عمران خان کے لیے
خان صاحب آپ نے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، میں اس دن آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا اور میری اگست 2014ء تک آپ سے دوستی رہی، میں نے آخری بار 28 جولائی 2014ء کو آپ کے ساتھ اسلام آباد سے بنوں تک سفر کیا، ہم آئی ڈی پیز کے ساتھ عید منانے بنوں گئے تھے، میں نے اس دن آپ کا آخری انٹرویو بھی کیا تھا، میری آپ سے اٹھارہ سال رفاقت رہی، میں نے ان اٹھارہ برسوں میں آپ پر درجنوں کالم لکھے اور بیسیوں انٹرویوز کیے، ان انٹرویوز میں وہ انٹرویوز بھی شامل ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے اس دور میں نشر کیے گئے جب ٹیلی ویژن چینلز آپ کے انٹرویوز چلانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
میری اس طویل ارادت مندی کی تین وجوہات تھیں، میرا خیال تھا محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں، یہ اسٹیٹس کو اور سیاسی مفادات کے اسیر ہیں، یہ نیک تمناؤں کے ساتھ ایوان اقتدار میں آتے ہیں لیکن اس کو، حلقوں کی سیاست، پارٹی کے مفاد پرست دھڑے اور ماضی کی غلطیاں انھیں جلد ہی راہ راست سے بھٹکا دیتی ہیں اور یہ چند ماہ میں پرانی روش پر آ جاتے ہیں، میرا خیال تھا آپ میں اسٹیٹس کو توڑنے کی ہمت ہے، دو، لوگ پرانے چہرے دیکھ دیکھ کر تھک گئے تھے، ملکی سیاست دہائیوں سے چند خاندان اورچند لوگوں کے قبضے میں تھی، یہ لوگ سورج مکھی ہیں، یہ اقتدار سے فارغ ہونے والی پارٹی کا فوراً اندازہ لگا لیتے ہیں اور چلتی گاڑی سے اقتدار کے اگلے ٹرک میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
میرا خیال تھا آپ نئی ٹیم کے ساتھ سیاست میں آرہے ہیں اور آپ کا یہ قدم سیاست میں نیا جھونکا ثابت ہو گا اور تیسری اور آخری وجہ، پاکستان کا نوجوان طبقہ سیاست سے بے زار ہو چکا تھا، یہ لوگ جلسوں میں آتے تھے اور نہ ہی ووٹ دیتے تھے، آپ نوجوانوں کے ہیرو تھے چنانچہ میرا خیال تھا آپ نوجوانوں کو باہر نکالیں گے اور یہ سیاست کی بہت بڑی خدمت ہو گی، آپ پڑھے لکھے بھی ہیں، فارن کوالی فائیڈ بھی ہیں، آپ نے تین چوتھائی زندگی ہیرو کی طرح بھی گزاری اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے نوجوانی میں وہ ساری سہولتیں بھی دیں جو لوگوں کو عمر بھر کی ریاضت کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتیں چنانچہ میں نے بھی ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح آپ سے سیکڑوں امیدیں وابستہ کر لیں لیکن میں آج تسلیم کرتا ہوں میرے سارے اندازے غلط تھے، میں غلطی پر تھا اور مجھے آج پاکستان کا مستقبل پہلے سے زیادہ خوفناک دکھائی دے رہا ہے، آپ نے ملک کے ساتھ زیادتی کی، کیا زیادتی کی؟ میں اب وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے جواب چاہتا ہوں۔
آپ کی پہلی زیادتی، آپ نے ملک کی اس اشرافیہ کو نئی زندگی دے دی، اسے دوبارہ اکٹھا کر دیا جسے قوم نے بڑی مشکل سے الگ الگ بھی کیا تھا اور دیوار کے ساتھ بھی لگایا تھا، آج آپ کی ضد کی وجہ سے بلوچستان سے لے کر سندھ اور جنوبی پنجاب سے لے کر کوہستان تک ملک کی ساری سیاسی قیادت یک جان، یک قالب ہو چکی ہے، یہ لوگ اب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور ریاست اب ان سے پرانے جرائم کا حساب لے سکے گی اور نہ ہی انھیں نئے جرائم سے روک سکے گی، وفاق کا سندھ حکومت سے بجلی چوری پر تنازعہ تھا، بلوچستان کے ساتھ رائیلٹی کا ایشو تھا اور بلوچستان اور وفاق کے درمیان بلوچ باغیوں پر بھی اختلافات تھے۔
آپ کی مہربانی سے اب میاں نواز شریف کسی صوبے سے وفاق کی رٹ نہیں منوا سکیں گے۔ دوسری زیادتی، آپ کے پاس سنہری موقع تھا آپ الیکشن اصلاحات کرواتے، الیکشن دھاندلی کا مستقل حل تلاش کرتے اور مستقبل کے تمام انتخابات کو صاف اور شفاف بنوا دیتے لیکن آپ کی استعفے کی ضد نے یہ موقع گنوا دیا، الیکشن اصلاحات اب آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کریں گے اور یہ اصلاحات بھی اب ماضی کے الیکشنوں کی طرح اقتدار کسی نہ کسی " اسٹیٹس کو" کے حوالے کیا کریں گی۔ تیسری زیادتی، آپ عوام کے غصے کو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں لا سکتے تھے، ہمارے ملک کے ہر شخص کے اندر غصہ ابل رہا ہے، اخلاقیات دم توڑ چکی ہیں، لوگ دوسروں کو آپ کہنا توہین سمجھتے ہیں، ملک میں مقدس ترین ہستیوں کو بھی برا بھلا کہنے کی روایت چل پڑی ہے۔
ہمارا خیال تھا آپ نوجوانوں میں پاپولر ہیں، آپ غصے سے ابلتے نوجوانوں کو تہذیب کے دائرے میں لائیں گے لیکن آپ نے اس غصے کو غیرشائستگی کا نیا پٹرول فراہم کر دیا، آج آپ سے اختلافات رائے کا مطلب گالیاں ہیں۔ آپ انسان ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ سے اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آج لکھنے اور بولنے والوں کو علامہ اقبال اور قائداعظم کی فلاسفی سے اختلاف پر اتنی گالیاں نہیں پڑتیں جتنی آپ کے انقلاب کی حمایت نہ کرنے پر نصیب ہوتی ہیں، کیا دنیا کے کسی ملک میں اس رویئے کی گنجائش موجود ہے؟ آپ اور آپ کے کارکنوں نے پوری سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، وہ لوگ شاندار اور ایماندار ہیں جو آپ کے حامی ہیں اور باقی دنیا بے غیرت، بے شرم اور لعنتی اور اس دنیا میں آپ کی پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی اور آپ کے برادر نسبتی حفیظ خان نیازی بھی شامل ہیں۔
یہ کیسی جمہوریت، کیسی آزادی اور کیسا نیا پاکستان ہے؟ آپ آج اگر اپنے چند لاکھ ورکروں کی زبان کنٹرول نہیں کر سکتے تو آپ مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان کو کیسے کنٹرول کریں گے۔ چوتھی زیادتی، یہ ملک بدامنی، بے انصافی اور لاقانونیت کا شکار تھا، ہمارے ملک میں طاقتور کے لیے الگ قانون تھا اور بے بس کے لیے الگ، ہمارا خیال تھا آپ ملک کو قانون کی حکمرانی کی طرف لے کر جائیں گے لیکن آپ نے قانون کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا، پاکستان میں آج تک کسی سیاستدان نے سول نافرمانی، ہنڈی، بل جمع نہ کرانے، ٹیکس نہ دینے اور پولیس کو ڈنڈے مارنے کا حکم نہیں دیا تھا، بنگلہ دیش بن گیا لیکن سول نافرمانی نہ ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو پھانسی لگ گئے لیکن کسی سیاسی ورکر نے جیل کی گاڑی نہ روکی اور میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا مگر کسی نے پولیس پر ہاتھ نہ اٹھایا لیکن آپ نے قانون کا سارا بھرم توڑ دیا، لوگ آج کے بعد تھانوں پر حملے کریں گے۔
مرضی کے فیصلے لینے کے لیے ججوں کا گھیراؤ کریں گے اور جیلیں توڑ کر اپنے ملزموں، اپنے مجرموں کو باہر نکالیں گے، کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ اگر ہاں تو کیا اس صورتحال میں کوئی شخص وزیراعظم بن سکے گا اور کیا کوئی حکومت ملک چلا سکے گی؟ پانچویں زیادتی، سول سوسائٹی، میڈیا اور وقت نے طویل جدوجہد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر نکالا تھا، طویل عرصے بعد سیاسی مسائل سیاسی میدان میں حل ہونے لگے تھے، پارلیمنٹ مضبوط ہو رہی تھی اور سیاستدان اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کرنے لگے تھے لیکن آپ نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹ لیا۔ چھٹی زیادتی، صوبوں کے درمیان نفرت کم ہو رہی تھی لیکن آپ نے ایک بار پھر سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قوم پرستوں کو پنجاب کو برا بھلا کہنے کا موقع دے دیا، لوگ پوچھ رہے ہیں، اگر بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب یا کسی پشتون لیڈر نے سول نافرمانی کا اعلان کیا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی عمران خان اور علامہ طاہر القادری جیسا سلوک ہوتا؟ وفاق اب مستقبل میں کسی قوم پرست جماعت کو لانگ مارچ اور دھرنے سے روک سکے گا اور نہ ہی اعلان بغاوت پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کر سکے گا۔
لوگ کہیں گے عمران خان کے لیے پھول اور ہمارے لیے ہتھکڑیاں، کیوں؟ ساتویں زیادتی، آپ نے ملک کے تمام دھڑوں کو راستہ دکھایا، یہ لوگ چند ہزار لوگ لائیں اور ملک سے ایٹم بم لے لیں یا پھر بھارت پر حملہ کروا دیں، آپ نے ملک میں دھرنوں اور لانگ مارچز کا راستہ کھول دیا۔ آٹھویں زیادتی، آپ کی اپنی ضد سے ملک میں تیزی سے ابھرتی سیاسی جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، آپ کے بعض ایم این اے آپ کے اقدامات سے خوش ہیں، آپ کے ووٹرز اور نہ ہی وہ خاموش اکثریت جس نے آپ سے ہزاروں امیدیں وابستہ کر لی تھیں، آج ملک کا پڑھا لکھا طبقہ، تاجر برادری، سفارت کار، سرکاری ملازمین اور طالب علم آپ سے ناراض نظر آتے ہیں۔
فوج میں آپ کی حمایت موجود تھی لیکن آپ کے بے لچک رویئے نے وہ حمایت بھی کھو دی، آپ یقین کریں دنیا کا کوئی ملک آپ جتنا ضدی حکمران افورڈ نہیں کر سکتا، آپ کا کنٹینر آپ کو دن بدن اقتدار سے دور لے جا رہا ہے، آپ آنکھیں کھولیں۔ نویں زیادتی، آپ سسٹم بریک کر رہے ہیں لیکن آپ کے پاس ضد کے علاوہ کوئی متبادل نظام موجود نہیں، خان صاحب اگر یہ سسٹم ٹوٹ گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا، آپ کو اندازہ ہے آپ کیا کر رہے ہیں اور دسویں زیادتی، آپ نے ملک میں کوئی ادارہ، کوئی شخصیت نہیں چھوڑی، آپ کے علاوہ تمام لوگ چور ہیں، صرف آپ ایماندار ہیں، خان صاحب یہ خدائی دعویٰ صرف خدا کو سوٹ کرتا ہے، آپ تکبر کی آخری سیڑھی پر چلے گئے ہیں اورتاریخ میں آج تک کوئی شخص اس سیڑھی سے سلامت واپس نہیں آیا، آپ بھی نہیں آ سکیں گے۔
خان صاحب میری آپ سے درخواست ہے، آپ استعفے کا مطالبہ چھ ماہ کے لیے موخر کر دیں، آپ کے ساڑھے پانچ مطالبات منظور ہو چکے ہیں، آپ اگر دو تہائی اکثریت بھی لے لیتے تو بھی آپ آئین میں یہ ساڑھے پانچ تبدیلیاں نہیں کر سکتے تھے، آپ جیت چکے ہیں، آپ اس پر اکتفا کریں، آئین کو درست کریں، انتخابی اصلاحات کریں اور جوڈیشل کمیشن کو میاں نواز شریف کا فیصلہ کرنے دیں، آپ اور ملک دونوں بچ جائیں گے، دوسرا آپ خیبر پختونخواہ پر توجہ دیں، یہ دو کروڑ بیس لاکھ لوگوں کا چھوٹا سا صوبہ ہے، آپ نے اگر وہاں پرفارم کر لیا تو پورا ملک آپ کا ہو گا، لوگ آپ کو گھر سے اٹھا کر وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں گے لیکن آپ نے اگر یہ موقع کھو دیا تو آپ اور کتابوں میں رکھے ہوئے سوکھے گلابوں میں کوئی فرق نہیں ہو گا، آپ ہوں گے اور بنی گالہ کی اداس شامیں ہوں گی اور میرے جیسے چند دوست ہوں گے، خدا را! آپ واپس آ جائیں، ملک کو نئے لیڈر سے محروم نہ کریں۔
نوٹ: میں عمران خان سے اختلاف کر کے توہین خان کا مرتکب ہو چکا ہوں، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے درخواست ہے آپ مجھے غلط نمبر پر گالیاں دے رہے ہیں، آپ مجھے اس کالم کے بعد گالی دینے کے لیے 0300-5555590، 0333-5553747 پر رابطہ کریں۔