معافی اور توبہ
"اچھا تم بتاؤ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑا تحفہ کیا دیا تھا، وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھا، میں سوچ میں پڑ گیا، وہ اس دوران میری طرف دیکھتے رہے، میں نے تھوڑی دیر سوچا اور عرض کیا" شعور، انھوں نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے عرض کیا "عقل" وہ فوراً بولے "شعور اور عقل دونوں ایک ہی چیز ہیں" میں نے مزید سوچا اور عرض کیا " آکسیجن، سورج کی روشنی، پانی، خوراک اور جمالیاتی حس" انھوں نے ناں میں گردن ہلا دی، میں نے عرض کیا "تعمیر کا فن، انسان کائنات کی واحد مخلوق ہے جو پتھروں کو ہیرے کی شکل دے سکتی ہے۔
جو مٹی کا محل بنا سکتا ہے اور جو ریت کے ذروں کو شیشے میں ڈھال سکتا ہے" وہ مسکرائے اور انکار میں سر ہلا دیا، میں نے اس کے بعد انسان کی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کا نام لینا شروع کردیا لیکن وہ انکار میں سر ہلاتے رہے یہاں تک کہ میں تھک گیا اور بے بسی سے ان کی طرف دیکھنے لگا، وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے " آپ نے انسان کی جن خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر کیا وہ تمام اللہ تعالیٰ کی دین ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ خوبیاں قائم اور دائم رہتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو انسان فرعون ہو یا نمرود یا بش اس کی خوبیاں اس کی خامیاں بن جاتی ہیں اور وہ دنیا میں زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے" میں خاموشی سے سننے لگا، وہ بولے " میں آپ کو اب اس سب سے بڑے تحفے کے بارے میں بتاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا" میں ہمہ تن گوش ہوگیا، وہ بولے " قدرت نے انسان کو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے۔
دنیا کی کوئی دوسری مخلوق، کوئی خاکی یا نوری پیکر اس خوبی کی مالک نہیں" میں نے حیرت سے پوچھا " جناب میں آپ کی بات نہیں سمجھا" وہ بولے " مثلاً تم چاند کو لے لو، اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو اس نے چاند میں ایک پروگرام فیڈ کر دیا اور چاند اب اس پروگرام کے تحت چمک رہا ہے اور جب تک قدرت پروگرام نہیں بدلے گی یہ چاند اسی طرح چمکتا رہے گا، آپ سورج، ستاروں اور سیاروں کولے لیجیے، زمین کی حرکت کو لیجیے، ہواؤں، فضاؤں، ندیوں اور نالوں کو لے لیجیے، دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں کو لے لیجیے، زلزلوں، طوفانوں اور سیلابوں کو لے لیجیے، یہ تمام ایک پروگرام کے تحت چل رہے ہیں اور قدرت یہ پروگرام فیڈ کر کے ان سے لاتعلق ہو گئی" وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے عرض کیا " جناب میں اب بھی آپ کا نقطہ نہیں سمجھ سکا" وہ بولے " دنیا کا کوئی پہاڑ، کوئی درخت، کوئی جانور، کوئی ستارہ اور کوئی سیارہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس خوبی سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے، وہ اسے راضی کر سکتا ہے" میں نے عرض کیا " جناب میں یہی تو آپ سے پوچھ رہا ہوں" وہ مسکرائے اور بولے " لیکن اس نقطے کو سمجھنے کے لیے مجھے پیچھے تاریخ میں جانا پڑے گا" میں خاموشی سے سننے لگا، وہ بولے " آپ شیطان اور حضرت آدمؑ کا واقعہ دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا وہ انسان کو سجدہ کرے، شیطان نے حکم عدولی کی، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کردیا۔
شیطان آسمانوں سے اترا اور کروڑوں سال سے زمین پر خوار ہو رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو گندم کا دانہ چکھنے سے منع فرمایا، حضرت آدمؑ نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی، اللہ تعالیٰ ان سے بھی ناراض ہوئے اور انھیں بھی آسمان سے زمین پر بھیج دیا لیکن حضرت آدمؑ کے رویئے اور شیطان کے رویئے میں بڑا فرق تھا" وہ دم لینے کے لیے رکے اور دوبارہ گویا ہوئے " شیطان زمین پر آنے کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا جب کہ حضرت آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے لگے، وہ سجدے میں پڑے رہتے تھے۔
روتے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہی، اپنی غلطی، اپنے جرم اور اپنے گناہ کی معافی مانگتے جاتے تھے، حضرت آدمؑ کی توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ کرلی اور مشیت ایزدی ان سے راضی نہ ہوگئی" وہ خاموش ہوگئے، ہمارے درمیان خاموشی کے بے شمار پل گزر گئے، جب یہ وقفہ طویل ہوگیا تو میں نے عرض کیا" جناب میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا" وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے " اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے سب سے بڑا انعام توبہ ہے، انسان اس انعام، اس تحفے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات کو راضی کر سکتا ہے اور وہ اللہ جو اپنے بندے کی کسی خطا، کسی جرم، کسی کوتاہی اور کسی گناہ سے ناراض ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے مان جاتا ہے اور اس بندے پر اپنے رحم، اپنے کرم اور اپنی محبت کے دروازے کھول دیتا ہے اور یوں انسان سکون میں چلا جاتا ہے"۔
وہ رکے اور دوبارہ بولے " جب تک انسان کو اللہ کی محبت، کرم اور رحم نصیب نہیں ہوتا اس وقت تک انسان کو سکون، آرام، چین، خوشی اور مسرت حاصل نہیں ہو تی، خوشی، خوشحالی اور سکون اللہ کی رضا مندی سے منسلک ہے اور جو شخص، جو قوم اور جو طبقہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے محروم ہو جاتا ہے اس کا سکون، خوشی اور خوشحالی چھن جاتی ہے چنانچہ جب بھی انسان کا رزق تنگ ہو جائے، اس کا دل مسرت اور خوشی سے خالی ہو جائے، وہ چین اور سکون سے محروم ہو جائے اور اسے زندگی میں ایک تپش، ڈپریشن اور ٹینشن کا احساس ہو تو اسے چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے، وہ کثرت سے توبہ کرے اور وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے" میں خاموش رہا، وہ بولے " یہ سکون کا ایک نسخہ ہے۔
سکون کا دوسرا نسخہ معافی ہے، ہم لوگ دن میں اوسطاً سو سے تین سو تک غلطیاں کرتے ہیں، اگر ہم ہر غلطی پر معذرت کو اپنی روٹین بنالیں، ہم نے جلدبازی، بے پروائی، نفرت، غصے، تکبر اور ہٹ دھرمی میں جس شخص کا حق مارا، ہم نے جس کو نقصان پہنچایا اور ہم نے جس کو ڈسٹرب کیا، ہم اگر فوراً اس شخص سے معافی مانگ لیں تو بھی ہماری زندگی میں سکون، آرام اور خوشی آسکتی ہے، ہمیں معافی مانگنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ معافی وہ چٹان ہے جس کے نیچے سکون، خوشی اور خوشحالی کے چشمے چھپے ہیں اور جب تک ہم یہ چٹان نہیں سرکائیں گے۔
ہم خوشی، خوشحالی اور سکون کا ٹھنڈا پانی نہیں پی سکیں گے" وہ رکے اور دوبارہ بولے " یاد رکھو دنیا میں صرف اور صرف شیطان توبہ اور معافی سے دور رہتا ہے جب کہ اللہ کے بندے ان دونوں چیزوں کو اپنی روٹین بنا لیتے ہیں، ہٹ دھرمی، تکبر، ظلم، ضد، نفرت اور غصہ شیطان کی خامیاں ہیں اور جن لوگوں کی ذات میں یہ ساری خامیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، تم کبھی ان کے منہ سے توبہ اور معافی کا لفظ نہیں سنو گے چنانچہ تم کبھی ان لوگوں کو پرسکون، خوش اور خوشحال نہیں پاؤ گے، یہ دولت مند ہو سکتے ہیں لیکن یہ دولت انھیں خوشی اور سکون فراہم نہیں کرتی، تم ان لوگوں کا انجام بھی اچھا ہوتا نہیں دیکھو گے جب کہ معافی اور توبہ کرنے والے لوگوں میں تمہیں غصہ، نفرت، ضد، ظلم، تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں ملے گی اور تمہیں یہ لوگ کبھی پریشان، ڈپریس اور ٹینس نہیں ملیں گے چنانچہ ہر لمحہ لوگوں سے معافی مانگتے رہو اور اللہ سے توبہ کرتے رہو، تمہاری زندگی سے کبھی سکون، خوشی اور خوشحالی کم نہیں ہوگی" وہ خاموش ہوگئے، میں نے ان کے گھٹنے چھوئے اور باہر آ گیا۔