پارلیمنٹ کے لیے
آپ لوگ اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں، آپ کی کل تعداد446 ہے، آپ 342 ایم این اے اور 104سینیٹر ہیں، آپ 20 کروڑ لوگوں کے نمایندہ ہیں، میری آپ سے درخواست ہے آپ ایک بار، صرف ایک بار پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی کھول کر شاہراہ دستور پر نظر ڈالیں، آپ ڈی چوک کی طرف دیکھیں، آپ کو وہاں خیمہ بستی نظر آئے گی، آپ کو وہاں گندے، ننگے اور بھوکے بچے کرکٹ کھیلتے بھی دکھائی دیں گے، عورتیں ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالتی نظر آئیں گی، مرد دھوتیاں اور کچھے پہن کر نہاتے دکھائی دیں گے اور بزرگ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حقہ پیتے نظر آئیں گے۔
آپ کو تاحد نظر گندگی کے ڈھیر بھی دکھائی دیں گے اور آپ ذرا سا غور کریں تو آپ کو لوگ سرکاری عمارتوں، درختوں اور جھاڑیوں کی اوٹ میں رفع حاجت کرتے بھی نظر آ جائیں گے، آپ کو یقینا یہ مناظر تکلیف دیں گے، یہ آپ کی حس جمال پر بجلی بن کر گریں گے، یہ آپ کی صفائی پسند طبیعت کے لیے اذیت مسلسل بھی ثابت ہوں گے اور یہ آپ کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیں گے حکومت آخر اس کچرے کو صاف کیوں نہیں کرتی، ہم آخر ان لوگوں کو اٹھا کر اسلام آباد سے باہر کیوں نہیں پھینکتے؟ آپ کے یہ احساسات جینوئن ہیں، آپ اور آپ کے کولیگز نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، پاکستان کی خوبصورت اور محفوظ ترین شاہراہ پر اس قماش کی مخلوق اتر آئے گی اور سرے عام آپ کی جمالیاتی حسوں کو چیلنج کرے گی، آپ نے کبھی یہ تصور نہیں کیا ہو گا۔
پاکستان میں ایسے گندے، مندے اور غیر مہذب لوگ بھی موجود ہیں جو سرے عام سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایف بی آر اور ایوان صدر کے سامنے رفع حاجت کر دیتے ہیں، جو پی ٹی وی کی کمپیوٹر اسکرینوں، ٹیلی ویژن مانیٹرز اور کرسیوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کھلی آنکھوں سے یہ ایوان دیکھے ہیں۔
آپ جب پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی سے یہ مناظر دیکھیں گے تو مجھے اس وقت آپ سے بہت ہمدردی ہو گی، میں اس وقت آپ سے عرض کروں گا" جناب یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو دولہا بنا کر آپ کو اپنی خواہشوں، حسرتوں اور خوابوں کے گھوڑوں پر بٹھاتے ہیں، یہ گھوڑے اس پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف روانہ کرتے ہیں اور پھر باقی زندگی ان گھوڑوں کی واپسی کے انتظار میں گزار دیتے ہیں، ان لوگوں کو انتظار کی امید باندھے 68 سال گزر چکے ہیں مگر آج تک ان کی امیدوں کے گھوڑے واپس نہیں آئے، ان کی حسرتوں کے ساحلوں پر آج تک کوئی کولمبس نہیں اترا اور آج تک کسی فرشتے نے ان کی کنواری دعاؤں کی زمین پر پاؤں نہیں رکھا"جناب عالی آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے۔
یہ مناظر اصل پاکستان ہیں اور آپ پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی سے جن لوگوں کو دیکھ رہے ہیں یہ اصلی پاکستانی ہیں، ملک کی 80 فیصد اصلی آبادی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں کبھی جہاز پر نہیں بیٹھے، جنہوں نے زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، جو حمل سے لے کر انتقال تک بھیک، امداد اور قرض پر جیتے ہیں، جنھیں اس ملک میں کبھی صاف پانی، مفت انصاف، باعزت زندگی اور بے خطر آبرو نصیب نہیں ہوئی، جو پیدا ہوتے ہیں تو جہد مسلسل کی چکی میں ڈال دیے جاتے ہیں اور جو مرنے کے بعد بھی زندگی کے عذاب سے رہائی نہیں پاتے، یہ وہ لوگ ہیں جو عمر بھر شاور، کموڈ، پیزا اور کافی سے محروم رہتے ہیں اور یہ زندگی بھر ذاتی سواری کی لذت سے بے گانہ رہتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود آپ لوگوں کو اُس ایوان میں بھجواتے ہیں جس کا فی منٹ خرچ 60 ہزار روپے ہے اور جو آپ کو دنیا بھر میں عزت، وقار اور اختیارات دیتا ہے، یہ لوگ آپ کو ملک کی اس عظیم عمارت میں اس لیے بھجواتے ہیں کہ آپ اس ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر اُن لوگوں کے دکھوں کا مداوا کریں جنھیں عمر بھر پنکھا نصیب نہیں ہوتا، جو وضو کے پانی سے افطار کرتے ہیں اور دو رکعت نماز صبر کو سحری سمجھ کر روزہ رکھ لیتے ہیں .
یہ اللہ کے وہ بندے ہیں جن کے بارے میں اللہ خود فرماتا ہے، میں ان کے دلوں اور شہ رگوں میں رہتا ہوں مگر آپ کتنے ظالم ہیں، آپ نے 68 برسوں میں ان شہ رگوں اور ان دکھی دلوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، یہ لوگ مظلوم بھی ہیں، نادار بھی ہیں، مسکین بھی، غریب بھی اور بے آسرا بھی۔ یہ اصل پاکستان ہے اور آپ اس پارلیمنٹ کی کھڑکی سے اس اصل پاکستان کا پہلا صفحہ ملاحظہ کر رہے ہیں، آپ سوچئے، آپ پہلے صفحے کی تاب نہیں لا پا رہے لیکن جس دن پوری کتاب کھل گئی، آپ اس دن کہاں جائیں گے، آپ اس دن کہاں پناہ لیں گے۔
آپ پارلیمنٹ ہاؤس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اور مسلسل جوائنٹ سیشن نہیں ہوا اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی پوری سیاست میں کبھی پارلیمنٹ کو اتنا وقت نہیں دیا، حکومت نے کبھی خندہ پیشانی سے اتنی تنقید بھی برداشت نہیں کی اور پارلیمنٹ کی تاریخ میں کبھی اتنی کھلی اور براہ راست تقریریں بھی نہیں ہوئیں اور پارلیمنٹیرینز نے کبھی ان تقریروں پر اتنے صبر اور برداشت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا، یہ برداشت، یہ صبر، یہ کھلا پن اور یہ خندہ پیشانی قابل تقلید ہے لیکن سوال یہ ہے اتنی تہذیب اور اتنی شائستگی کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ لوگ اس عمارت میں ان لوگوں کی محبت میں جمع ہوئے ہیں جو پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے خیمہ زن ہیں یا پھر آپ اپنا اقتدار، اپنا اختیار اور اپنی اپنی وہ سیٹیں بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جن کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں .
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے، آپ کا مقصد صرف اپنے مفادات کی حفاظت ہے، میں دل سے پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کو اس ملک کی بقا سمجھتا ہوں، میں کسی شخص کو اس آئین اور اس پارلیمنٹ پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دوں گا، مولانا طاہر القادری ہوں، عمران خان ہوں یا پھر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہم کسی شخص کو پارلیمنٹ پر غیر آئینی حملہ نہیں کرنے دیں گے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، ہم آپ لوگوں کو آئین اور پارلیمنٹ کے پردے میں ذاتی مفادات کا کھیل کھیلنے کی اجازت دے دیں ! آپ کا احتساب نہ ہو، نہیں، ہرگز نہیں! آپ سے بھی پوچھ پڑتال ہو گی، ہم آپ سے پوچھیں گے آپ کس لیے جمع ہوئے ہیں، عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ کے باہر کیوں ہیں اور آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں؟ عمران خان نے چھ مطالبات پیش کیے، جوڈیشل کمیشن بنا دیں، انتخابی اصلاحات کر دیں اور وزیراعظم مستعفی ہو جائیں وغیرہ وغیرہ، یہ تمام مطالبات ان کے اقتدار سے متعلق ہیں، علامہ صاحب سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کٹوانے اسلام آباد آئے تھے، یہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ لینا چاہتے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر آپ لوگ بیٹھے ہیں۔
آپ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں، وہ آپ کو گرانے کے لیے باہر سے زور لگا رہے ہیں اور آپ خود کو بچانے کے لیے اندر بیٹھ کر مسل دکھا رہے ہیں، عوام کہاں ہیں؟ عوام عمران خان اور علامہ صاحب کے ایجنڈے میں ہیں اور نہ ہی آپ جیسے معزز ارکان پارلیمنٹ کی ترجیحات میں ہیں، میں اس دن عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو سلام پیش کروں گا جس دن یہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام کے حقوق کا چارٹر لے کر پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے اور میں اس دن آپ لوگوں کو تمغہ جمہوریت پیش کروں گا جس دن آپ پورے ملک کے عوام کو صاف پانی، یکساں نظام تعلیم، غربت کے خاتمے، امن و امان، انصاف اور برابر حقوق فراہم کرنے کے لیے اکٹھے ہوں گے، آپ جس دن ملک کے ہر شخص کو ایف آئی آر درج کرانے کا حق دینے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔
آپ جس دن ملک کے ہر بالغ شخص کو باعزت روزگار فراہم کرنے کا فارمولہ طے کرنے، خواتین کو حقوق دینے، معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم ختم کرنے، ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کا احتساب کرنے اور ملک کے ہر شہری کوصحت کی یکساں سہولیات دینے کے لیے جوائنٹ سیشن بلائیں گے، آپ جس دن پارلیمنٹ ہاؤس کے سیشن میں ارکان کو پابند کریں گے آپ لوگ کوٹ ٹائی پہن کر ایوان میں نہیں آسکتے، آپ شلوار قمیص پر ویسٹ کوٹ پہن کر ایوان میں آئیں گے، خدا کی پناہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور وزراء چار چار لاکھ روپے کے سوٹ پہن کر ہلاکتوں اور تباہیوں کے اعداد و شمار دے رہے ہیں، آپ جس دن پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگانے کے لیے اکٹھے ہوں گے، آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور فیصلہ کریں گے ملک میں کوئی سیاستدان دولت کی نمائش نہیں کرسکتا، آپ خوشحال ہیں لیکن جب تک آپ سیاستدان ہیں آپ اس خوشحالی کی نمائش نہیں کر سکتے۔
آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور فیصلہ کریں گے ملک میں غریب ہو یا امیر شادی ایک ہی اسٹینڈر کے مطابق ہو گی، کوئی جہیز دے گا، نہ لے گا اور نہ ہی شادی کی کوئی تقریب ہو گی، آپ جس دن فیصلہ کریں گے حکمرانوں کے خاندان کاکوئی دوسرا فرد پہلے فرد کے ہوتے ہوئے اقتدار میں نہیں آسکتا، آپ جس دن فیصلہ کریں گے آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 فوری طور پر نافذ العمل ہو گا اور جو پارلیمنٹیرین اس پر پورا نہیں اترے گا وہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے فارغ ہو جائے گا، آپ جس دن فیصلہ کریں گے صدر اور وزیراعظم صرف کمرشل فلائیٹس پر سفر کرسکتے ہیں، یہ سرکاری جہاز استعمال نہیں کرسکتے، آپ جس دن فیصلہ کریں گے، الیکشن کمیشن، نیب اور ایف آئی اے آزاد ہو گی، یہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی ہے اور آپ جس دن یہ فیصلہ کریں گے ملک میں کوئی مقدمہ چھ ماہ سے طویل نہیں ہو گا، مقدمات درج ہوں گے اور عدالتیں ہر صورت چھ ماہ میں فیصلہ کریں گی اور آپ جس دن یہ فیصلہ کریں گے حکومتیں آئیں یا جائیں لیکن ریاست تیس سال میں ملک سے غربت ختم کر دے گی اور آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور ملک کا بیس تیس سال کا ایجنڈا طے کریں گے۔
میری آپ سے درخواست ہے آپ جاگ جائیں کیونکہ آپ اگر اب بھی نہ جاگے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بیٹھے لوگ ایوان کے اندر بھی آئیں گے اور آپ کے گھروں میں بھی داخل ہوں گے اور اس وقت آپ کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ موجود ہو گا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔ یہ آخری وارننگ ہے، آپ خدا کے لیے اس آخری وارننگ پر جاگ جائیں ورنہ اس کے بعد ایک عظیم تباہی ہے، دوزخ سے ملتی ہوئی تباہی۔