نظاموں کا قبرستان
گوجرانوالہ کے کوئی بزرگ آنکھیں چیک کرانے گئے، ڈاکٹر نے ایک عینک لگا کر ان سے پوچھا "کیا آپ سامنے بورڈ پر لکھے حرف پڑھ سکتے ہیں " بزرگ نے غور سے بورڈ دیکھا اور بولے "نہیں پڑھ سکتا" ڈاکٹر نے عینک بدل دی اور پھر پوچھا "کیا آپ اب پڑھ سکتے ہیں " بزرگ نے غور سے دیکھا اور پھر فرمایا "اب بھی نہیں پڑھ سکتا" ڈاکٹر اس کے بعد عینکیں بدلتا چلا گیا اور بزرگ بورڈ دیکھ کر سر دائیں بائیں ہلاتے رہے، عینکیں ختم ہو گئیں لیکن بزرگ حرف نہ پڑھ سکے۔
ڈاکٹر نے تنگ آ کر پوچھا "بزرگو! میری ساری عینکیں ختم ہو گئی ہیں لیکن آپ کو بورڈ نظر نہیں آیا، آخر وجہ کیا ہے؟ " بزرگ نے معصومیت سے جواب دیا " پتربورڈ تو مجھے عینک کے بغیر بھی نظر آ رہا ہے" ڈاکٹر نے حیران ہو کر پوچھا "پھر آپ بورڈ کے حرف کیوں نہیں پڑھ پا رہے" بزرگ نے حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور پھر کہا "میں کیسے پڑھ سکتا ہوں! مجھے تو پڑھنا ہی نہیں آتا" ڈاکٹر نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
ہم میں بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آنگنوں کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے ڈانس نہیں سیکھ پاتے، جنہیں پوری زندگی ایسی سائیکل، ایسی موٹر کار نہیں مل پاتی جس پر وہ ڈرائیونگ سیکھ سکیں اور جنہیں عمر بھر ایسے لوگ بھی نہیں ملتے جن پر یہ اعتبار کر سکیں، آپ لوگوں کو چھوڑ دیجیے، میں اگر آپ سے یہ کہوں ہم من حیث القوم ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں نقص ان کی آنکھوں میں نہیں عینکوں اور شیشوں میں ہے، جو چہرہ صاف کرنے کی بجائے آئینے رگڑتے رہتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھنے کی بجائے آسمان پر اپنے مقدر کے ستارے تلاش کرتے رہتے ہیں، ہم من حیث القوم ایسے ہیں، ہم اگر ایسے نہ ہوتے تو ہم آج ایک بار پھر ملک میں صدارتی نظام کی بحث نہ چھیڑ رہے ہوتے، یہ بحث چند ہفتوں پہلے تک ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے کوریڈورز تک محدود تھی لیکن گورنر کے پی کے شاہ فرمان نے پچھلے ہفتے یہ بیان دے کر "پاکستان کے لیے صدارتی نظام ضروری ہے" اس بحث کو باقاعدہ سرکاری حیثیت دے دی۔
ان کا خیال ہے دنیا کے 100 ملکوں میں اس وقت صدارتی نظام چل رہا ہے اور یہ ملک باقاعدہ ترقی کر رہے ہیں لہٰذا ہمیں بھی اس پر جانا چاہیے، شاہ فرمان کی بات درست ہو سکتی ہے لیکن یہ اپنا لاجواب فارمولا پیش کرتے وقت یہ بھول گئے شمالی اور جنوبی امریکا میں اس وقت 22 ملک ہیں، ان میں سے 19 ملکوں میں امریکا جیسا صدارتی نظام ہے، صرف کینیڈا، برازیل اور سری نام میں صدارتی نظام نہیں لیکن 19 میں سے 18 ملک ایک جیسے سسٹم کے باوجود آج تک امریکا نہیں بن سکے۔
امریکا صرف ایک ہے، دنیا میں 27 ملکوں میں بادشاہت ہے اور ان میں سے 21 ترقی یافتہ ہیں، یورپ میں صرف بیلا روس اور سائپرس دو ملکوں میں صدارتی نظام ہے اور یہ دونوں اپنے دائیں بائیں موجود ملکوں کے مقابلے میں پس ماندہ ہیں، دنیا کے 52 ملکوں میں ہمارے جیسا پارلیمانی سسٹم ہے اور یہ ترقی بھی کر رہے ہیں جب کہ ہم روز بروز نیچے جا رہے ہیں، ہمارا آنے والا ہر دن ہمیں کیچڑ کی طرح پیچھے لے جا رہا ہے، کیوں؟ کیا اس کی وجہ پارلیمانی نظام ہے؟ جی نہیں!۔
خرابی ستاروں میں نہیں ہوتی ستاروں کے حال اور چال پر یقین کرنے والوں میں ہوتی ہے، نظام خراب نہیں ہوتے، نظام کے چوکی دار خراب ہوتے ہیں، ہمارا ایشو اگر سسٹم ہوتا تو ہم پچاس سال پہلے ترقی کر چکے ہوتے کیوں کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس نے 73 برسوں میں سارے سسٹم آزما کر دیکھ لیے ہیں، ہمارے ملک میں گورنر جنرل بھی رہے، ہم نے صدارتی نظام بھی ٹیسٹ کر لیا، ہم نے و ن یونٹ بھی بھگتا لیا، ہم نے بنیادی جمہوریت کا ذائقہ بھی چکھ لیا۔ ہم نے سول مارشل لاءبھی لگا لیا۔ ہم نے اسلامی سوشلزم بھی چیک کر لیا، ہم نے شوریٰ نظام بھی دیکھ لیا، ہم نے چار مارشل لاءبھی بھگتا لیے۔ ہم نے چیف ایگزیکٹو کے ذریعے ملک چلانے کا تجربہ بھی کر لیا۔
ہم نے تین ایسے صدور بھی دیکھ لیے جو صدر بھی تھے اور آرمی چیف بھی، ہم نے تین ریفرنڈم بھی کرا لیے اور ہم نے پارلیمانی نظام بھی چیک کر لیا، ماشاءاللہ ہم 73برسوں میں سارے نظام ٹیسٹ کر چکے ہیں بس ریاست مدینہ اور بادشاہت باقی ہے اور یہ حکومت اگر اسی طرح چلتی رہی تو ہم بادشاہ معظم، ظل الٰہی، سلطان اور خلیفہ بھی دیکھ لیں گے اور ہم ان شاءاللہ بھنگ کی کمائی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی فرما لیں گے اور غلام اور خلیفہ اور بکری اور شیر دونوں ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہوں گے، کھانا ظاہر ہے ان کے نصیب میں نہیں ہوگا۔
میرا سوال یہ ہے گورنر جنرل کا سسٹم ہو یا صدارتی، پارلیمانی اور بنیادی جمہوریت کا نظام ہویا پھر اسلامی سوشلزم ہو یہ سارے نظام دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں موجود ہیں اور یہ وہاں ٹھیک ٹھاک کام بھی کر رہے ہیں لیکن یہ سارے سسٹم پاکستان میں فیل ہو گئے، کیوں؟ کیوں کہ غلطیاں نظاموں میں نہیں تھیں، ہم میں تھیں، دھند آئینوں میں نہیں تھی ہماری آنکھوں میں ہے اور ہمیں بہرحال کسی نہ کسی دن یہ ماننا ہوگا انسان اگر کام نہ کرنا چاہے تو فرشتوں کا سسٹم بھی فیل ہو جاتا ہے
اور ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو دنیا کے ناکام ترین نظام سے بھی پھول اور پھل نکلنے لگتے ہیں لیکن ہم اپنے اوپر توجہ دینے کی بجائے نظاموں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، ہم عینکیں بدل بدل کر خود کو مطمئن کر رہے ہیں چناں چہ ہم ایک بار پھر کیلے پر پاؤں رکھ رہے ہیں اور نتیجہ اس بار بھی وہی نکلے گا جو پچھلی پھسلن کا نکلا تھا، ہم ایک بار پھر ہڈیاں تڑوا کر واپس آ جائیں گے۔ یہ باتیں اب زیادہ ڈھکی چھپی نہیں رہیں، وزیراعظم کے احباب انہیں مشورہ دے رہے ہیں ساری خرابیاں پارلیمانی نظام کی دین ہیں۔
یہ سسٹم ان پڑھوں، ناتجربہ کاروں، نالائقوں اور کرپٹ لوگوں کو اوپر لے آتا ہے، یہ لوگ حلقوں کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں، یہ الیکشن لڑنا اور جیتنا جانتے ہیں چناں چہ یہ سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کر کے ٹکٹ لے لیتے ہیں اور پھر یہ اسمبلیوں میں گروپ بنا کر وزارتیں لے لیتے ہیں اور وزیراعظم ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہتے ہیں، یہ احباب عمران خان کو بار بار بتا رہے ہیں لوگوں نے 2018ءمیں صرف عمران خان کو ووٹ دیے تھے، عوام دوبارہ عمران خان کو ووٹ دیں گے چناں چہ خان صاحب کو اگلے الیکشنز سے پہلے ان بلیک میلر ز کا مافیا توڑنا ہو گا اور یہ صرف صدارتی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں مارچ 2021ءمیں سینٹ کے الیکشنز کے بعد عمران خان کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی اور یہ بڑی آسانی سے جوائنٹ سیشن بلا کر ملک کو پارلیمانی سے صدارتی نظام میں شفٹ کر سکیں گے اور یہ اگر ممکن نہ ہوا (اور یہ قانونی اور آئینی لحاظ سے ممکن بھی نہیں ) تو ریفرنڈم کرا کر پورے ملک سے بھی رائے لی جا سکتی ہے اوراگر اپوزیشن اور عدلیہ کی طرف سے رکاوٹ آئی تو عمران خان کم از کم ایم این ایز کا مافیا اور حلقوں کی بلیک میلنگ توڑنے کے لیے پورے ملک کے حلقے ضرور تبدیل کر سکتے ہیں۔
یہ پورے ملک کے ووٹروں کو کل حلقوں پر تقسیم کر کے سارے حلقے برابر کر دیں گے جس کے بعد تمام حلقوں کے ووٹ برابر ہو جائیں گے یوں برادریوں کا زور بھی ٹوٹ جائے گا اور روایتی سیاست دانوں کی شطرنج بھی بکھر جائے گی اور اس کافائدہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ اورگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ہوگا، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں اے این پی کی سیاسی دیواریں گر جائیں گی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ ہو سکے گا؟
اس کا جواب مولوی صاحب کے اس لطیفے میں چھپا ہے جس میں کسی نے مولوی صاحب سے پوچھا تھا، انسان اگر نماز پڑھ رہا ہو اور شیر آ جائے تو انسان کو نماز توڑ دینی چاہیے یا جاری رکھنی چاہیے، مولوی صاحب نے سنجیدگی سے فرمایا، بیٹا اگر شیر دیکھنے کے بعد بھی تمہارا وضو قائم رہے تو تم بے شک نماز جاری رکھو، حکومت اگر اگلے چند ماہ کا پریشر برداشت کر گئی، یہ اگر سینٹ کے الیکشنز تک پہنچ گئی توصدارتی نظام کا پھڈا بھی پڑ جائے گا اور حلقے بھی تبدیل ہو جائیں گے اور حکومت این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم میں بھی ترمیم کر لے گی مگر سردست ہنوز دلی دور است!۔
دوسرا سوال، کیا اس کا ملک کو فائدہ ہو گا؟ میرا نہیں خیال، کیوں؟ کیوں کہ ایشو نظام میں نہیں ہم میں ہے، ہم کسی سسٹم سے مطمئن نہیں ہوتے، ہم کسی کو چلنے نہیں دیتے چناں چہ نتیجہ ہر بار وہی نکلتا ہے یعنی اباؤٹ ٹرن، پھر کوئی نیا بندوق علی خان آ جاتا ہے اور وہ بھی پودے کی جڑیں کھود کر بیٹھ جاتا ہے، ہمیں بہرحال کسی نہ کسی دن رک کر یہ ضرور سوچنا پڑے گا، ہم آخر کب تک چاند پر بیٹھ کر عینکیں بدل بدل کر چاند تلاش کرتے رہیں گے، ہم آخر کب تھکیں گے؟ میں جمہوریت پسند ہوں لیکن میں بھی حالات سے اتنا تنگ آ چکا ہوں کہ میں بھی اب ببانگ دہل کہتا ہوں آپ ملک میں بے شک چالیس سال کے لیے مارشل لاءلگا دیں یا عمران خان کو تاحیات خلیفہ بنا دیں لیکن ملک کو کم از کم چلنے دیں، اس میں استحکام آنے دیں ورنہ یہ ملک نظاموں کا قبرستان تو بن جائے گالیکن یہ ملک، ملک نہیں رہے گا۔