میاں صاحب گھاٹے کا سودا نہ کریں
میاں نواز شریف صاحب! دنیا میں اس وقت چھوٹے بڑے 245 ملک ہیں، ان ملکوں میں سے 193 اقوام متحدہ کے رکن ہیں، پاکستان کا شمار 245 ممالک کی اس دنیا کے اہم ترین ملکوں میں ہوتا ہے، یہ ملک دنیا کی ساتویں جوہری طاقت اور آبادی کے لحاظ سے چھٹابڑا ملک ہے، پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی اور مضبوط فوج ہے، یہ اسلامی دنیا کا اہم ترین ملک بھی ہے، ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات وسائل میں ہم سے بہت بڑے ہیں لیکن فوجی اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان ان سے بہت آگے ہے، یہ ملک چین، سینٹرل ایشیا اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔
یہ اس جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے دنیا کی ایک تہائی آبادی کی کنجی کہلاتا ہے، دنیا جب تک پاکستان کو چابی تسلیم نہیں کرتی یہ اس وقت تک اس خطے کا تالہ نہیں کھول سکتی، پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے جن کے پاس چاروں موسم اور ہر قسم کی زمین ہے، آپ ڈیڑھ گھنٹے کی فلائیٹ سے جیکب آباد کی 50 درجے سینٹی گریڈ کی گرمی سے سیاچن کے منفی 55 سینٹی گریڈ کے برف زاروں میں پہنچ جاتے ہیں، دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں اور ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں، یہ خطہ دنیا کی قدیم ترین سولائزیشنز میں بھی شمار ہوتا ہے اور یہ دنیا کے ان چند ملکوں میں بھی آتا ہے جو پچھلے چالیس برس سے عالمی میڈیا کا موضوع ہیں اور آپ میاں صاحب اس ملک کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم ہیں، آپ تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے۔
آپ کسی دن ایزی چیئر پر بیٹھیں، آنکھیں بند کریں اور اپنے اور اپنے خاندان کے پروفائل کا تجزیہ کریں، آپ یاد کریں، آپ کے دادا حکیم رمضان جاتی عمرہ کے واحد مسلمان خاندان کے کفیل تھے، آپ کے دادا کے گھر میں تین تین دن کھانا نہیں پکتا تھا، آپ کے بڑے تایا میاں برکت یہ غربت نہ دیکھ سکے اور وہ دوسرے بھائی میاں بشیر کو ساتھ لے کر لاہور آ گئے، یہ دونوں بھائی ریلوے روڈ پر سارا دن لوہا کوٹتے تھے اور انھیں صرف ایک روپیہ مزدوری ملتی تھی، یہ اس میں سے کھانے کے چار آنے رکھ کر باقی بارہ آنے گھر بھجوا دیتے تھے۔
یہ بارہ آنے حکیم محمد رمضان کے گھرانے کا کل اثاثہ ہوتے تھے، آپ یاد کریں، آپ کے والد روزانہ چار کلو میٹر پیدل چل کر نیویں سرلی جاتے تھے اور وہاں سے پیدل واپس آتے تھے، انھوں نے اس طرح پرائمری پاس کی، وہ فیس کی کمی کی وجہ سے دس سال کی عمر میں لاہور شفٹ ہو گئے، وہ دن کے وقت مسلم ہائی اسکول رام گلی میں پڑھتے تھے اور شام کے وقت لوہا کوٹتے تھے، وہ اس طرح میٹرک تک پہنچے، وہ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے، ان کے پاس فیس نہیں تھی چنانچہ انھوں نے کالج سے فیس معاف کرائی، وہ کالج کے واحد طالب علم تھے جنھیں ان کے حالات اور مزدوری کی وجہ سے ہوم ورک سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا، وہ مزدوری کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور انھوں نے حاجی دین محمد کی فیکٹری میں چودہ آنے کی نوکری کر لی، وہ فیکٹری کے منشی تھے۔
آپ کے والد نے 1937ء میں بھائیوں کے ساتھ مل کر حاجی فیروز دین سے 310 روپے میں پرانی بھٹی خریدی، 13 روپے ماہانہ کرائے پر احاطہ لیا، چچا سے 500 روپے ادھار لیے اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد رکھ دی، آپ چند لمحوں کے لیے سوچئے، آپ کا خاندان 1947ء میں کہاں تھا، لوگ آپ کے بزرگوں کو کس نام سے پکارتے تھے، آپ سوچئے، آپ کے والد خاندان کے پہلے فرد تھے جنھیں لوگوں نے میاں صاحب کہنا شروع کیا تھا اور یہ خطاب آہستہ آہستہ آپ کے پورے خاندان کی شاخت بن گیا، آپ یاد کیجیے، آپ کیسے طالب علم تھے؟ آپ کی اسکول میں کیا پوزیشن ہوتی تھی؟ کالج میں آپ کے کیا حالات تھے؟ آپ زندگی میں کبھی اچھے طالب علم نہیں رہے۔
آپ کے اندر بچپن سے شرمیلا پن ہے، آپ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتے، آپ کی باڈی لینگویج، آپ کی کمیونیکیشن بھی اچھی نہیں، آپ نام، تاریخیں اور واقعات بھی بھول جاتے ہیں، آپ روانی کے ساتھ گفتگو بھی نہیں کر سکتے، آپ کی انگریزی بھی اچھی نہیں، آپ مطالعہ بھی نہیں کرتے، آپ کا مزاج بھی شاہانہ ہے، آپ تکلیف، درد، گرمی، سردی، دھوپ، بو، قید اور کرخت آواز تک برداشت نہیں کر سکتے، آپ کو روزانہ استری شدہ کپڑے، صاف جوتے اور خوشبو چاہیے، آپ کو مہنگی گاڑیوں اور گھڑیوں کا شوق بھی ہے اور آپ اپنی رائے میں بھی بے لچک ہیں، آپ لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں تو پھر پوری زندگی ناپسند کرتے ہیں۔
آپ کاروبار میں بھی اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف سے بہت پیچھے تھے، آپ فیکٹری نہیں چلا سکے تو آپ سیاست میں آ گئے، سیاست میں آپ کی ترقی حیران کن تھی، آپ 1981ء میں وزیر خزانہ بن گئے، 1985ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور1990ء میں ملک کے وزیراعظم، آپ کو دوبار اقتدار سے نکالا گیا، آپ کی پارٹی کو چار بار توڑا گیا، آپ کو جلا وطن بھی کیا گیا اور آپ کی زمین، جائیداد اور مال و دولت بھی چھین لیا گیا لیکن آپ اس کے باوجود ملک میں واپس آ گئے، آپ تیسری بار اس پاکستان کے وزیراعظم بن گئے جسے 245 ممالک میں اہم پوزیشن حاصل ہے اور آپ نے دوبار ہیوی مینڈیٹ بھی لیا۔
آپ آنکھیں بند کر کے امرتسر کا جاتی عمرہ یاد کیجیے، دادا حکیم رمضان کو دیکھئے، اپنے والد کی محنت کا تصور کیجیے، ریلوے روڈ کے اس احاطے اور پھر اس گھر کو تصور میں لائیے، جہاں آپ کے والد، تایا اور چچا رہتے تھے اور جہاں آپ نے اپنی ابتدائی زندگی گزاری اور آپ اس کے بعد ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی صلاحیتوں کا تجزیہ کیجیے اور جب یہ تجزیہ مکمل ہو جائے تو آپ پھر اللہ کا کرم دیکھئے، خدا نے آپ اور آپ کے خاندان کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا، حکیم رمضان کا پوتا، فیس اور مزدوری کی وجہ سے کالج چھوڑنے والے میاں شریف کا بیٹا اور ایک ایسا ایوریج طالب علم جو آج بھی دن میں بیس مرتبہ شرماتا ہے اور جسے ہر تین چار فقروں کے بعد گلا صاف کرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے خاندان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، آپ اور آپ کا خاندان اگر اللہ کی اس عنایت پر 24 گھنٹے شکر ادا کرتا رہے تو بھی کم ہوگا، آپ دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے وزیراعظم ہیں۔
آپ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور یہ عزت، رتبے اور کرم کی انتہا ہے، آپ اس سے آگے کہاں جائیں گے، آپ اس کے بعد بھارت، چین، برطانیہ اور امریکا کے وزیراعظم اور صدر تو نہیں بن سکتے؟ آپ شہنشاہ ہند اور امیر تیمور بھی نہیں بن سکتے اور آپ پاکستان میں مصر کے اہرام اور چین کی دیوار بھی نہیں بنا سکتے؟ آپ اس سے آگے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ یہ آپ کے لیے اللہ کے کرم کی انتہا ہے، آپ اس سے آگے نہیں جا سکیں گے چنانچہ آپ نے اب ایک فیصلہ کرنا ہے، دولت یا اقتدار، کاروبار یا سیاست، میاں صاحب آپ یقین کر لیں، آپ اب یہ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں چلا سکیں گے۔
آپ کو کاروبار اور سیاست دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں اور اس صدی میں سیاست اور دولت پانی اور آگ بن چکے ہیں، یہ دونوں اب ایک ٹب میں نہیں رہ سکتے، آپ کو اب کسی ایک کو باہر نکالنا ہوگا، آپ اب دونوں نکاحوں کو نہیں چلا سکیں گے، یہ نہیں ہو سکتا خاندان کاروبار بھی کرتا رہے، یہ آف شور کمپنیوں کا مالک بھی ہو، اس کی دولت میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی رہے۔
آپ ملک کے باہر فلیٹس اور مکان بھی خریدتے رہیں، آپ کے صاحبزادے اور داماد تجارت بھی کرتے رہیں اور آپ اطمینان سے دنیا کی ساتویں جوہری طاقت پر حکمرانی بھی کرتے رہیں، آپ امیرالمومنین بھی بنے رہیں، یہ ممکن نہیں ہے، انسان دو کشتیوں کا سوار ہو سکتا ہے لیکن یہ دو کشتیوں میں زندہ نہیں رہ سکتا چنانچہ آپ کو بھی کسی ایک کشتی کا فیصلہ کرنا ہوگا، آپ جتنی جلدی یہ فیصلہ کر لیں گے، آپ، آپ کا خاندان اور آپ کی ساکھ اتنی ہی بچ جائے گی اور آپ اس فیصلے میں جتنی تاخیر کریں گے، آپ اتنے ہی کمزور، اتنے ہی زخمی ہوتے چلے جائیں گے۔
میاں صاحب یہ درست ہے، آپ خوش قسمت انسان ہیں، قدرت آپ کو جب بھی سپورٹ کرتی ہے آؤٹ آف دی وے کرتی ہے، آپ یقینا پانامہ لیکس کے ایشو سے بھی نکل جائیں گے لیکن کب تک؟ آپ کب تک اپنے آپ اور اپنے ماضی سے چھپتے رہیں گے چنانچہ فیصلہ کریں، آپ اعلان کریں، میرے خاندان کے یہ لوگ کاروبار کریں گے اور یہ سیاست۔ کاروباری بچوں اور بھتیجوں کے اثاثے اور کاروبار ڈکلیئر کریں اور اس کے بعد ان پر پابندی لگا دیں کہ آپ جب تک سیاست اور اقتدار میں ہیں یہ کسی میٹنگ، کسی سیاسی اجتماع اور کسی سرکاری ایوان میں داخل نہیں ہوں گے، یہ کسی سرکاری اہلکار اور کسی سرکاری دفتر میں فون بھی نہیں کریں گے۔
یہ لوگ مستقبل میں کبھی سیاست میں نہیں آئیں گے اور آپ کے خاندان کے جو لوگ سیاست میں آئیں گے وہ زندگی میں کبھی کوئی کاروبار نہیں کریں گے، وہ اپنی ٹانگیں چادر تک پھیلائیں گے، آپ اپنے محلات بھی خاندان کے حوالے کر دیں یا پھر ان میں اسکول اور یونیورسٹی قائم کر دیں، اپنا طرز زندگی سادہ کر لیں، چھوٹے گھر میں رہیں اور وزیراعظم اور پارٹی لیڈر کی تنخواہ میں گزارہ کریں، آپ اس کے بعد "ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن" بنائیں، اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور دوسروں کو بھی غلطیاں ماننے اور قوم سے معافی مانگنے کا موقع دیں، ماضی کی سلیٹ صاف کریں، ایک نئے دن کا آغاز کریں اور پھر ملک میں ایسی اصلاحات کریں جن کی نظر میں وزیراعظم اور عام شہری برابر ہوں، جن میں وزیراعظم آئس لینڈ کی طرح ایک دن کے احتجاج کے بعد گھر چلا جائے اور سرکاری اہلکار خرابی اور کوتاہی کے بعد سنگاپور کی طرح خودکشی پر مجبور ہو جائیں، آپ یقین کیجیے، آپ اگر آج یہ فیصلہ نہیں کرتے تو آپ کل کو پھنس جائیں گے۔
عمران خان صاحب آپ کو کرپٹ، نااہل اور دھاندلی زدہ ثابت کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے گا جب آپ اپنا وہ سارا مال و متاع چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گے جس کی حفاظت کے لیے آج آپ کی پوری پارٹی "کوڈی کوڈی" کر رہی ہے، میاں صاحب پاکستان میں امیر نواز شریف ہزاروں ہیں لیکن وزیراعظم نواز شریف صرف ایک ہے۔
آپ وزیراعظم نواز شریف کو مالدار نواز شریف پر قربان نہ کریں، آپ اللہ کے اس کرم کو ٹھوکر نہ ماریں جس نے حکیم رمضان کے پوتے کو لوہے کوٹنے والوں کے خاندان سے اٹھا کر دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کا وزیراعظم بنا دیا، آپ اپنے آپ کو عزت کے تخت سے اٹھا کر دوبارہ ریلوے روڈ کی 310 روپے کی بھٹی میں نہ جھونکیں۔
میاں صاحب آپ بزنس مین ہیں، سمجھ دار بزنس مین گھاٹے کا سودا نہیں کیا کرتے، آپ بھی گھاٹے کا سودا نہ کریں۔