختم ہو گیالیکن یہ جاتے جاتے فلاڈلفیا کے میئرتھامس بی اسمتھ کو ولن جب کہ سینٹ لوئس کے میئر ہنری کائل کو عوام کا ہیرو بنا گیا، ہنری کائل آج بھی ہیرو ہے، آپ اس شخص کا وژن ملاحظہ کیجیے، آج ایک سو سال بعد جب نوول کورونا سامنے آیا تو دنیا سینٹ لوئس اور فلاڈلفیا ماڈل ڈسکس کرنے پر مجبور ہو ئی اور پھر اقوام متحدہ ہو یا عالمی ادارہ صحت دنیا کے تمام بڑے فورمز نے سینٹ لوئس ماڈل کے حق میں فیصلہ دے دیا چناں چہ آج میئر ہنری کائل کے فارمولے کے مطابق دنیا کے تمام ملک بند ہو چکے ہیں۔
آپ کورونا کے معاملے میں چند چیزیں ذہن میں رکھیں، یہ وائرس نیا نہیں ہے، یہ پچھلی صدی میں مختلف اوقات میں مختلف ممالک میں آتا رہا لیکن کیوں کہ ہم انسانوں میں اس کے خلاف قوت مدافعت موجود تھی چناں چہ کورونا نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، سوشل میڈیا پر سلویا براؤن کی کتاب اینڈ آف ڈیزکے صفحات گردش کر رہے ہیں، ان میں بھی کورونا کا ذکر ہے اور عراق کے سابق صدر صدام حسین کی 1991 کی ایک تقریر بھی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، صدام حسین نے اس تقریر میں دعویٰ کیا تھا امریکا ہمیں عراق میں کورونا وائرس پھیلانے کی دھمکی دے رہا ہے۔
یہ دونوں باتیں حقیقت ہیں کیوں کہ کورونا وائرس سترسال سے دنیا میں موجود ہے، ہم میں سے زیادہ تر لوگ سال میں ایک آدھ بار اس کا شکار بھی ہوتے تھے لیکن ہم چھینک چھانک کر ٹھیک ہو جاتے تھے، موجودہ وائرس صرف کورونا نہیں یہ نوول کورونا ہے اور یہ کورونا وائرس کی ایڈوانس اور خوف ناک شکل ہے اور ہماری قوت مدافعت اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہی، دنیا نوول کورونا کی وجہ سے کیوں پریشان ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں، پہلی، ہم یہ نہیں جانتے یہ پھیلتا کیسے ہے؟ یہ ہاتھ سے پھیل رہا ہے، سانس سے یا پھر ہوا سے، دوسرا یہ انسان کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔
میڈیکل ایکسپرٹس کا خیال ہے یہ گرمی برداشت نہیں کر پائے گا چناں چہ ہمارا درجہ حرارت جوں ہی 30 ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچے گا یہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن کیا یہ 2021 کی گرمیوں میں بھی ختم ہو جائے گا یا پھر اگلے سال تک اس میں گرمیاں برداشت کرنے کی اہلیت بھی پیدا ہو جائے گی، میڈیکل سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور تیسرا نوول کورونا کا علاج کیا ہے؟ دنیا ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں کر سکی چناں چہ جس دن اس کی ویکسین مارکیٹ میں آ جائے گی اور ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا یہ زیادہ سے زیادہ کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے اور یہ کیسے اور کس وقت پھیلتا ہے تو ہم اس کے خوف سے نکل جائیں گے اور پھر دنیا اسی طرح کھل جائے گی جس طرح یہ طاعون اور انفلوئنزا کے بعد کھلی تھی لیکن ہمیں اس کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔
ہم اب پاکستان کی طرف آتے ہیں، ہمیں ماننا ہوگا ہم میں کورونا وائرس جیسی وباؤں سے نبٹنے کی اہلیت نہیں، یہ وبا اب تک چین، اٹلی اور امریکا جیسے ملکوں کو لٹا چکی ہے، اڑھائی سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، یہ نقصان کہاں تک جائے گا دنیا نہیں جانتی اور ہم اس دنیا میں چھوٹی سی مکھی ہیں چناں چہ خدانخواستہ اگر کورونا پاکستان میں پھیل گیا تو ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکیں گے، ہم ہاتھ ملا ملا کر اسے شام تک 22 کروڑ لوگوں تک پہنچا دیں گے لہٰذا پھر ہمارے پاس سینٹ لوئس ماڈل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا، قومی سلامتی کمیٹی نے دو دن قبل تعلیمی ادارے، پی ایس ایل میچز (تماشائیوں کے بغیر)، 23 مارچ کی تقریبات منسوخ اور افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ سرحدیں بند کر کے اچھا قدم اٹھایا، حکومت کو چاہیے یہ اب ایک قدم اور آگے بڑھے، میاں شہباز شریف نے 2012 میں ڈنگی کنٹرول کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا، وزیراعظم دل بڑا کر کے اس ماڈل کا مطالعہ کریں اور یہ پورے ملک میں نافذ کر دیں۔
میاں شہباز شریف نے 94 دن ڈنگی پر روزانہ میٹنگ کی تھی، صبح چھ سے آٹھ بجے تک میٹنگ ہوتی تھی اور اس میں 38 صوبائی سیکریٹریوں سمیت لاہور کے تمام ایم پی اے اور ایل ڈی اے کی مینجمنٹ شامل ہوتی تھی، یہ میٹنگ 94 دنوں میں ایک دن بھی معطل نہیں ہوئی، سو لوگوں کو روزانہ کام دیا جاتا تھا اور وہ اگلے دن کام کا تصویری ثبوت لے کر میٹنگ میں شامل ہوتے تھے، وزیراعظم کو چاہیے یہ ڈنگی ٹیم کو بلائیں، میٹنگ کریں اور اس کے بعد ملک میں ڈنگی کی اسپرٹ نافذ کر دیں، ہم پر اللہ کا کرم ہے۔
ہم ابھی تک خطرے سے باہر ہیں مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے ہم ایک لاپرواہ قوم ہیں، ہم نے اگر اس وبا کو سیریس نہ لیا تو پھر ہمارا حال فلاڈلفیا جیسا ہو گا، ہمارے پاس مردے دفن کرنے کے لیے بھی جگہ نہیں بچے گی چناں چہ پلیز پلیز ٹویٹس کی دنیا سے باہر آئیں اور کورونا کے خلاف عملی قدم اٹھائیں، میڈیا کے ساتھ مل کر کورونا کے خلاف تحریک چلائیں، لوگوں کو قائل کریں، یہ اپنے گھروں کو14 دنوں کے لیے قرنطینہ بنا لیں، منہ سے سلام کریں، ہاتھ نہ ملائیں اور ہر پندرہ منٹ بعد صابن سے 22 سیکنڈ ہاتھ دھوئیں، آپ بس اور ٹرین سروس بھی معطل کر دیں اور لوگوں کو بتائیں یہ جہاں ہیں یہ حالات ٹھیک ہونے تک وہیں رہیں یہاں تک کہ وبا کا خطرہ ٹل جائے۔
ہمارے وزیراعظم اگر ٹویٹ کی دنیا سے باہر آ گئے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ اگر خدانخواستہ یہ وبا پھیل گئی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے، کیوں؟ کیوں ہم آج تک اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پولیو نہیں روک سکے اور یہ نوول کورونا ہے، ایک ایسی بیماری جس کی ویکسین بھی موجود نہیں اور ہم اس کے پھیلنے کی وجوہات بھی نہیں جانتے لہٰذا آپ پھر تباہی کا اندازہ کر لیجیے لہٰذا ٹویٹ بند کریں اور کام شروع کریں۔