لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے
سردار اسحاق خان کا اختتام ان کی زندگی کی طرح حیران کن تھا، یہ 15 جنوری کی رات ساڑھے نو بجے لفٹ سے گر گئے، انھیں لفٹ کا دروازہ توڑ کر نکالا گیا، سر پر چوٹ لگی تھی، اہل خانہ انھیں اٹھا کر اسپتال کی طرف دوڑے لیکن سردار صاحب راستے ہی میں دم توڑ گئے، وہ پوری زندگی عدالتوں میں مجرموں کے خلاف دلائل دیتے رہے، سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو رہا کرایا اور سیکڑوں ہزاروں مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا، وہ فوجداری مقدمات میں اتھارٹی تھے۔
سردار صاحب کو پورا قانون ازبر تھا، ارسلان افتخار کیس ہو، ایفی ڈرین کیس ہو، آپریشن مڈنائیٹ جیکال کیس ہو، شوکت عزیز پر خودکش حملہ ہو، بے نظیر بھٹو قتل کیس ہو یا پھر اوگرا کیس کا کیس ہو، سردار اسحاق خان ان مقدموں کا حصہ بھی رہے اور انھوں نے کمال بھی کر دیا لیکن یہ خود پچھلے ہفتے لفٹ کے ہاتھوں قتل ہو گئے، آج ان کو دنیا سے رخصت ہوئے آٹھ دن ہو چکے ہیں، ان آٹھ دنوں سے ان کے شاگرد، ان کے دوست اور ان کے فیملی ممبر پریشان ہیں کہ سردار صاحب کے قتل کی ایف آئی آر کس کے خلاف درج کرائی جائے۔
میں بھی آٹھ دن سے سوچ رہا ہوں، مجھے بھی کوئی جواب نہیں مل رہا، شاید آپ ہی کوئی حل بتا سکیں لیکن میں حل سے قبل اور لفٹ کے ہاتھوں قتل ہونے کی تفصیلات سے پہلے آپ کو سردار اسحاق خان کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں، یہ کون تھے، کیسے تھے اور یہ لفٹ کے ہاتھوں کیسے قتل ہوئے اور ہم ان کے انتقال سے کیا کیا سیکھ سکتے ہیں۔
سردار اسحاق خان سپریم کورٹ کے مشہور وکیل تھے، کلر سیداں کے چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، خاندان کے بڑے بیٹے تھے، والد اسکول ٹیچر تھے، سردار صاحب کو غربت ورثے میں ملی، جوانی میں پرائمری اسکول کے ٹیچر بھرتی ہو گئے، یہ نوکری سیکڑوں سال تک پھیلی غربت اور محرومی کے مقابلے کے لیے کافی نہیں تھی چنانچہ سردار صاحب کوئی بامراد، باعزت اور ترقی یافتہ پیشہ تلاش کرنے لگے، ان کے ایک چچا نے انھیں وکیل بننے کا مشورہ دیا، یہ مشورہ ان کے دل کو لگا اور یہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگے، حالات اور واقعات دونوں اچھے نہیں تھے لیکن یہ ان کا مقابلہ کرتے کرتے وکیل بن گئے۔
سردار صاحب کو وکالت کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑے لیکن یہ بہرحال کامیاب ہو گئے، وکلاء برادری اور جج صاحبان ان کا بے انتہا احترام کرتے تھے، یہ یار باش بھی تھے، دوستوں کے برے وقت میں ان کا ساتھ دیتے تھے، پورا خاندان پالا، بہن بھائیوں اور پھر ان کے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور سیٹل کرایا، یہ اپنے گاؤں سے بھی خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، ہر ہفتے گاؤں جاتے تھے، کھلی کچہری لگاتے تھے، گاؤں کے لوگوں کے مسائل سنتے تھے اور ان کا حل نکالتے تھے۔
یہ گاؤں کے تنازعے بھی نبٹاتے تھے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن پوری زندگی ان تعلقات کا کوئی جائز فائدہ تک نہیں اٹھایا، میری ان سے صرف ایک ملاقات تھی مگر فون پر اکثر رابطہ رہتا تھا، یہ میرے دوست ڈاکٹر اسلم کے قریبی دوست تھے، یہ مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو کھانا کھلانے کے لیے پشاور لے گئے، راستے میں ان سے طویل گپ شپ ہوئی، ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا، مشاہدہ بھی اور تجربہ بھی۔ ان کے جسم میں سیاح کی روح تھی، وہ آدھی دنیا گھوم چکے تھے، انھیں گفتگو کا فن بھی آتا تھا، وہ سننے والوں کی قوت سماعت کواپنے لفظوں سے باندھ لیتے تھے، میں اس سفر کے دوران سردار صاحب کا فین ہو گیا، وہ اکثر اوقات مجھے فون کرتے تھے اور طویل گپ شپ لگاتے تھے۔
ہم اب اس ٹریجڈی کی طرف آتے ہیں جو سردار اسحاق خان جیسے عظیم انسان کی موت کا سبب بنی، سردار صاحب نے شاندار نیا گھر بنایا، یہ صاحب فراش تھے، انھیں درجن بھر بیماریاں تھیں چنانچہ ان کے لیے سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا مشکل تھا، سردار صاحب نے اپنی سہولت کے لیے گھر میں لفٹ لگوا لی، یہ لفٹ کے ذریعے اپنے بیڈ روم میں جاتے اور آتے تھے، یہ 15 جنوری کی رات ساڑھے نو بجے پہلی منزل پر آنا چاہتے تھے، انھوں نے لفٹ کا بٹن دبایا، لفٹ چلی، بٹن کی لائیٹ آن ہوئی، بزر بجا اور لفٹ کا دروازہ کھل گیا، سردار صاحب لفٹ کے اندر گھس گئے۔
ایک سیکنڈ میں ٹھاہ کی آواز آئی اور سردار صاحب لفٹ کے اندھیرے غار میں گر گئے، ان کی چیخ سن کر ملازمین لفٹ کی طرف دوڑے، پتہ چلا لفٹ اوپر سے نیچے ہی نہیں آئی تھی، دروازہ کسی مکینیکل فالٹ کی وجہ سے کھل گیا، سردار صاحب نے اندر پاؤں رکھا اور وہ سیدھا نیچے چلے گئے، وہ اب لفٹ کی ٹنل میں گر پڑے تھے، ملازمین اور اہل خانہ دوڑ کر نیچے آئے اور لفٹ کا دروازہ توڑنا شروع کر دیا، دروازہ لوہے کا تھا، ٹوٹنے میں ٹائم لگ گیا، دروازہ ٹوٹا تو سردار صاحب کو نکالا گیا، وہ ابھی حیات تھے، اہل خانہ انھیں لے کر اسپتال کی طرف دوڑ پڑے لیکن سردار صاحب راستے ہی میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، مجھے جب اس ساری کہانی کا علم ہوا تو مجھے محسوس ہوا وہ لفٹ سردار اسحاق خان جیسے شاندار انسان کی قاتل تھی، وہ لفٹ ایک عظیم انسان، ایک عظیم قانون دان اور ایک شاندار دانشور کو نگل گئی، وہ لفٹ نہ ہوتی تو شاید سردار اسحاق خان جیسا انسان آج بھی ہمارے ساتھ ہوتا۔
ہم لوگ لفٹ میں سوار ہوتے یا باہر نکلتے وقت عموماً اس کے فرش، اس کی چھت اور اس کے دروازے پر توجہ نہیں دیتے، لفٹس مکینیکل چیزیں ہیں، ہم بھول جاتے ہیں، یہ خراب بھی ہو سکتی ہیں، ان کی آہنی رسی بھی ٹوٹ سکتی ہے، ان کی پھرکی بھی نکل سکتی ہے، ان کے دروازے بھی پھنس سکتے ہیں، یہ دروازے لفٹ کے بغیر بھی کھل سکتے ہیں اور لفٹ کا فرش بھی کسی وقت بیٹھ سکتا ہے، ہم اکثر یہ نکتے بھول جاتے ہیں، سردار صاحب دنیا سے رخصت ہوتے وقت لفٹ استعمال کرنے اور دفتروں اور گھروں میں لفٹس لگوانے والوں کے لیے چند پیغامات چھوڑ گئے ہیں، ان کا پیغام ہے۔
آپ کے سامنے جب بھی لفٹ کا دروازہ کھلے، آپ اس وقت تک اس میں پاؤں نہ رکھیں جب تک آپ اس کا فرش نہ دیکھ لیں، آپ بے خیالی کے عالم میں لفٹ میں سوار ہونے یا اترنے کا رسک نہ لیں، لفٹ میں چڑھنے کے بعد اس کی چھت اور دیواروں کو بھی غور سے دیکھیں، آپ کو اگر ان میں کوئی گڑبڑ نظر آئے تو آپ فوری طور پر اگلے فلور پر اتر جائیں، آپ اگر صحت مند ہیں تو کوشش کریں آپ دس منزل سے کم اونچائی یا گہرائی کے لیے لفٹ استعمال نہ کریں، سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا شاندار ایکسرسائز ہے، یہ خون کی گردش پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے چنانچہ آپ سیڑھیاں استعمال کریں۔
یہ صحت کے لیے بھی اچھا رہے گا، اگر لفٹ ناگزیر ہو تو آپ "لفٹ بوائے" سے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ضرور پوچھ لیں کیونکہ بجلی بند ہونے کی وجہ سے لفٹیں رک جاتی ہیں، جنریٹر آن ہونے میں وقت لیتا ہے اور اس دوران اکثر اوقات حادثے ہو جاتے ہیں، ہمیں گھروں میں لفٹیں نہیں لگوانی چاہئیں اور اگر یہ ضروری ہوں تو پھر بین الاقوامی کمپنیوں کی لفٹ خریدیں، بچت کے چکر میں مقامی مستریوں کے قابو نہ آئیں، پرانی لفٹیں بھی نہ خریدیں، یہ سیدھی سادی موت ہوتی ہیں، یہ اگر کارآمد ہوتیں تو پرانی کمپنی یا مالک انھیں کبھی فروخت نہ کرتا، یہ اگر مارکیٹ میں دستیاب ہیں تو اس کا مطلب ہے۔
یہ رسکی ہو چکی ہیں اور یہ آپ کی جان بھی لے سکتی ہیں، یورپ میں ہر لفٹ کی ٹنل کے آخر میں فوم کی چار پانچ فٹ موٹی تہہ بچھائی جاتی ہے، اس کا مقصد حادثوں کی صورت میں جان بچانا ہوتا ہے، لوگ اگر خدانخواستہ لفٹ سے گر بھی جائیں تو یہ فوم انھیں محفوظ رکھتا ہے، آپ لفٹ لگواتے وقت ٹنل میں فوم کی یہ تہہ ضرور لگوائیں، یہ دس بیس ہزار روپے کا اضافی خرچ آپ اور آپ کے خاندان کی جان کی حفاظت کرے گا۔
میرے والد آج کل سخت علیل ہیں، میں نے ان کی علالت سے چند چیزیں سیکھیں مثلاً ہم جب بھی گھر بنائیں، اس گھر میں ایک میڈیکل روم ضرور ہونا چاہیے، یہ کمرہ مریضوں، بزرگوں اور زخمیوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا جائے، کمرے میں ایک میڈیکل بیڈ بھی ہونا چاہیے، ایک اسٹریچر بھی، ضروری اور ایمرجنسی ادویات بھی اور دیوار پر میڈیکل مانیٹر لگانے کی گنجائش اور ساکٹ بھی ہونی چاہیے، واش روم بھی مریض کو سامنے رکھ کر بنایا جائے اور کمرے میں ہیٹنگ اور کولنگ کا مناسب بندوبست بھی رکھا جائے، یہ کمرہ گراؤنڈ فلور پر ہونا چاہیے اور اسے اس طرح بنایا جائے کہ ایمبولینس آسانی سے اس کے دروازے تک پہنچ سکے، گھر کے ایک یا دو افراد کو ابتدائی طبی امداد، انجیکشن اور ڈرپ لگانے اور مرہم پٹی کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے۔
یہ تربیت خاندان کو بڑے جانی نقصان سے بچائے گی، ہم جہاں رہتے ہیں، ہم وہاں کی میڈیکل سہولتوں کا اندازہ ضرور رکھیں، ہم سے اسپتال کتنا دور ہے، کیا اسپتال میں ایمرجنسی کی تمام سہولتیں موجود ہیں، ڈاکٹروں کے کلینکس کہاں کہاں ہیں اور کیا محلے میں کوئی نرس یا کمپاؤنڈر موجود ہے، اگر ہاں تو وہ کہاں رہتا ہے اور اس کی ڈیوٹی کے اوقات کیا ہیں، آپ یہ معلومات جمع کر کے اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو رٹا دیں، ہم لوگ عموماً اسکول، اسپتال، مسجد اور قبرستان کے قریب گھر نہیں بناتے، یہ تصور غلط ہے کیونکہ آپ جتنے فوائد ان جگہوں کی قربت سے حاصل کر سکتے ہیں۔
آپ کو اتنے فوائد ان کی دوری سے حاصل نہیں ہوتے، آپ کو بچوں کو اسکول چھوڑنے، نماز پڑھنے، ایمرجنسی میں اسپتال پہنچنے، سودا سلف خریدنے اور عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے لیے دور نہیں جانا پڑتا اور یہ آج کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں، آپ عمر کے ساتھ ساتھ اپنا بیڈ روم بھی تبدیل کرتے رہا کریں، آپ کی عمر جوں ہی پچاس سال ہو جائے، آپ دوسری یا تیسری سے پہلی منزل پر شفٹ ہو جائیں اور آپ جب ساٹھ اور ستر کے درمیان پہنچ جائیں تو آپ گھر کے بیرونی گیٹ کے قریب شفٹ ہو جائیں، آپ گھر بناتے وقت یہ کمرہ بھی ضرور بنائیں، یہ آپ کو آخری عمر میں بہت فائدہ پہنچائے گا۔
میں سپریم کورٹ اور حکومت سے بھی ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ حکم جاری کر دے، ملک میں کسی جگہ کوئی سیکنڈ ہینڈ لفٹ نہیں لگے گی، ملک میں سیکنڈ ہینڈ لفٹوں کی درآمد پر پابندی بھی لگا دی جائے، لفٹ بنانے والی ملکی کمپنیوں کے لیے بھی بین الاقوامی معیار طے کر دیے جائیں، یہ کمپنیاں جب تک ان معیاروں تک نہ پہنچیں انھیں اس وقت تک بزنس نہ کرنے دیا جائے، ملک بھر کی تمام لفٹوں کے دروازوں پر لفٹ استعمال کرنے اور لفٹ ایمرجنسی کی تمام معلومات بھی الفاظ اور تصاویر کی شکل میں چسپاں کر دی جائیں، ان معلومات کا سائز کم از کم نصف دروازے کے برابر ہونا چاہیے تا کہ لوگ یہ معلومات آسانی سے دیکھ بھی سکیں اور پڑھ بھی سکیں، سپریم کورٹ ایک چھوٹا سا سیل بھی بنائے۔
یہ سیل مختلف نوعیت کے حادثوں کی خبریں اکٹھی کرے، ان کے حل تلاش کرے، یہ حل حکومت کو بھجوائے اور حکومت کو پالیسی بنانے کا حکم جاری کرے، یہ سیل اور یہ احکامات معاشرے پر احسان ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں سردار اسحاق خان جیسے قیمتی لوگ اسی طرح ضایع ہوتے رہیں گے اور ہم ماتم کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں، آپ سپریم کورٹ کے جج ہیں یا ملک کے وزیر اعظم ہیں، آپ بھی روزانہ لفٹ استعمال کرتے ہیں اور آپ نے اگر آج لفٹ سازی کے لیے کوئی قانون، کوئی ضابطہ نہ بنایا تو آپ بھی سردار اسحاق خان جیسے حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ قدرت اگر سردار صاحب کی رشتہ دار نہیں تھی تو یہ آپ کے ساتھ بھی رعایت نہیں کرے گی۔