میں اس شخص کی وزڈم کو سلام کرتا ہوں
شیخ محمد بن راشد المختوم دبئی کے حکمران ہیں، یہ دنیا کے انقلابی لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں، شیخ محمد نے فروری 2006ء میں دبئی کی عنان اقتدار سنبھالی اور انھوں نے دس برسوں میں ریاست کا مقدر بدل دیا، دبئی اب سیاحوں اور تاجروں کی جنت کہلاتا ہے، دنیا بھر سے ڈیڑھ کروڑسیاح ہر سال دبئی آتے ہیں۔
یہ ہوٹلز، موٹلز اور شاپنگ سینٹروں کا شہر بھی ہے، یہ اسپورٹس کے متوالوں کی آخری منزل بھی ہے اور یہ عیاشیوں کی جنت گم گشتہ بھی ہے، دبئی کا رقبہ 4114 مربع کلو میٹر اور آبادی 24 لاکھ 60 ہزار ہے، موسم گرم اور زمین بے مروت ہے مگر اس کے باوجود اس کا جی ڈی پی 83 ارب ڈالر، فی کس آمدنی 24 ہزار ڈالر اور تجارتی حجم 1۔ 4 کھرب درہم ہے، پاکستان اس کے مقابلے میں رقبے اور آبادی میں 200گنا بڑا لیکن معیشت میں 22گنا چھوٹا ہے، کیوں؟ کیونکہ دبئی کے پاس شیخ محمد بن راشد المختوم جیسا حکمران ہے جب کہ ہم ان جیسے وژنری لوگوں سے محروم ہیں۔
شیخ محمد میں ایسی کیا خوبی ہے جس کے ذریعے انھوں نے دبئی کو دنیا کی جدید ترین ریاست بنا دیا اور ہمارے حکمرانوں میں ایسی کون سی خامی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا؟ شیخ محمد میں تین خوبیاں ہیں، دنیا میں ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یا یہودی ہو یہ اس کی خوبی، اس کی کامیابی اور اس کے ہنر سے سیکھتے ہوئے دیر نہیں لگاتے، شیخ کو دس برسوں میں دنیا کے جس ملک اور جس شخص سے کامیابی کا نسخہ ملا انھوں نے فوراً لے لیا، دوسرا، یہ چیزوں کو فوراً "امپلی منٹ" کرتے ہیں، یہ مشورہ کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں۔
یہ ہماری طرح بحث مباحثے، صلاح مشورے اور جوتے تلاش کرنے میں وقت ضایع نہیں کرتے اور ان کی تیسری اور بڑی خوبی اچھوتے آئیڈیاز ہیں، دبئی گلف کی پہلی اسلامی ریاست تھی جس نے معاشرے کو لبرل کیا، جس میں برقعہ اور اسکرٹ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جس میں مسجد اور خرابات دونوں ہیں اور دونوں کے درمیان قانون کی دیوار کھڑی ہے، جس میں زیر سمندر ہوٹلز بھی ہیں، دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ بھی، دنیا کی سب سے بڑی گھوڑا ریس بھی، کیسینوز بھی، ہیلتھ سٹی بھی، میڈیا سٹی بھی، انٹرنیشنل اکیڈیمک سٹی بھی اوردنیا کی خوبصورت مسجدیں بھی۔ دبئی پورٹ کا شمار دنیا کی نویں مصروف ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے اور یہ گلف میں سیاحت سے کمانے والی سب سے بڑی ریاست بھی ہے۔
یہ تمام اعزاز اچھوتے اور انوکھے آئیڈیاز کا کمال ہیں اور اس کا سارا کریڈٹ شیخ محمد بن راشد کو جاتا ہے، یہ اچھوتے آئیڈیاز کے ایکسپرٹ بھی ہیں اور ماسٹر بھی۔ یہ شیخ کے ان انوکھے آئیڈیاز کا نتیجہ ہے کہ آپ دبئی جائیں، آپ کسی سڑک کے کسی کارنر پر کھڑے ہو جائیں اور آپ دائیں بائیں دیکھیں، آپ کو یہ شہر نیویارک، لندن اور ٹوکیو سے کم نہیں لگے گا، یہ ان انوکھے آئیڈیاز کا کمال ہے، آپ کو اس شہر میں آج ہریالی بھی ملتی ہے، باغات بھی، مصنوعی آبشاریں بھی اور آباد ساحل بھی، یہ شہر، یہ ریاست ترقی کی جدید ترین مثال ہے اور اس مثال کا سہرہ ایک شخص کے سر بندھتا ہے اور وہ شخص شیخ محمد بن راشد ہیں۔
شیخ محمد بن راشد المختوم کے تازہ ترین آئیڈئیے نے بھی پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا، انھوں نے دبئی میں خوشی اور برداشت کی وزارت بنانے کا اعلان کر دیا، یہ وزارت ملک میں مسرت، خوشی اور خوشگواری میں بھی اضافہ کرے گی اور یہ لوگوں کو برداشت کا سبق بھی دے گی، یہ وزارت اگر قائم ہو جاتی ہے اور یہ باقاعدہ کام شروع کر دیتی ہے تو یہ دنیا کے لیے انقلاب ثابت ہوگی، ہم انسان پہلی چیخ سے لے کر آخری ہچکی تک اس کرہ ارض پر صرف تین چیزیں تلاش کرتے ہیں۔
خوشی، سکون اور آسائش، ہم اگر کسی دن بیٹھ کر اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے، ہمارے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے لیکن ہم اس کے باوجود خوش، پر سکون اور کمفرٹیبل نہیں ہیں، کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب سے پہلے ایک اور ریسرچ بھی ملاحظہ کیجیے، نیویارک کی وال اسٹریٹ دنیا کا اکنامک کیپیٹل ہے، یہاں دنیا کے تمام بڑے اداروں، کمپنیوں اور امراء کے دفاتر ہیں، دنیا کی سب سے بڑی نیویارک اسٹاک ایکسچینج بھی یہاں واقع ہے۔
اس کا معاشی حجم بیس ٹریلین ڈالر ہے، آج سے چند سال پہلے جب وال اسٹریٹ کے امراء سے پوچھا گیا " کیا آپ خوش ہیں" تو دنیا کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد امراء کا جواب تھا "ہم آج تک خوشی کی نعمت سے محروم ہیں" آپ وال اسٹریٹ کو چھوڑیئے، آپ اپنے آپ سے پوچھئے، آپ اپنے دائیں بائیں موجود خوشحال لوگوں سے بھی پوچھئے، آپ کو ان میں بھی زیادہ تر لوگ چڑچڑے، زود رنج، دکھی، اداس اور اپنی ذات میں تنہا ملیں گے، کیوں؟ کیونکہ کسی نے آج تک انھیں خوشی کے بارے میں بتایا ہی نہیں، کسی نے انھیں خوشی کی ٹریننگ ہی نہیں دی، کسی نے انھیں یہ سمجھایا ہی نہیں کہ برداشت اور خوشی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، آپ اپنی برداشت جتنی بڑھاتے جاتے ہیں۔
آپ کی خوشی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور کسی نے انھیں یہ بھی نہیں بتایا، برداشت انسان کی ذاتی صفت کم اور معاشرے کی خوبی زیادہ ہوتی ہے، اگر آپ کی سڑک، آپ کی گلی، آپ کے اسکول، آپ کے دفتر اور آپ کی مارکیٹ میں برداشت نہیں ہوگی تو آپ کی ذاتی برداشت کا سوتا جلد خشک ہوجائے گا، آپ کتنے ہی پڑھے لکھے اور مہذب کیوں نہ ہوں، آپ کی برداشت جواب دے جائے گی، میں خود ذاتی سطح پر برداشت کے بحران کا شکار ہو رہا ہوں، مجھے غصہ نہیں آتا تھا، میں بڑی سے بڑی بات ہنس کر برداشت کر جاتا تھا، میں 90 فیصد ٹیلی فون کالز بھی سنتا تھا، ای میل کا جواب بھی دیتا تھا اور ایس ایم ایس بھی پڑھتا تھا لیکن مجھے چند ماہ سے محسوس ہو رہا ہے میں اب غصے میں آ جاتا ہوں۔
میں نے میڈیکل ٹیسٹ کرائے، میرا بلڈ پریشر بھی نارمل تھا، شوگر بھی عموماً ٹھیک ہوتی ہے، الحمد للہ کوئی معاشی، گھریلو اور سماجی پریشانی بھی نہیں لیکن میں اس کے باوجود غصے میں آ جاتا ہوں، میری برداشت کم ہو رہی ہے، کیوں؟ میں جب بھی اس نقطے پر سوچتا ہوں، مجھے صرف ایک جواب ملتا ہے "جب شہر میں برداشت نہیں ہوگی، جب لوگ گلیوں میں ایک دوسرے کو کاٹ کر کھا رہے ہوں گے تو پھر عام انسان کتنی دیر تک اپنی برداشت سنبھالے گا" مجھے اپنی مثال سے محسوس ہوتا ہے، برداشت افراد کا مسئلہ نہیں ہوتی، یہ ریاستوں کا پرابلم ہوتی ہے اور جب تک ریاستیں برداشت اور خوشی دونوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں جتنی یہ تعلیم، صحت، انصاف اور دفاع کو دیتی ہیں۔
اس وقت تک افراد میں خوشی اور برداشت پیدا نہیں ہوتی، آپ خود سوچئے، ملک میں جب کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو کافر، بے ایمان، جانبدار، بکاؤ اور منافق قرار دے دے گا تو لوگ کتنی دیر برداشت کریں گے، آپ خوشی کے لیے کسی پہاڑ، کسی جھیل، کسی ریستوران، کسی کافی شاپ، کسی سینما، کسی لائبریری اور کسی مسجد میں بیٹھے ہیں اور اچانک کوئی شخص آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کا احتساب شروع کر دیتا ہے تو آپ کتنی دیر خوش رہ لیں گے۔
میں پچھلے دنوں اپنی بیٹی کے ساتھ ایک آئس کریم پارلر پر گیا، ہم نے ابھی کپ اٹھائے ہی تھے کہ ایک صاحب پی آئی اے کی نجکاری پر فتویٰ لینے کے لیے پہنچ گئے، میں نے ان سے عاجزی کے ساتھ عرض کیا "سر میرے لیے آئس کریم کا یہ کپ دنیا کی تمام ائیر لائینز سے زیادہ قیمتی ہے، آپ مہربانی کر کے مجھے چار سال کی اس بچی کے ساتھ اسے انجوائے کرنے دیں" وہ صاحب تو برا سا منہ بنا کر چلے گئے لیکن میری خوشی کڑوی ہوگئی۔ خوشی اور برداشت کے ان چھوٹے چھوٹے لمحوں کی حفاظت بہرحال ریاستوں کی ذمے داری ہوتی ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں سماجی کلچر کی محتاج ہیں اور یہ کلچر ریاستیں پروان چڑھاتی ہیں، یہ افراد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
مجھے پچھلے دنوں خوشی کے چھ بنیادی عناصر پر ایک میڈیکل ریسرچ پڑھنے کا اتفاق ہوا، اس تحقیق نے انکشاف کیا، خوشی کے چھ عناصر میں نیند پہلے نمبر پر آتی ہے، آپ جب تک مکمل اور گہری نیند نہیں لیتے آپ کے جسم میں اس وقت تک خوشی کے انزائم پیدا نہیں ہوتے، دوسرا عنصر ایکسرسائز تھا، آپ جب تک روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ورزش نہیں کرتے، آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے، تیسرا عنصر خدا کی ذات پر بھروسہ اور ذکر الٰہی تھا، چوتھا عنصر مناسب اور صحت بخش خوراک تھی، پانچواں عنصر انسانی تعلقات تھا، آپ جب تک ان لوگوں سے رابطے میں نہیں رہتے جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔
آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے اور چھٹا عنصر خوشحالی تھا، آپ جب تک اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری نہیں کرتے، آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے، آپ اگر ان چھ عناصر کو میز پر رکھیں تو آپ کو تعلقات کے سوا باقی پانچ عناصر میں حکومت کا عمل دخل ملے گا، ملک میں جب بارہ بارہ بجے تک بازار کھلے رہیں گے، ملک میں شور کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، لاؤڈ اسپیکر، ہارن اور میوزک سسٹم کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوگا اور جب سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں پنکھے نہیں چلیں گے تو کون کافر نیند پوری کر سکے گا، ملک میں جب پارک، میدان اور جم نہیں ہوں گے، واک کے لیے فٹ پاتھ نہیں ہوں گے اور سائیکل ٹریک نہیں بنیں گے تو ورزش کیسے ممکن ہوگی۔
ملک میں جب فرقے خدا، رسولؐ اور صحابہؓ کو آپس میں بانٹ لیں گے، کفر کا فتویٰ موبائل فون کی سم سے ارزاں اور آسان ہوگا اور جب مسجدیں اللہ کے بجائے فرقوں سے منسوب ہو جائیں گی تو کون خوش نصیب اطمینان سے عبادت کر سکے گا، ملک میں جب گدھوں کا گوشت عام ملے گا، پکوڑے اور سموسے موبل آئل میں تلے جائیں گے، سبزیاں سیوریج کے پانی میں اگائی جائیں گی اور ریستوران اور مٹھائی کی دکانوں سے مرے ہوئے چوہے نکلیں گے تو کس بدنصیب کی خوراک پوری ہوگی اور جب ملک میں روزگار کے ذرایع محدود ہوتے جائیں گے، کارخانے بند اور شاپنگ سینٹر بڑھتے جائیں گے۔
جب کھیتوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنیں گی اور جب بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیں گے تو خوشحالی کیسے آئے گی؟ لوگ اپنی ضروریات کیسے پوری کریں گے چنانچہ برداشت ہو یا خوشی یہ دونوں حکومتوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور شیخ محمد بن راشد المختوم اس ذمے داری کو سمجھنے والے دنیا کے پہلے حکمران ہیں اور میں اس شخص کی وزڈم کو سلام پیش کرتا ہوں۔