اتنی دیر میں تو
شہزادہ ارطغرل عثمان خلافت عثمانیہ کا آخری شہزادہ اور ولی عہد تھا، یہ 1912ءمیں استنبول میں پیدا ہوا، والد شہزادہ برہان الدین ترک فوج میں کمانڈر بھی تھا اور ولی عہد بھی، ترکی میں اتاترک کے انقلاب کے وقت ارطغرل عثمان ویانا میں پڑھ رہا تھا، خلافت کے خاتمے کا اعلان ہوا اور شاہی خاندان کو 1922ءمیں بچوں سمیت جلاوطن کر دیا گیا، شہزادہ ارطغرل عثمان آسٹریا میں پھنس گیا۔ یہ 1933ءمیں ویانا سے امریکا آ گیااور اپنے دادا سلطان عبدالحمید دوم کے انتقال کے بعد عثمانی خاندان کا 43 واں سربراہ بنا دیا گیا۔
عثمانی خاندان دربدر بھی ہو چکا تھا اور غریب بھی، ارطغرل عثمان بھی ان حالات کا شکار تھا، یہ مائین انجینئر تھا، کینیڈین کمپنی میں کام کرتا تھا اور نیویارک میں درمیانے درجے کے ریستوران کے اوپر دو کمروں کے فلیٹ میں رہتا تھا، زندگی عسرت کا شکار تھی لیکن یہ اس کے باوجود خود کو عثمانی خلافت کا آخری چشم وچراغ سمجھتا تھا، اس نے اپنے فلیٹ کی دیوار پر خلافت عثمانیہ کا نقشہ لگا رکھا تھا، ترک سلطان سلیمان کی ریاست چھ کروڑ کلو میٹر تک وسیع تھی، عثمانی خلیفہ 1919ءتک تین براعظموں کے مالک تھے اور یہ بادشاہوں کو حکومتوں کے پروانے جاری کیا کرتے تھے، ارطغرل عثمان نے اپنی دیوار پر اس وسیع وعریض سلطنت کا نقشہ لگا رکھا تھا، یہ نقلی تاج پہن کر اپنے ہاتھ میں اپنے دادا کی تلوار پکڑتا تھا اور نقشے کے نیچے کھڑا ہو کر دیواروں کو احکامات جاری کرتا رہتا تھا، 1980ءکی دہائی میں اس نے دس دس ڈالر لے کر لوگوں کے ساتھ تصویریں بھی بنانا شروع کر دی تھیں، لوگ عثمانی خلافت کے آخری چشم وچراغ کو دس ڈالر دیتے تھے اور عثمانی خلافت کے نقشے کے نیچے کھڑے ہو کر تصویر بنواتے تھے، 1991ءمیں ترکی میں سلیمان ڈیمرل کی حکومت آئی، یہ نیویارک کے دورے پر گئے، ارطغرل عثمان کے فلیٹ کا وزٹ کیا اور انہیں اس پر ترس آ گیا، یہ اسے استنبول لے آئے اور اس کا سرکاری وظیفہ جاری کر دیا، شہزادہ ارطغرل عثمان 2009ءمیں 97 سال کی عمر میں استنبول میں انتقال کر گیا، اسے شاہی اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا گیا تاہم یہ آخری دن تک خلافت عثمانیہ کے نقشے کے نیچے کھڑے ہو کر خود کو دنیا کی سب سے پرانی اور وسیع خلافت کا سلطان کہتا تھا، لوگ اسے دیکھتے تھے اور مسکرا کر کہتے تھے افسوس حقیقتوں اور نقشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
فرق صرف حقیقتوں اور نقشوں میں نہیں ہوتا، جذبات اور حقیقتوں میں بھی ہوتا ہے، یہ دنیا ہیر رانجھا یا لیلیٰ مجنوں کی داستان نہیں ہے کہ اس میں لوگ رو دھو کر اپنا جی ہلکا کر لیں، دنیا دو جمع دو کی میتھا میٹکس ہے، اس کے پلڑوں میں دونوں طرف حقیقتیں تولی جاتی ہیں، دنیا اگر خطابوں، جھنڈوں یا نقشوں پر چلتی تو آج امیر تیمور کا ازبکستان بھی زندہ ہوتا، چنگیز خان کا منگولیا بھی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی مشرق وسطیٰ سے افریقہ تک پھیلی ایوبی سلطنت بھی۔
یہ ساری ریاستیں اپنے نقشوں سمیت تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکی ہیں، یہ دنیا حقیقتوں کی دنیا ہے اور اس دنیا میں سب کچھ آج ہوتا ہے اور آج طاقت کا نام ہے اور طاقت کو کسی نقشے، کسی جھنڈے اور کسی ترانے کی ضرورت نہیں ہوتی، کم زور صرف نقشے بدلتے رہ جاتے ہیں جب کہ طاقت ور انہیں روند کر آگے نکلتے چلے جاتے ہیں اور ہم حقیقتوں کی اس دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کل مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کر کے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیے۔
ہم اسے اپنی عظیم کام یابی اور غزوہ ہند قرار دے رہے ہیں، کاش فارن افیئرز ہیر رانجھا کا قصہ ہوتے تو ہم آج پوری دنیا میں جھنڈے گاڑھ چکے ہوتے لیکن یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے، اس میں سلطان ایوبی کے بعد ایوبی سلطنت بھی ایوبی نہیں رہتی، وہ بھی اپنے نقشوں کے ساتھ زمین کا پیوند بن جاتی ہے، ہم نہ جانے کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں، ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں، کشمیر کل بھی مقبوضہ تھا اور یہ آج چھ اگست کو بھی مقبوضہ ہے اور یہ اس وقت تک مقبوضہ رہے گا جب تک ہم طاقت ور نہیں ہوتے۔
جب تک ہم خوابوں کی جذباتی دنیا سے نکل کر حقیقتوں کی تلخ زمین کا ذائقہ نہیں چکھتے اور حقیقت یہ ہے ہم اس قدر کوتاہ فہم اور نالائق ہیں کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن قومی ایشوز پر بھی اکٹھا نہیں بیٹھتی، ہم اپنی ضرورت کے مطابق گندم بھی نہیں اگا سکتے، ہم ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہم چینی، آٹا اور پٹرول مافیا کو کنٹرول نہیں کر پاتے اور ہم کراچی کے نالے بھی صاف نہیں کر سکتے، پتا نہیں ہم کب حقیقتوں کا سامنا کریں گے؟ پاکستان پوری دنیا میں واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر لکھا ہے "یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے" ہم پاسپورٹ پر یہ کیوں لکھتے ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا!
صرف اور صرف برادر عرب ملکوں کی محبت میں! ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت کو 1947ءمیں ہی تسلیم کر لیا تھا، ہم نے مشرقی پاکستان کو صرف ایک سال بعد بنگلہ دیش مان لیا تھا لیکن ہم 72 سال سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے، کیوں؟ برادر عرب ملکوں کی محبت میں، ہم نے یہ فیصلہ برادر اسلامی ملکوں کے لیے کیا تھا، ہم نے اچھا فیصلہ کیا ہو گا لیکن ہمیں اس محبت، اس قربانی کا کیا صلہ ملا؟ برادر عرب ملک تو دور فلسطینیوں نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرتے وقت ہم سے نہیں پوچھا تھا۔
ہم آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جب کہ برادر اسلامی ملکوں میں اسرائیل کے سفارت خانے کھل چکے ہیں لیکن چلیے ہم اس کے باوجود پاکستانی موقف کو کریکٹر کا نام دے دیتے ہیں، مسلمان مسلمان کے لیے کھڑا نہیں ہو گا تو کون ہو گا لیکن سوال یہ ہے کیا آج تک کسی برادر اسلامی ملک کے منہ سے کشمیر کا نعرہ نکلا، کسی نے آگے بڑھ کر کشمیریوں کو گلے لگایا؟ آپ پرانی بات چھوڑ دیجیے، بھارت نے پانچ اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس ہی تبدیل کر دیا۔
نریندر مودی نے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا لیکن ان برادر اسلامی ملکوں نے پاکستان اور کشمیریوں کے لیے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا جن کے لیے ہم72 سال سے اسرائیل سے متھا لگا کر کھڑے ہیں، آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے، سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی سپورٹ دینے کے لیے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر رکھوائے تھے، ہم جس وقت مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے نقشے کا حصہ بنا رہے تھے سعودی عرب نے اپنی یہ رقم واپس لے لی اور ہم نے بے عزتی کے ڈر سے یہ خبر تک چھپا لی۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ جواب دیجیے اگر ہمارے برادر اسلامی ملک پانچ اگست 2019ءکو صرف ایک سال کے لیے اپنے پاسپورٹس پر ناٹ فار انڈیا لکھ دیتے یا یہ بھارتی ملازمین کو اپنے ملکوں سے نکل جانے کا حکم دے دیتے تو کیا آج ایک سال بعد مقبوضہ کشمیر میں فوج یا کرفیو ہوتا؟ ہرگز نہ ہوتا مگر ہمارا ساتھ دینا تو دور ہمارے برادر اسلامی ملکوں نے 18 جون 2020ءکو بھارت کو سلامتی کونسل کاغیرمستقل ممبر بنوانے کے لیے تاریخی ووٹ دیے۔
ہم اکیلے کھڑے رہ گئے اور کسی برادر اسلامی ملک نے ہمارے کندھے پر ہاتھ نہ رکھا، ہمارے برادر اسلامی ملکوں نے نریندر مودی کو کشمیر پر قبضے کے بعد اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا تھا اور پاکستان کو کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بھی نہیں بلانے دیا اور ہیومن رائیٹس کمیشن کی قرارداد پر ووٹ بھی نہیں دیے تھے، یہ ظلم اگر یہاں تک محدود رہ جاتا تو بھی شاید ہمارا بھرم رہ جاتا لیکن ہمارے برادر اسلامی ملک اب کلبھوشن یادیو کی رہائی کے لیے بھی ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ہم ان کی ناراضی سے بچنے کے لیے آئین میں ترامیم کر رہے ہیں اور یہ ہیں وہ حقائق جن کا سامنا کرنے کی بجائے ہم نقشے بدل رہے ہیں اور اس پر ڈھول بھی بجا رہے ہیں۔
خدا کے لیے اب تو جاگ جائیں، اب تو حقیقتوں کا سامنا کرنا شروع کر دیں، اب تو بے وقوف نہ بنیں، خدا کے لیے جان لیں دنیا میں اگر نقشوں سے قوموں کے مقدر بدلے جا سکتے تو ہم فوراً سڑکوں کے نام تبدیل کر دیتے، ہم فوراً عمران خان کے ساتھ امیرالمومنین لکھ دیتے، ہم فوراً پاکستان کا نام ریاست مدینہ رکھ دیتے، روپے کو اشرفیاں کہنا شروع کر دیتے اور ہم فوراً پاکستان کے سلیبس میں خلافت عثمانیہ کا نقشہ شامل کر دیتے لیکن افسوس قوموں کے مقدر لفظوں اور نقشوں سے نہیں بنتے یہ عمل، عقل اور ہمت سے بنتے ہیں اور ہماری ریاست کی ہمت کی حالت یہ ہے پشاور کی ایک عدالت میں ایک ملزم کو جج کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا مگر پوری ریاست میں اس واقعے کی مذمت کی ہمت نہیں۔
عقل کا عالم یہ ہے ہم کراچی کے نالے صاف نہیں کر سکتے، قوم پچھلے پانچ ماہ سے ارطغرل کو حقیقت اور کرونا کو ڈرامہ سمجھ رہی ہے اور یہ آج بھی سمجھتی ہے اگر مراد سعید کووزیر خزانہ بنا دیا جائے تو یہ ملک کے سارے قرضے اتار دیں گے جب کہ پیچھے رہ گیا عمل تو ہم پورے کشمیر سے منسوب ہائی وے کو چھوٹے سے سری نگر کا نام دے کر تالیاں بجا رہے ہیں اور ہم نقشے میں موجود مقبوضہ کشمیر کو دوبارہ نقشے میں ڈال کر مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی سمجھانے والا نہیں۔
بے وقوفو! اگر دنیا میں نقشوں سے قومیں بننی ہوتیں تو ارطغرل عثمان تین براعظموں کا مالک ہوتا لیکن وہ کیا تھا؟ وہ سلطان معظم کہلانے کے باوجود 80 سال کینیڈین کمپنی کی تنخواہ پر پلتا رہا اور باقی 17 سال ترک حکومت سے وظیفہ لیتا رہا، اگر نقشے سب کچھ ہوتے تو آج وزیراعظم عمران خان سری نگر کی ڈل لیک میں شنکارے سے قوم سے خطاب کر رہے ہوتے، یہ کشمیر ہائی وے کی تختی اتار کر اس کی جگہ شاہراہ سری نگر کی تختی نہ لگا رہے ہوتے چناں چہ خدا کے لیے آنکھیں کھولیں، اتنی دیر میں تو کبوتر بھی سمجھ دار ہو جاتے ہیں، یہ بھی بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند نہیں کرتے اور ہم تو پھر بھی انسان ہیں۔