ہم قدم ارطغرل کے مزار پر
عاطف نواز راولپنڈی کی مکہ مارکیٹ میں دوپٹوں کا کام کرتا ہے، پندرہ سال کی عمر میں کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس کام کا ماہر ہوتا چلا گیا، پندرہ سال قبل والد جگر کے عارضے کا شکار ہو گیا، انہیں ہیپاٹائیٹس سی ہوا اور وائرس آہستہ آہستہ ان کا جگر کھانے لگا، عاطف نے یہ 15 برس ہسپتالوں اور کلینکس میں گزارے یہاں تک کہ "لیورٹرانسپلانٹ" کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچا، والد کو لیور کی ضرورت تھی، جگرمل جاتا تو والد بچ جاتے ورنہ عاطف عین جوانی میں یتیم ہو جاتا۔
عاطف خاندان اور کاروبار کا واحد سہارا تھا، اس نے اس مشکل وقت میں عجیب فیصلہ کیا، اس نے والد کو اپنا جگر "ڈونیٹ" کرنے کا اعلان کر دیا، والد نے بھی اسے منع کیا اور ڈاکٹروں نے بھی سمجھایا مگر یہ باز نہ آیا، یہ اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا، ڈاکٹرز اسے سمجھاتے رہے "لیور ٹرانسپلانٹ" کے دوران بعض اوقات جگر دینے اور لینے والے دونوں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، تم ابھی جوان ہو، دوبارہ سوچ لو مگر اس کا ارادہ اٹل تھا، آپریشن سے چند دن قبل اس کے ذہن میں ایک آوارہ خیال آیا، میں اور میرا والد اگر دونوں ہسپتال سے زندہ واپس نہ آئے تو میری ماں کا کیا بنے گا؟ اس خیال نے اس کا ارادہ کم زور کر دیا مگر پھر اس کے بقول اس نے میرا ایک کالم پڑھا اور یہ اندر اور باہر دونوں محاذوں پر مضبوط ہو گیا، آپریشن مشکل بھی تھا اور مہنگا بھی، پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے، یہ رقم اس نے بڑی مشکل سے جمع کی، اسلام آباد میں قائداعظم انٹرنیشنل ہاسپٹل میں ڈاکٹرفیصل سعود ڈار لیور ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں، یہ ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، دونوں مریضوں کا پیٹ سینے تک کھولا جاتا ہے پھر صحت مند جگر کا بڑا ٹکڑا کاٹ کر ضرورت مند کو لگا دیا جاتا ہے، آپریشن کے دوران دونوں مریض زندگی کی حد سے نکل کر موت کی وادی میں پہنچ چکے ہوتے ہیں، گیارہ بارہ گھنٹوں کے آپریشن کے بعد دونوں کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا جاتا ہے، اللہ کا کرم ہو تو پہلے ایک مریض اور پھر دوسرا مریض آنکھ کھول دیتا ہے اور بعض اوقات دونوں بے ہوشی ہی میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
آپریشن کے بعد مریضوں کی بحالی میں سال چھ ماہ لگ جاتے ہیں تاہم لیور ٹرانسپلانٹ کرانے والے شخص کو پوری زندگی ادویات کھانی پڑتی ہیں، یہ ادویات "ری جیکسن میڈی سنز" کہلاتی ہیں اور یہ مریض کے "امیون سسٹم" کو سلو کر دیتی ہیں کیوں کہ اگر قوت مدافعت مضبوط ہو جائے تو اسے پتا چل جاتا ہے یہ جگر ادھار کی پراپرٹی ہے اور یہ اسے تباہ کرنا شروع کر دیتی ہے لہٰذا قوت مدافعت کو دھوکا دینے کے لیے امیون سسٹم سلو کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض آئے روز کسی نہ کسی ایشو کا شکار رہتا ہے جب کہ جگر دینے والے کا جگر آہستہ آہستہ دوبارہ بڑا ہو جاتا ہے لیکن میجر آپریشن کی وجہ سے اس کے پیٹ اور سینے میں مسلسل درد ہوتا رہتا ہے۔
یہ بھاگ دوڑ بھی نہیں سکتا اور زیادہ دیر تک بیٹھ بھی نہیں سکتا، عاطف کے کیس میں اللہ نے خصوصی کرم کیا اور والد اور بیٹا دونوں موت کی آخری حد چھو کر واپس آ گئے، آج اس کے والد صحت مند ہیں اور عاطف کی زندگی بھی دوبارہ ٹریک پر آ چکی ہے لیکن آپریشن کی ہول ناک یادیں آج بھی اس کی زندگی کا حصہ ہیں اور یہ یادیں انتقال کے بعد بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی۔ عاطف ہمارے ارطغرل ٹور میں شامل تھا، یہ صحت مند ہونے کے فوراً بعد ہمارے ہم قدم گروپ کا حصہ بن گیا اور یہ ہمارے ساتھ ترکی پہنچ گیا۔
ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا تھا اور بچوں کی طرح خوش ہوتا تھا، اس کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دنیا دکھانے کے لیے دوسری مرتبہ زندگی دی اور یہ اس زندگی کو خوب صورت اور بامعنی انداز سے گزارنا چاہتا تھا، عاطف نے بورسا میں مجھ سے پوچھا" سر ہماری حکومت نے پی کے ایل آئی پر کام روک کر ہمارے جیسے مریضوں کے ساتھ بہت ظلم کیا" میں نے اس سے عرض کیا "پہلی بات پی کے ایل آئی حکومت نے نہیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے بند کرایا تھا اور اس کا گناہ انہیں پوری زندگی ملتا رہے گا۔
دوسری بات ہم من حیث القوم ترقی کے خلاف ہیں، ملک میں جو بھی بننا شروع ہو جائے ہم اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں، پی کے ایل آئی جیسے ادارے بھی ہماری اس سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں " عاطف کا کہنا تھا "آپ کو اندازہ نہیں یہ ادارہ ہمارے جیسے مریضوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے، یہ اگر ہوتا تو ہمیں پچاس لاکھ روپے بھی اکٹھے نہ کرنا پڑتے اور ہمارا آپریشن بھی آسانی سے ہو جاتا بہرحال اللہ ہمارے برسر اقتدار طبقے کو ہدایت دے"۔
ہم خیال اور ہم قدم دونوں گروپ اب 15 ہزار پاکستانی سیاحوں تک وسیع ہو چکے ہیں، یہ تمام لوگ خوش حال، پروفیشنل اور سیاحت پسند ہیں، یہ باقاعدہ کمیونٹی بن چکے ہیں اور ہماری اس کمیونٹی کے 100 لوگ 16 ستمبر کو ارطغرل سائیٹس کے وزٹ کے لیے ترکی پہنچے، ہماری پہلی منزل بورسا تھا، بورسا استنبول سے قبل خلافت عثمانیہ کا دارالحکومت تھا، ارطغرل غازی کے صاحبزادے عثمان غازی نے اپنے بیٹے اورخان کے ساتھ مل کر یہ شہر فتح کیا تھا، یہ عثمانیوں کی زندگی کی اہم ترین فتح تھی۔
ارطغرل غازی کا شہر صغوط تھا، یہ بورسا سے 98کلو میٹر کے فاصلے پر چھوٹی سی وادی ہے، عثمانیوں کوایک گھنٹے کا یہ فاصلہ طے کرنے میں تین نسلیں لگ گئیں، بورسا میں آج بھی وہ آٹھ سو سال پرانا درخت موجود ہے جس کے نیچے اورخان نے اپنے بوڑھے والد عثمان غازی کا ہاتھ چوم کر عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی، عثمان غازی اور اورخان کے مزارات بھی اس شہر میں ہیں اور چھ سو سال پرانی اولو مسجد سے بھی آج تک اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں جو اس وادی کی پہلی مسجد تھی اور جس کی بنیاد عثمانیوں نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھی، صغوط شہر بورسا کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔
ارطغرل کے دور کے تمام آثار مٹ چکے ہیں، میں 2014ءمیں پہلی بار یہاں آیا تھا، اس وقت یہاں صرف ارطغرل غازی اور حلیمہ سلطان کی قبریں تھیں، ان کے ساتھ چند نامعلوم قبریں تھیں لیکن آج یہاں باقاعدہ ارطغرل کا مزار بھی بن چکا ہے اور ارطغرل کے ساتھیوں کی علامتی قبریں بھی، مزار کے گرد سووینئر شاپس ہیں اور بس صغوط ختم، ہمارے گروپ نے مزار کا چکر لگایا، گارڈز کی تبدیلی کا منظر دیکھا اور ارطغرل کے لباس میں تلواریں اٹھا کر تصویریں بنوائیں اور ہم نے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
آپ کیمرے کا کمال دیکھیں اس نے ماضی کے تابوت میں چھپے کرداروں کو بھی زندہ کر دیا اور ہم تین ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے ارطغرل غازی کے شہر پہنچ گئے، یہ صغوط میں پہلا پاکستانی گروپ تھا، لوگ ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے اور ہم ان میں سے ارطغرل غازی تلاش کر رہے تھے، بورسا شہر میں البتہ رونق تھی، 30لاکھ آبادی کے اس شہر کی فضا میں طراوت اور سکوت تھا، لوگ جوشیلے اور متحرک تھے، یہ اجنبیوں کے ساتھ محبت سے ملتے تھے اور کرونا کے خاتمے کی دعا کرتے تھے۔
ہم نے عثمان غازی، اورخان اور بایزید یلدرم کے مزاروں پر حاضری دی، اولو مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی اور سہ پہر کے وقت عثمانیوں کے قدیم درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گئے، یہ چنار کا طویل درخت ہے، چنار کا لفظ اور درخت دونوں ترکی سے پاکستان آئے ہیں، ہم اس کے نیچے کھڑے ہو کر عثمان غازی اور اور خان کو محسوس کر رہے تھے، ہمیں اپنے اردگرد گھوڑے ہنہناتے ہوئے بھی محسوس ہو رہے تھے، تاریخ بھی کیا دل چسپ چیز ہے، یہ آپ کو چند لمحوں میں حال سے بے گانہ کر دیتی ہے۔
ہم تیسرے دن استنبول آ گئے، سلطان احمد، قاسم پاشا اور تقسیم کا علاقہ ہمارا منتظر تھا، آیا صوفیہ مسجد بن چکا تھا، لوگ اب جوتے اتار کر اس میں داخل ہوتے ہیں، ہم بھی ان میں شامل ہو گئے، قربان گاہ سے حضرت مریم ؑ کی تصویر اتار دی گئی ہے، بائبل کے موزیک کپڑے کے پردوں میں چھپا دیے گئے ہیں اور ان پر آیات لکھ دی گئی ہیں، لوگ اب یہاں نماز بھی پڑھتے ہیں اور شکرانے کے نوافل بھی ادا کرتے ہیں، بلیو ماسک کی شان و شوکت بھی قائم ہے اورپرنسز آئی لینڈز کا فسوں بھی اسی طرح دھند میں لپٹا ہوا ہے۔
تقسیم کے دائیں بائیں محلوں میں بھی اسی طرح تاریخ بہہ رہی ہے، باسفورس کی ہوائیں بھی رقص کر رہی ہیں اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر بھی بدستور خیر بٹ رہی ہے اور سلامتی بہہ رہی ہے، یہ کرونا کے بعد ترکی میں پاکستان کا پہلا ٹور تھا، پورے شہر نے ماسک پہن رکھے تھے، فضا میں ڈر ابھی تک موجود ہے، لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور فاصلہ بھی قائم رکھتے ہیں، پولیس ماسک کے بغیر پھرنے والوں کو فوراً جرمانہ کر دیتی ہے۔
پورے استنبول میں صرف ہم تھے جو ماسک کے بغیر دندناتے پھر رہے تھے اور لوگ گزرتے وقت ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے، ہم واقعی ایک بے خوف قوم ہیں۔ میں ہم قدم کمیونٹی کی بات کر رہا تھا، ہم ایک خاندان ہیں اور اس خاندان میں عاطف نواز کی طرح ہر شخص ایک کہانی ہے، ہم سب جب بھی ایک دوسرے کو اپنی کہانی سناتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے زمین مادے سے نہیں بنی یہ کہانیوں سے بنی ہے اور ان کہانیوں میں ایک کہانی سکواڈرن لیڈر اقبال کی بھی ہے۔