جو قوم وزیراعظم صاحب
ہماری تاریخ میں بہت کم ایسے دن گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کو اس دن سے پہلے کی دنیا اور اس دن سے بعد کی دنیا، دو حصوں میں تقسیم کیا ہو، نائین الیون ایک ایسا ہی دن تھا، القاعدہ نے گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا کی تین عمارتوں کو نشانہ بنایا، 2ہزار9سو96 لوگ مارے گئے، 6ہزار زخمی ہوئے اور دنیا تبدیل ہو گئی، مورخ دنیا کو اب نائین الیون سے پہلے کی دنیا اور نائین الیون سے بعد کی دنیا میں تقسیم کرتے ہیں، دنیا کا ان حملوں کے بعد پہلا سبق سیکیورٹی تھا۔
دنیا نے محسوس کیا، ہمیں اب ایک ان دیکھے دشمن سے لڑنا ہو گا اور ہم اگر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ملک کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دینی ہو گی، امریکا نے پہلا قدم اٹھایا، امریکا میں ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر بنا اور پورے امریکا کی سیکیورٹی ان کے حوالے کر دی گئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کو وسیع اختیارات دیے گئے، پورے امریکا کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوا، اطلاعات اورخفیہ اطلاعات کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، ویزوں کے لیے کرائی ٹیریا بنایا گیا، ملک کے اندر اور بیرون ملک فلائیٹس کے ڈیٹا سینٹر بنے، کوئک ریسپانس فورس بنائی گئی، پولیس، فوج اور عدلیہ تینوں کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کاحصہ بنایا گیا اور عوام کو یہ یقین دلایا گیا یہ ادارہ آپ کی حفاظت کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔
آج اس ادارے کو 12 سال ہو چکے ہیں، القاعدہ نے 12 برسوں میں امریکا پر حملے کی درجنوں کوششیں کیں لیکن امریکا میں نائین الیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، یہ ان دو اداروں کی بڑی کامیابی تھی، برطانیہ دوسرا ملک تھا جس نے جون 2003ء میں جوائنٹ ٹیرر ازم انیلسیز سینٹر اور آفس فار سیکیورٹی اینڈ کاؤنٹر ٹیررازم بنایا، برطانیہ میں نائین الیون کے بعد دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ ہوا، یہ واقعہ 7جولائی 2005ء کولندن میں پیش آیا اور یہ سیون سیون کہلاتا ہے۔
برطانیہ میں بھی دہشت گردوں نے دہشت گردی کی درجنوں کوششیں کیں لیکن ان دونوں اداروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں، آسٹریلیا تیسرا ملک تھا جس نے اکتوبر 2002ء میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم کمیٹی بنائی، اس کمیٹی نے بھی آسٹریلیا کو آج تک محفوظ رکھا، یہ ادارے صرف آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا تک محدود نہیں ہیں بلکہ فرانس، جرمنی، اسپین، جاپان، چین اور کینیڈا میں بھی ایسے ادارے بنائے گئے اوریہ ادارے آج تک اپنے اپنے شہریوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
پاکستان امریکا اور برطانیہ کے بعد دنیا میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ تھا، امریکا اور برطانیہ کے دشمن القاعدہ اور طالبان پاکستان کی سرحد پرتھے (آج بھی ہیں)، ہم ان کی اولین گزر گاہ بن گئے، جنرل پرویز مشرف پاکستان میں حکمران تھے، جنرل اور ان کے ساتھیوں نے اس گزر گاہ کو اپنے اقتدار کے لیے سنہری موقع بنا لیا، یہ لوگ سجدہ شکر میں گر گئے اور خطرے کو فیکٹری بنا لیا، امریکا کو صرف القاعدہ سے خطرہ تھا جب کہ پاکستان ہماری پالیسیوں کی وجہ سے القاعدہ، تحریک طالبان افغانستان، تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان اور شیعہ اور سنی مسالک کے مسلح لشکروں کا میدان جنگ بن گیا، ڈرون حملوں نے اس جنگ کی شدت میں اضافہ کر دیا اور یوں پندرہ برسوں میں 55 ہزار پاکستانی شہید ہو گئے۔
ہماری فوج، پولیس اور خفیہ ادارے ان حملوں کا سب سے بڑا ہدف تھے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ ائیر بیس، پریڈ لین مسجد، ایف آئی اے کے پانچ بڑے سینٹروں، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر، آرڈی ننس فیکٹری اور پولیس اور ایف سی کے ٹریننگ سینٹر پر حملے ہوئے اور ان حملوں میں سیکڑوں جوان شہید ہو گئے، ہماری معیشت تباہ ہو گئی، عوام بے چینی اور ڈپریشن کے مریض بن گئے اور ملک دنیا بھر کے لیے خطرناک ہو گیا، ہماری ریاست کو ان حقائق کو سمجھنا چاہیے تھا، ہمیں ملک اور عوام کو بچانے کے لیے ہوم لینڈ سیکیورٹی جیسا بڑا ادارہ بنانا چاہیے تھا لیکن ہم سوئے رہے، ہم نے سیکیورٹی کے لیے ادارہ تو دور کوئی پالیسی تک نہ بنائی۔
اس کی وجہ سے لوگ مرتے رہے اور مارنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ان کو روکنے اور سزا دینے والوں کی طاقت بھی دم توڑتی رہی، یہاں تک کہ پولیس دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور جج دہشت گردوں کا مقدمہ سننے سے انکار کرنے لگے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے نو سال بعد خطرے کو محسوس کیا، حکومت نے جنوری 2009ء میں نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی) کے نام سے قومی سلامتی کا پہلا ادارہ بنایا، اس ادارے نے پورے ملک کی حفاظت کرنی تھی لیکن اس حفاظت سے قبل سیکیورٹی پلان اور اس پلان کی منظوری ضروری تھی مگر ہماری پوری پارلیمنٹ، پوری حکومت میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو سیکیورٹی پلان بنا سکتا چنانچہ معاملہ پلاننگ پر آ کر رک گیا، یہ کام بھی فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، جنرل کیانی نے سیکیورٹی پلان تیار کرایا اور حکومت کے حوالے کر دیا مگر حکومت چار سال تک پارلیمنٹ سے یہ پلان منظورنہ کرا سکی اور یوں فائل اگلی حکومت کو ورثے میں مل گئی۔
آپ کے لیے شاید یہ بات بھی حیران کن ہو گی، پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا مگر بیس کروڑ لوگوں کی اس آبادی میں نیشنل سیکیورٹی کاایک بھی ماہر موجود نہیں، حکومت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنا رکھی ہے، سرتاج عزیز سیکیورٹی ایڈوائزر ہیں اور ان کا سیکیورٹی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے آپ فوری طورپر ملک سے دو سو ذہین طالب علم چنیں اور انھیں نیشنل سیکیورٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک بھجوا دیں، یہ لوگ جب واپس آئیں تو آپ انھیں نیشنل سیکیورٹی کا ٹاسک دیں، یہ لوگ شاید ملک کا یہ مسئلہ حل کر دیں، میں سیکیورٹی پلان کی طرف واپس آتا ہوں، میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو اس نے پارلیمنٹ سے تحفظ پاکستان بل منظور کرانا شروع کیا، یہ بل متنازع ہو گیا، پارٹیوں نے اسے سیاسی میدان جنگ بنالیا، یوں معاملہ تاخیر کا شکار ہوتارہا، 8 جون 2014ء کوکراچی ائیر پورٹ پر حملہ ہوا۔
پوری قوم غم میں چلی گئی، حکومت نے اس سانحے کا فائدہ اٹھایا اور 2 جولائی کو پروٹیکشن آف پاکستان بل منظور کرا لیا، تحفظ پاکستان بل کی منظوری کے بعد پورے ملک کی سیکیورٹی کی ذمے داری نیکٹا کے پاس چلی گئی، میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں حکومت نے نیکٹا کا بورڈ آف گورنر بنایا تھا، یہ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اور مضبوط بورڈ آف گورنر تھا، وزیراعظم اس بورڈ کے چیئرمین ہیں جب کہ وزیر داخلہ، چاروں وزراء اعلیٰ، گلگت، بلتستان کے وزیراعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، وفاقی وزیر قانون، وزیر خزانہ، وزیر دفاع، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے نمایندے، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی، چاروں چیف سیکریٹریز، ڈی جی ایف آئی اے، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئی جی اور نیشنل کوآرڈی نیٹر یہ تمام لوگ بورڈ کے ممبر تھے، نیکٹا میں ملک کے تیس خفیہ اداروں کا جوائنٹ انفارمیشن ڈیسک بننا تھا، ملازمین کے لیے خصوصی پے اسکیل طے ہوا لیکن یہ بورڈ آف گورنرز، یہ سارے منصوبے اور یہ سارے دعوے صرف کاغذوں تک محدود رہے۔
نیکٹا کو بنے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں، تحفظ پاکستان بل کی منظوری کو 6 ماہ ہو چکے ہیں لیکن آج تک بورڈ آف گورنر کا کوئی اجلاس نہیں ہوا، ادارے کے لیے خصوصی پیکیج کی فائل وزیر خزانہ کو بھجوائی گئی لیکن پانچ ماہ گزرنے کے باوجود یہ فائل واپس نہیں آئی، پاکستان کے بااختیار ترین ادارے کی حالت یہ ہے یہ اس وقت سیکریٹری داخلہ کے ماتحت ہے، ادارے میں صرف چار افسر موجود ہیں اور یہ چار بھی وہ ہیں جن کی کوئی سفارش نہیں چنانچہ یہ بے چارے ملک کے سب سے خوفناک کھڈے میں لین حاضر ہیں، گاڑیاں موجود نہیں، ہیں تو پٹرول نہیں، دفتری استعمال کے لیے کاغذ نہیں، کمپیوٹر اور پرنٹرز نہیں، گرمیوں میں پنکھے نہیں تھے اور آج سردیوں میں ہیٹر نہیں ہیں، بجلی چلی جائے تو جنریٹر اور یو پی ایس نہیں۔
اسی فیصد آسامیاں خالی پڑی ہیں اور جو لوگ موجود ہیں ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، ادارے کے ماہرین موبائل فون پر ایس ایم ایس نہیں کر سکتے، ادارے کی ویب سائیٹ پرانی اور ناقابل استعمال ہے، فون ہیں تو کام نہیں کرتے، کرتے ہیں تو فون سننے والا کوئی نہیں اور ادارے کا پرانا فرنیچر نادرا کے گوداموں میں پڑا ہے اور یہ وہ ادارہ ہے جس نے آرمی پبلک اسکول سے لے کر وزیراعظم تک ملک کے 20 کروڑ لوگوں کی حفاظت کرنی ہے، جس نے ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنا ہے۔
ہمارے ملک میں ادارے، قوانین اور فیصلوں کی کمی نہیں، ہم کمشنوں، کمیٹیوں، ترامیم اور فیصلوں کی قوم ہیں، ہمارا المیہ عمل ہے، ہم بے عمل کوتاہ فہم قوم ہیں، ہم کمیٹیاں اور کمیشن بنا دیتے ہیں لیکن ہم ان کمیٹیوں اور کمیشنوں کی سفارشات پر عمل نہیں کرتے، ہم نظام نہیں بناتے اور اگر بنا لیتے ہیں تو وہ نظام کام نہیں کرتا چنانچہ ہم جہاں سے چلتے ہیں، ہم گھوم پھر کر دوبارہ وہاں آ جاتے ہیں، حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کل ایک اور کمیٹی بنا دی۔
یہ کمیٹی سات دن میں سفارشات مرتب کرے گی لیکن سوال یہ ہے جو کام نیکٹا نہیں کر سکا، جو کام تحفظ پاکستان بل سے نہیں ہو سکا، کیا وہ کام، یہ کمیٹی کر سکے گی؟ وزیراعظم صاحب جو قوم اللہ کے احکامات اور قرآن مجید کی آیات کو نہ مانتی ہو وہ ان کمیٹیوں اور ان سفارشات پر خاک عمل کرے گی، جس قوم نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدہ نہ لیا ہو وہ قوم چوہدری نثار کمیٹی کو کیا اہمیت دے گی؟ وزیراعظم صاحب اس قوم کو منصوبہ بندی کی سو سیڑھیاں نہیں، عمل کا ایک قدم چاہیے اور جس دن یہ قدم اٹھ گیا قوم اس دن کمیٹیوں اور کمیشنوں کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گی۔