رائفل کی نالی
ہم اورنج شہر کے قریب سے گزر رہے تھے، اچانک پاکستان سے خبر آئی جنرل پرویز مشرف حکومت کی اجازت سے علاج کے لیے دوبئی پہنچ گئے ہیں، ہم تھوڑا سا آگے آئے تو پتہ چلا ریڑھ کی ہڈی اور قلب کے عارضے کے شکار جنرل مشرف نے نہ صرف دوڑتے ہوئے جہاز کی سیڑھیاں چڑھیں بلکہ انھوں نے دوبئی پہنچ کر اپنا پسندیدہ سگار سلگا کر بیماری کا جشن بھی منایا اور پھر خبر ملی جنرل صاحب نے اپنی پارٹی کا اجلاس بھی بلا لیا ہے اور یہ کل سے اپنی شبانہ روز سرگرمیاں بھی شروع کر رہے ہیں، میں ہنسی ضبط نہ کر سکا۔
جنرل پرویز مشرف کا ملک سے جانا فوج کی سیاسی فتح اور میاں نواز شریف کی اخلاقی شکست ہے اور یہ شکست عمران خان کے دھرنے کے بعد نوشتہ دیوار تھی، یہ ہو کر ہی رہنا تھا، جنرل راحیل شریف نے تین وعدے اور ایک اعلان کیا تھا اور مجھے یقین تھا، یہ وعدے اور یہ اعلان ضرور پورے ہوں گے، جنرل راحیل شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف بنتے ہی وعدہ کیا تھا، یہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کراچی کو صاف کر دیں گے، یہ دہشت گردوں کو بھی ختم کر دیں گے اور یہ فوج کے وقار کو بھی بلند کریں گے۔
جنرل صاحب نے 25 جنوری کو ایکسٹینشن نہ لینے اور وقت پر ریٹائر ہونے کا اعلان بھی کیا، یہ اعلان اور یہ وعدے تیزی سے پیش رفت کی طرف بڑھ رہے ہیں، کراچی میں"صفائی" کا عمل جاری ہے، ہمیں ماننا پڑے گا، ایم کیو ایم پر 32 برسوں میں بے شمار حملے ہوئے لیکن جو کمال مصطفی کمال دکھا رہے ہیں، یہ وقت کے ساتھ ساتھ کاری ثابت ہو رہا ہے اور ایم کیو ایم کو پہلی بار حقیقی خطرات کا سامنا ہے، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا۔
کراچی میں امن قائم ہو چکا ہے اور یہ شہر اب تیزی سے دہشت کے سائے سے نکل رہا ہے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا فوج نے ضرب عضب کے دوران مثالی قربانیاں دیں اور آج جب پیرس اور برسلز جیسے محفوظ ترین شہر بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں تو پاکستان بڑی تیزی سے امن کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمیں اس کا کریڈٹ فوج اور جنرل راحیل شریف کو دینا ہوگا اور پیچھے رہ گیا فوج کا وقار تو ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، جنرل پرویز مشرف 9سال پاک فوج کے کمانڈر رہے اور آج اگر سول حکومت انھیں آرٹیکل چھ کے تحت سزا دے دیتی ہے یا وزارت داخلہ اور عدلیہ انھیں پاکستان میں روک کر بیٹھ جاتی ہے تو یہ فوج کے مورال اور وقار کی سیدھی سادی توہین ہوگی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گی۔
یہ بھی حقیقت ہے، جنرل پرویز مشرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی نشان حیدر ہولڈر میجر شبیرشریف شہید کے کورس میٹ اور دوست تھے اور انھوں نے اپنی پوری سروس کے دوران اپنے دوست کے بھائی کا چھوٹے بھائی کی طرح خیال رکھا چنانچہ جنرل پرویز مشرف نے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ملک سے بھی جانا تھا اور یہ حکم بھی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہی جاری کرنا تھا، کیوں؟
کیونکہ چوہدری نثار نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی موجودگی میں فوج کی قیادت سے وعدہ کیا تھا، حکومت جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی نہیں کرے گی لیکن حکومت بعد ازاں یہ وعدہ بھول گئی اور یوں حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے اور یہ خرابی عمران خان کے دھرنے تک جاری رہی، حکومت نے دھرنے کے بعد اپنے وہ وعدے بھی نبھانا شروع کر دیے جو اس نے قیام پاکستان سے پہلے کیے تھے اور مشرف کی رہائی کا وعدہ تو ویسے بھی کل کی بات تھی، یہ کیسے پورا نہ ہوتا، جنرل مشرف جا چکے ہیں، یہ اب اس وقت واپس آئیں گے جب میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں ہوں گے یا پھر انھیں کوئی "سالڈ گارنٹی، نہیں مل جاتی۔
ہم اس وقت فرانس کے شہر اورنج کے قریب سے گزر رہے تھے، فرانس شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کے زیادہ تر برانڈز کے نام اس کے شہروں اور قصبوں کے ناموں پر ہیں مثلاً آپ اورنج کمپنی ہی کو لے لیجیے، یہ نام اورنج شہر کے نام پر رکھا گیا، ویتل (Vital) اور ایوآن (Avain) یہ دونوں منرل واٹر کی مشہور کمپنیاں ہیں، ان دونوں کمپنیوں نے دنیا میں منرل واٹر متعارف کروایا تھا، ایوآن اور ویتل بھی فرانس کے قصبے ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کے نام ان قصبوں کے ناموں پر ہیں، اسی طرح ویشی (Vichy) سکن پراڈکٹس اور میک اپ بنانے والی مشہور کمپنی ہے، ویشی بھی قصبے کا نام ہے، مارسیل صابن، باتھ جیل اور شیمپو بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں، مارسیل بھی فرانس کا معروف اور بڑا شہر ہے، ماؤنٹ بلینک بھی فرانس کا معروف برانڈ ہے۔
یہ فرانس کا بلند ترین پہاڑ ہے، یہ چھوٹا سا گاؤں بھی ہے، ٹونو واٹر (Thogenon) بھی مشہور برانڈ ہے، یہ نام بھی ٹونو قصبے کے نام پر رکھا گیا، کونیک (Cognac) شراب کا نام ہے، یہ برانڈی کی قسم ہے اور یہ مغربی دنیا میں بہت مشہور ہے، کونیک بھی قصبے کا نام ہے، اسی طرح فرانس کے ایک دوسرے قصبے کلواڈس (Calvados) میں بننے والی برانڈی کلواڈس اور بوردو (Bordeaux) شہر میں بننے والی وائین بوردو کہلاتی ہے، آپ نے گیونچی (Givenchi) کے پرفیوم بھی استعمال کیے ہوں گے، گیونچی بھی فرانس کا شہر ہے، یہ شہر کیلے کے ساحل کے قریب واقع ہے اور اس میں سیکڑوں لاہوریوں کی قبریں ہیں۔
یہ لاہوری پہلی جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں شامل تھے، یہ برطانوی ساحلوں سے فرانس میں داخل ہوئے، آدھے گیونچی میں مارے گئے اور باقی بیلجیئم میں آسودہ خاک ہوئے، لاہور کی پوری بٹالین یورپ میں دفن ہوگئی، ان کی روحیں آج بھی گیونچی اور بیلجیئم میں اپنے خاندانوں کا راستہ تک رہی ہیں، یہ بے چارے جنازے اور فاتحہ خوانی تک سے محروم رہے اور آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی، شیمپیئن بھی شہر کا نام ہے، شیمپیئن بنیادی طور پر فرانس کا صوبہ ہے، یہ صوبہ ملک کے شمال مشرق میں واقع ہے اور یہاں 1065ء میں سفید انگوروں کی کھٹی وائین میں گیس شامل کر کے ایک واہیات سا مشروب بنایا گیا۔
اس مشروب کا نام علاقے کے نام پر شیمپیئن رکھ دیا گیا، لوگوں کا خیال تھا، یہ مشروب کامیاب نہیں ہوگا لیکن آپ قدرت کا کمال دیکھئے، یہ مشروب نہ صرف کامیاب ہوگیا بلکہ یہ اتنا مشہور ہوگیا کہ قصبے اور صوبے کا نام بھی اس میں دب کر ختم ہوگیا اور آج لوگ یہ تک نہیں جانتے شیمپیئن صرف شراب نہیں بلکہ یہ پورے صوبے کا نام ہے اور اس صوبے میں لاکھوں شرفاء بھی رہتے ہیں، یہ فرانس کے چند بڑے برانڈز کی مثالیں ہیں، آپ اگر تھوڑی سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو 80 فیصد فرنچ برانڈز کے پیچھے قصبوں اور شہروں کے نام ملیں گے اور یہ فرانس کی ایک بڑی انفرادیت ہے۔
پیرس میں اس بار دو دلچسپ تجربے ہوئے، میں ہوٹل میں"چیک ان" کرنے لگا تو پتہ چلا، حکومت نے ہوٹلوں کے تمام کمروں پر فی رات ڈیڑھ یورو ٹیکس لگا دیا ہے، یہ ایک معمولی رقم ہے اور وہ لوگ جو ہوٹل کو فی رات سو ڈیڑھ سو یورو ادا کرتے ہیں، وہ بڑی آسانی سے یہ اضافی ڈیڑھ یورو بھی دے سکتے ہیں لیکن آپ اس چھوٹے سے قدم سے حکومت کی آمدنی کا اندازہ کیجیے، پیرس شہر میں روزانہ ایک لاکھ کمرے کرائے پر چڑھتے ہیں، یہ کمرے حکومت کو روزانہ ڈیڑھ لاکھ یورو دیتے ہیں۔
یہ رقم روپوں میں دو کروڑ بنتی ہے، آپ اس کو 30 سے ضرب دے کر حکومت کی ماہانہ اور 365 سے ملٹی پلائی کر کے سالانہ انکم کا اندازہ کر سکتے ہیں، آپ ذرا سوچئے، اگر حکومت ڈیڑھ یورو کے بجائے دس یورو ٹیکس لگا دیتی تو کیا ہوتا؟ حکومت کو یقینا نقصان ہوتا، کیوں؟ کیونکہ دس یورو بڑی رقم ہے چنانچہ سیاح ہوٹلوں کے بجائے پرائیویٹ رہائش گاہوں کی طرف نکل جاتے اور اس سے ہوٹل انڈسٹری کو بھی نقصان ہوتا اور حکومت کی اسکیم بھی فیل ہو جاتی، ہوٹل مالکان سیاحوں کے ساتھ مل کر ٹیکس چوری بھی شروع کر دیتے اور حکومت کو یہ چوری روکنے اور ٹیکس وصولی کے لیے سرکاری ملازمین بڑھانا پڑ جاتے اور یوں کرپشن اور مسائل کا نیا گورکھ دھندہ شروع ہوجاتا، حکومت سمجھ دار تھی لہٰذا اس نے طویل تحقیق کے بعد صرف اتنا ٹیکس لگایا جتنا سیاح بھی ہنسی خوشی دے سکتے ہیں اور ہوٹل مالکان پر بھی دباؤ نہیں پڑتا یوں حکومت کو صرف ایک انڈسٹری سے روزانہ دو کروڑ روپے اضافی آمدنی ہونے لگی۔
حکومت نے اس سے قبل مچھلی کی فروخت پر صرف 15 سینٹ ٹیکس لگایا، حکومت نے اس معمولی ٹیکس سے بھی سالانہ دو بلین یورو کمائے، یہ دونوں تجربے کامیاب ہو گئے چنانچہ حکومت اب ایسی دیگر اشیاء اور سہولتوں پر بھی معمولی ٹیکس لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے مثلاً پیرس شہر میں روزانہ تیس سے چالیس لاکھ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں، حکومت اگر ٹکٹوں پر پانچ سینٹ ٹیکس لگا دے تو یہ روزانہ دو لاکھ یورو کما لے گی۔
اسی طرح اگر یہ پانی پر دو تین سینٹ، سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں پر بیس پچیس سینٹ، ہوائی سفر کرنے والوں پر دس یورو اور شراب پینے والوں پر ایک آدھ یورو ٹیکس لگا دے تو یہ اس مد میں بھی روزانہ دس پندرہ لاکھ یورو کھینچ لے گی، یہ ٹیکس کا نیا فارمولہ ہے، ہماری حکومت اس سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے، حکومت کو ماننا ہوگا، ہمارے ملک میں آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس زیادہ ہیں اور حکومت اگر ٹیکسوں کی شرح کم کر دے تو شہری ہنسی خوشی ٹیکس دیں گے اور اس کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان میں بھی اضافہ ہوگا، حکومتی اداروں کے بوجھ میں بھی کمی ہوگی اور کرپشن بھی کم ہو جائے گی۔
دوسرا مشاہدہ پیرس کی سڑکوں پر فوج کے دستے اور فوجی گاڑیاں تھیں، پیرس میں اب سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں مسلح جوان نظر آتے ہیں، یہ مناظر کل تک صرف پاکستان جیسے ملکوں میں دکھائی دیتے تھے لیکن یہ سلسلہ آج یورپ تک پھیل گیا ہے، یورپی ملکوں میں برسلز کے کل کے واقعات کے بعد مزید سیکیورٹی ٹائٹ ہو جائے گی، یہ سیکیورٹی اور یہ مسلح فوجی جوان دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔
امریکا کی 1980ء اور 2001ء کی پالیسیوں کے نتائج اب یورپ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور یہ اگر ایک بار یورپ میں داخل ہو گئے تو پھر انھیں امریکا پہنچتے دیر نہیں لگے گی مگر سوال یہ ہے، کیا امریکا بھی اس صورتحال سے واقف ہے؟ شاید نہیں، کیوں؟ کیونکہ طاقت کے پاس عقل نہیں ہوتی اور امریکا اس وقت دنیا کا طاقتور ترین ترین ملک ہے، یہ آخری وقت تک رائفل کی نالی سے سوچتا رہے گا۔