منوں صاحب
اخبار کے ٹھنڈے صفحوں پر ایک کالم کی چھوٹی سی خبر تھی اور یہ خبر زندگی کی وہ حقیقت تھی جسے ہم آخری سانس تک بھولے رہتے ہیں۔"ملک کے معروف صنعت کار شہزادہ عالم منوں انتقال کر گئے" میں نے اخبار نیچے رکھا، آنکھیں بند کیں اور لمبا سانس لیا۔
منوں صاحب سے پہلی ملاقات 1996ء میں ہوئی، میں نے 1996ء میں نے ایک اخباری گروپ کے لیے ایک ماہنامہ شروع کیا، یہ ہیرالڈ کی طرز کا اردو میگزین تھا، یہ میگزین بھی میری زندگی کا ایک ناکام تجربہ تھا لیکن یہ مجھے منو بھائی اور شہزادہ عالم منوں دو اچھے دوست دے گیا، میں "اور" کے ساتھ صرف تین ماہ وابستہ رہا، ہم نے ان تین مہینوں میں مختلف صنعت کاروں، بزنس مینوں، دانشوروں، سیاستدانوں اور اداکاروں کے انٹرویوز شروع کیے، وہ انٹرویوز ماضی کے قبرستان کی مٹی بن چکے ہیں لیکن منو بھائی اور منوں صاحب کا انٹرویو مجھے آج بھی یاد ہے۔
پہلا انٹرویو منو بھائی کا تھا، وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، منو بھائی کا رہن سہن سادہ اور گفتگو بہت چمکدار تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں تازہ تازہ اقتدار سے فارغ ہوئی تھیں، الیکشنوں کی تیاریاں ہو رہی تھیں، منو بھائی نے اس وقت دعویٰ کیا، میاں نواز شریف یہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے مگر یہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکیں گے، میں نے وجہ پوچھی، منو بھائی نے مسکرا کر جواب دیا " ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ مخلوق ہیں، ہم جب تک ناسمجھ رہتے ہیں، ہم جب تک چیزوں کو انڈر اسٹینڈ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ہمیں ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن ہم جوں ہی کائنات کے رموز سمجھ جاتے ہیں، ہمیں حقیقتوں کا ادراک ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کی رسی کھینچ لیتا ہے، ہم قبر کا رزق بن جاتے ہیں " میں نے مسکرا کر عرض کیا "لیکن جناب اس فلسفے کا میاں نواز شریف کے اقتدار سے کیا تعلق ہے؟ " منو بھائی قہقہہ لگا کر بولے " ہمارے ملک میں بھی خدائی سیاسی نظام چل رہا ہے، ہمارے لیڈروں کو جب تک حقیقتوں کا ادراک نہیں ہوتا یہ مزے سے حکومت کرتے ہیں لیکن انھیں جوں ہی حقائق سمجھ آتے ہیں، یہ پیاز کے چھلکے اتارنا سیکھ جاتے ہیں، ان کے اقتدار کی رسی بھی کھینچ لی جاتی ہے" منو بھائی کا کہنا تھا "میاں نواز شریف بھی پے در پے حملوں کے بعد حقائق جان گئے ہیں۔
لہٰذا یہ اس بار کان کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کریں گے اور جلد فارغ ہو جائیں گے" منو بھائی نے اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں تاریخی انکشاف کیا، منو بھائی کا کہنا تھا "پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو تیسری اور آخری بار اقتدار میں آئیں گی اور یہ اس مرتبہ انٹرنیشنل ایجنڈا لے کر مسند اقتدار پر بیٹھیں گی" منو بھائی کا کہنا تھا " بے نظیربھٹو کا آخری دور ملک کا آخری فیز (خدانخواستہ) ثابت ہو گا" منو بھائی کے ساتھ اس کے بعد دوستی کا تعلق قائم ہو گیا، یہ تعلق آج تک چل رہا ہے۔
شہزادہ عالم منوں دوسری شخصیت تھے، یہ منوں گروپ کے چیئرمین تھے، یہ لوگ ٹیکسٹائل میں کام کرتے تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو حیرتوں کا دروازہ کھل گیا، منوں صاحب میں سلیقہ، عاجزی اور وژن موجود تھا، 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ان کی صنعت کا بڑا حصہ بنگلہ دیش رہ گیا، یہ مغربی پاکستان آئے تو باقی فیکٹریاں ذوالفقار علی بھٹو نے قومیا لیں، یہ لوگ صفر ہو گئے، شہزادہ عالم آگے بڑھے اور انھوں نے ایک ایک اینٹ کر کے اپنے خاندان کو از سر نو تعمیر کیا اور کمال کر دیا، یہ 1980ء کی دہائی تک نہ صرف دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو گئے بلکہ یہ قومی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس بھی دینے لگے۔
میں نے دنیا میں بے شمار منیجر دیکھے ہیں، میں لی آئیا کوکا سے بھی ملا ہوں اور بل گیٹس اور وارن بفٹ سے بھی اور میں نے ملک کے بے شمار صنعت کاروں، بزنس مینوں اور سیاستدانوں کے کامیاب ماڈل بھی دیکھے ہیں لیکن شہزادہ عالم کے بزنس ماڈل نے حیران کر دیا، ان کی پہلی خوبی ٹائم مینجمنٹ تھی، یہ صبح جلدی کام شروع کرتے تھے اور دن کے ایک یا دو بجے دفتر سے واپس آ جاتے تھے اور اس کے بعد کام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، یہ دفتر سے کوئی فون بھی ریسیو نہیں کرتے تھے، اس دوران منوں گروپ کا کتنا ہی نقصان ہو جائے یا انھیں کتنے ہی بڑے فائدے کی پیشکش کیوں نہ کر دی جائے، وہ رابطے میں نہیں آتے تھے۔
وہ فائدہ ہو یا نقصان اگلے دن ہی دیکھتے تھے، میں نے کامیابی کے جتنے فارمولے پڑھے، ان میں ان تھک محنت، شبانہ روز کام اور دن کے 18 گھنٹے دستیاب رہنا شامل تھا لیکن شہزادہ عالم منوں اس فارمولے سے برعکس زندگی گزار رہے تھے، وہ دن میں پانچ حد چھ گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بعد آرام کرتے تھے، ایکسرسائز کرتے تھے، کتابیں پڑھتے تھے اور دوستوں اور فیملی کے ساتھ وقت گزارتے تھے، وہ سمجھتے تھے کام زندگی کے لیے ہوتا ہے، زندگی کو کام کے لیے نہیں ہونا چاہیے، وہ ہفتے میں ایک دن ورکروں کی وردی پہن کر دفتر آتے تھے، وہ یہ یونیفارم دفتری اوقات میں پہنے رکھتے تھے۔
یہ ان کا اپنے ورکروں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوتا تھا، آپ نے پاکستان میں بے شمار فیکٹریاں دیکھی ہوں گی لیکن منوں صاحب کی فیکٹریاں ان سے بالکل مختلف ہیں، آپ کو پاکستان کی جس بھی فیکٹری کے سامنے پانی کا خوبصورت تالاب اور فوارے نظر آئیں آپ یہ جان لیں یہ فیکٹری منوں صاحب کی ملکیت یا پھر اس فیکٹری کا مالک منوں صاحب کی فلاسفی سے متاثر ہے، منوں صاحب نے ان تالابوں کی ایک خوبصورت بیک گراؤنڈ بتائی، ان کا کہنا تھا، آپ کو ٹیکسٹائل مل میں آگ بجھانے کا بندوبست رکھنا پڑتا ہے، آپ فیکٹریوں میں پانی کا ٹینک بناتے ہیں، میری فیکٹریوں میں بھی ٹینک تھا، میں نے ایک دن اپنے منیجر کو بلایا اور اس سے پوچھا "ہماری فیکٹری میں اگر آگ لگ جائے تو آپ یہ آگ کیسے بجھائیں گے" منیجر نے جواب دیا "سرہم ایک بٹن دبائیں گے۔
موٹر چالو ہو گی اور ہم پانی پھینک کر آگ بجھا دیں گے" میں نے بٹن دبانے کی درخواست کی، بٹن دبایا گیا، موٹر چلی لیکن پانی نہ آیا، معلوم ہوا پائپ بند ہو چکے ہیں، میں نے کھڑے کھڑے تمام فیکٹریوں میں پانی کے تالاب بنانے اور ان میں فوارے لگانے کا حکم دے دیا، ان تالابوں اور ان کے فواروں نے فیکٹریوں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ دیا اور یہ آگ بجھانے کا بندوبست بھی ہو گئے، ہم لوگ روزانہ فوارے چلاتے ہیں۔
یہ فوارے پائپوں کو کھلا بھی رکھتے ہیں اور ہمیں ان کے ذریعے اپنے انتظام کے کارآمد ہونے کا یقین بھی ہو جاتا ہے، منوں صاحب اپنے ورکروں کے بارے میں بھی بہت حساس تھے، یہ ان کے لیے خصوصی رہائش گاہیں بھی بنواتے تھے، کالونیاں بھی تعمیر کرتے تھے اور ان کالونیوں میں بچوں کے لیے اسکول، اسپتال اور گراؤنڈ بھی بنواتے تھے، منوں صاحب نے ایک گاؤں بھی "گود" لے رکھا تھا، انھوں نے پورا گاؤں دوبارہ بنوایا، اس میں جدید دور کی سہولیات کا بندوبست کیا، وہ اکثر کہا کرتے تھے، ملک کے امراء اگر اپنی اوقات کے مطابق ایک ایک، دو دو دیہات کا بندوبست سنبھال لیں تو ملک کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔
میری ان سے آخری ملاقات 2009ء میں ہوئی، وہ ملکی حالات سے خاصے پریشان تھے، ان کا خیال تھا ملک میں مذہبی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، ریاست نے اگر یہ عمل نہ روکا تو لوگ فرقے کی بنیاد پر دوسروں کو قتل کرتے جائیں گے، اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی مسجد بچے گی اور نہ ہی مدرسہ۔ وہ کہتے تھے علماء کرام کو بھی آگے آنا چاہیے اور حکومت کو بھی مذہبی شدت پسندی کا راستہ روکنا چاہیے۔
میری ان سے اگلی ملاقات منوں آبشار میں طے ہوئی، منوں صاحب نے اسلام آباد اور مری کے راستے میں چھتر کے مقام پر ایک خوبصورت جزیرہ آباد کر رکھا تھا، یہ جزیرہ برساتی نالے کے عین درمیان میں تھا، یہ لکڑی کے پل کے ذریعے سڑک سے منسلک تھا، یہ پل بوقت ضرورت کھولا جاتا تھا اور بعد ازاں اسے واپس کھینچ کر اس کا تعلق زمین سے توڑ دیا جاتا، منوں صاحب کے جزیرے میں ایک آبشار بھی ہے، یہ آبشار آپ کو مری روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہے، منوں صاحب نے مجھے وہاں لنچ کی دعوت دی لیکن زندگی کی بے مقصد مصروفیات نے موقع نہ دیا یہاں تک کہ منوں صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے۔
منوں صاحب کی موت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا، آپ اچھے ہیں یا برے موت بہرحال آپ کو آ کر رہتی ہے اور آپ کے بعد اخبارات میں صرف ایک کالم کی چھوٹی سی خبر چھپتی ہے اور بس اور یہ ہے زندگی! اور ہو سکتا ہے آپ جس دن دنیا سے رخصت ہوں اس دن کوئی دھرنا چل رہا ہو اور دھرنے کی خبریں آپ کی موت کی ایک کالم خبر کو بھی نگل جائیں اور یوں آپ بے خبری میں دنیا سے رخصت ہو جائیں، منو ں صاحب چلے گئے اور ہم کسی دن چلے جائیں گے اور پیچھے رہ جائیں گی حسرتیں اور حسرتوں کی تلاش میں بھاگتے لوگوں کے زخم۔