ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے CATA COMB میں
ہم 130 سیڑھیاں اترنے کے بعد وہاں پہنچ گئے جہاں گھپ اندھیرے، اندھے غاروں اور موت کے سناٹے کے سوا کچھ نہ تھا، شہر، پانی کی سطح اور میٹرو کی ٹنلز ہم سے بہت اوپر تھیں، ہم وہاں کھڑے ہو کر جب تصور کرتے تھے، ہمارے اوپر پورا شہر آباد ہے، وہاں لوگ ہیں، بازار ہیں، سڑکیں ہیں، ٹریفک ہے، میٹرو ٹرین ہے، پارک ہیں اور ایک چھوٹی سی جھیل ہے تو ہمیں جھرجھری آ جاتی تھی، ہم ساڑھے پانچ منٹ میں 130 سیڑھیاں اترے اور زندگی سے ہمارا رابطہ کٹ گیا، موبائل ڈیڈ ہو گئے۔
کریڈٹ کارڈ، پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ہمارے نام اور ہماری شناخت تمام چیزیں صفر ہوگئیں اور ہم ستر لاکھ مُردوں کے درمیان زندگی کا معمولی سا نقطہ بن کر رہ گئے، ہمارے سامنے 200 کلومیٹر طویل غار تھے اور ان غاروں کی دیواروں میں چنی ہوئی انسانی ہڈیاں اور سوختہ کھوپڑیاں تھیں اور قطرہ قطرہ ٹپکتی چھتیں تھیں، ہم دنیا کے مہیب زیر زمین قبرستان میں کھڑے تھے "کیٹا کومب" پیرس کا کیٹا کومب، یہ ایک زندہ قبرستان تھا جس کی دیواریں انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بنی تھیں۔
ہم ہڈیوں کو چھو کر دیکھ سکتے تھے، ہم کھوپڑیوں کی جگہ بھی بدل سکتے تھے، ہم جس طرف دیکھتے تھے ہڈیوں کے ڈھیر نظر آتے تھے اور ان پر موت کے لرزتے سائے دکھائی دیتے تھے اور ان سایوں کے درمیان میلوں لمبے غار تھے، نیچی چھت اور تنگ دیواروں والے پتھریلے غار جن کے اوپر پیرس شہر کی 19 ویں ڈسٹرکٹ آباد تھی اور ڈسٹرکٹ میں زندگی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی، اپنے گیارہ مسائل کے ساتھ، یہ تھا دنیا کا دوسرا بڑا کیٹا کومب، زیر زمین قبرستان۔
کیٹا کومب کا تصور یہودیوں سے آیا اور یہودیوں نے یہ آرٹ مصری فرعونوں سے سیکھا، مصر کے قدیم باشندے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے، وہ زمین میں غار تلاش کرتے تھے اور اپنے مُردوں کو ان غاروں میں چھوڑ آتے تھے، اہرام مصر بھی کیٹا کومب تھے، یہ شاہی مُردہ خانے تھے، بادشاہ عام لوگوں کے ساتھ دفن ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے چنانچہ یہ اپنے لیے الگ غار تلاش کرتے تھے اور اس غار پر اہرام تعمیر کرا دیتے تھے جب کہ عام لوگ عام غاروں میں دفن ہوتے تھے۔
عیسائی عقیدے کے مطابق عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو بھی صلیب سے اتار کر ایک غار ہی میں چھوڑ دیا تھا اور ان کا جسم اطہر بعد ازاں اس غار سے غائب ہوگیا تھا، عیسائی زائرین آج بھی یوروشلم کے اس غار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، یوروشلم شہر کے نیچے آج بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور اس زیر زمین قبرستان میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں پڑی ہیں، دنیا کا سب سے بڑا کیٹا کومب روم شہر کے نیچے ہے، یہ چھ ہزار سال پرانا ہے اور یہ 375 میل لمبا ہے اور یہاں 80 سے 90 لاکھ لوگوں کی باقیات رکھی ہیں، دوسرا کیٹا کومب پیرس میں ہے جس میں ہم اس وقت کھڑے تھے، تیسرا مصر کے شہر سکندریہ کے نیچے ہے، یہ تین منزلہ ہے اور ان تین منزلوں میں درجوں کے مطابق مُردے دفن ہیں، امیر اور بارسوخ لوگ پہلی منزل پر پڑے ہیں۔
دوسرے درجے میں، دوسرے درجے کے مُردے ہیں اور تیسرے درجے میں تیسرے درجے کے مُردے حشر کاانتظار کر رہے ہیں، یہ کیٹا کومب 1900ء میں اس وقت دریافت ہوا جب ایک گدھا گڑھے میں گر گیا، لوگ گدھے کو نکالنے کے لیے گڑھے میں اترے اور پھر اس شہر میں نکل گئے جس میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں ان کی منتظرتھیں، چوتھا کیٹا کومب گاڈ فادر کے سسلی کے شہر پولرمو میں ہے، یہ 16 ویں صدی میں دریافت ہوا اور اس میں بارہ ہزار لوگوں کی ہڈیاں پڑی ہیں، مالٹا میں چوتھی سے نویں صدی کا کیٹا کومب ہے، ویانا شہر کے سینٹ سٹیفن کیتھڈرل کے نیچے بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور چیک ری پبلک کے شہر برونو میں دنیا کا ساتواں بڑا کیٹا کومب ہے، اس میں 50 ہزار مُردے اپنے حساب کا انتظار کر رہے ہیں۔
یوکرائن کے شہر اوڈیسا کے نیچے اڑھائی ہزار کلومیٹر لمبے غار ہیں اور ان غاروں میں کیٹا کومب ہے، یہ فاصلہ کتنا طویل ہے، آپ اس کا اندازہ اوڈیسا سے پیرس کے فاصلے سے لگا لیجیے، پیرس اوڈیسا سے 2138 کلو میٹر دور ہے جب کہ اوڈیسا شہر کے نیچے 2500 کلومیٹر لمبا کیٹا کومب ہے، یوکرائن کی حکومت نے 1995ء میں چند لوگ ان غاروں میں اتارے، یہ لوگ مسلسل 27 گھنٹے چلتے رہے اور انھوں نے صرف 40 کلو میٹر سفر طے کیا، 2005ء میں چند نوجوانوں نے کیٹا کومب میں نیو ائیر پارٹی کا بندوبست کیا، پارٹی کے دوران ماشا نام کی ایک لڑکی راستہ بھٹک گئی۔
پولیس کو اس کی لاش تلاش کرنے کے لیے دو سال لگ گئے، یوکرائن کے کیٹا کومب کا درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے چنانچہ وہاں آج بھی سیکڑوں سال پرانی لاشیں اصل حالت میں موجود ہیں اور سائنس دان تحقیق کے لیے عموماً یہاں سے نمونے حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن پیرس کا کیٹا کومب ان تمام کیٹا کومبز کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ، یہ سیاحوں کے لیے کھلا ہے، حکومت نے لوگوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے غاروں پر سلاخیں بھی لگا رکھی ہیں، آپ ممنوعہ علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے، سیاحوں کی باقاعدہ کاؤنٹنگ بھی کی جاتی ہے، ایک وقت میں بیس سے زیادہ لوگوں کو غاروں میں نہیں جانے دیا جاتا اور دوسری وجہ آرٹ ورک ہے، کیٹا کومب میں ہڈیاں اور کھوپڑیاں ایک مصورانہ ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں، آپ انھیں دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ آپ انھیں آرٹ ورک سمجھ کر داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پیرس کے کیٹا کومب کی تاریخ بھی دلچسپی سے خالی نہیں، پیرس شہر کے نیچے لائم اسٹون کا وسیع ذخیرہ تھا، یہ شہر پانی کے دور میں سمندر کے نیچے تھا، 64 ملین سال پہلے لائم اسٹون کے اس ذخیرے میں غار بن گئے اور ان غاروں میں لوگوں نے رہنا شروع کر دیا، یہ ڈائنو سارس کا زمانہ تھا، ڈائنو سارس 30 ملین سال قبل ناپید ہونا شروع ہوئے، یہ غار لاکھوں سال تک انسانوں کی رہائش گاہ رہے، انسان پھر ان غاروں سے نکلا اور اس نے یہاں شہر آباد کرنا شروع کر دیا، عمارت سازی کے دور میں پیرس کے لوگوں نے ان غاروں سے لائم اسٹون نکالنا شروع کر دیا، یہ پتھر عمارت سازی اور قلعہ سازی میں کام آنے لگا، شہر بن گیا، لوگوں نے اس شہر میں رہنا شروع کر دیا، قدیم زمانے کے یہ شہری زیر زمین غاروں میں مُردے دفن کرنے لگے۔
یہ غار حملہ آوروں کے حملوں کے دوران شہریوں کے لیے پناہ گاہ بن جاتے تھے، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 1763ء آ گیا، شہر میں قبرستان بڑھ گئے، مُردے دفن کرنے کی جگہ کم ہوگئی چنانچہ حکومت نے ان غاروں کو مُردہ خانہ بنانے کا فیصلہ کیا لیکن پادریوں نے مخالفت شروع کر دی، 1780ء میں پیرس میں خوفناک بارشیں ہوئیں، بارشوں نے قبرستان تباہ کر دیے اور مُردوں کی ہڈیاں شہر میں تیرنے لگیں، اس سے وبائیں پھوٹنے لگیں، بادشاہ نے خصوصی اختیارات استعمال کیے اور یہ تمام ہڈیاں جمع کر کے غاروں میں دفن کرنے کا حکم دے دیا یوں 1786ء میں کیٹا کومب بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ 1859ء تک جاری رہا، اس دوران انقلاب فرانس آیا، اس انقلاب کے دوران لاکھوں لوگ قتل ہوئے، ان لوگوں کی لاشیں بھی کیٹا کومب میں دفن کی گئیں اور یوں کیٹا کومب کے خزانے میں اضافہ ہوتا چلا گیا، بیسویں صدی کے شروع میں ان غاروں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔
مقامی گائیڈ مشعلوں کی روشنی میں لوگوں کو غاروں میں لے کر جاتے تھے اور انھیں ہڈیوں کا ڈھیر دکھاتے تھے، اس دوران بے شمار سیاح ان غاروں میں گم بھی ہو گئے اور ان پر بعد ازاں ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں بھی بنیں، ان گم شدہ لوگوں میں برطانیہ کے 25 سیاحوں کا ایک گروپ بھی شامل تھا، یہ لوگ غار میں اترے اور اس کے بعد سورج کی روشنی نہ دیکھ سکے، ان کے ساتھ کیا ہوا، وہ کہاں چلے گئے، کوئی نہیں جانتا! یہ 1903ء کا واقعہ ہے لیکن لوگ آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں، یہ غار 200 کلو میٹر طویل ہیں، ان کا صرف ایک میل اور 200 میٹر لمبا حصہ سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے، آپ 130 سیڑھیاں اتر کر غار میں اترتے ہیں اور چار فٹ چوڑے اور چھ فٹ اونچے غار میں تقریباً ایک کلومیٹر سفر کرتے ہیں اور پھر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں تین اطراف ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے انبار لگے ہیں، اس جگہ غار کی دیواریں ہڈیوں سے بنی ہیں، ہڈی کے اوپر ہڈی اور کھوپڑی کے اوپر کھوپڑی رکھی ہے اور انھیں دیکھ کر دل لرز جاتا ہے۔
میں اس جگہ پہنچ کر رک گیا، میرا دل میری کنپٹی میں دھڑک رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا، یہ لوگ بھی کبھی زندہ ہوتے ہوں گے، یہ بھی ڈرتے ہوں گے، یہ بھی زندگی اور زندگی کے تقاضوں کے لیے لڑتے ہوں گے اور انھیں حسد بھی محسوس ہوتا ہوگا اور رشک بھی، یہ لالچ میں بھی آتے ہوں گے اور انھیں انا بھی ڈنک مارتی ہوگی، ان میں بدمعاش بھی ہوں گے، پہلوان بھی، بزرگ بھی، بچے بھی، عاشق بھی، معشوق بھی، امیر بھی، غریب بھی، کمزور بھی طاقتور بھی، ظالم بھی مظلوم بھی، اوپر والے ہاتھ کے مالک بھی اور پھیلے ہاتھوں کے بے بس لوگ بھی، یہ لوگ بھی ہماری طرح زندگی کے پیچھے لپکتے ہوں گے اور یہ بھی سو سو سال کی پلاننگ کرتے ہوں گے لیکن پھر کیا ہوا۔
یہ بے بس ہڈیاں اور بے شناخت کھوپڑیاں بن کر یہاں پڑے ہیں اور ہم جیسے متجسس سیاح ان کے ساتھ تصویریں بنوا رہے ہیں، یہ ہے زندگی کی حقیقت، اس زندگی کی حقیقت جسے ہم مستقل سمجھ بیٹھتے ہیں، جس کے لیے ہم فرعون بن جاتے ہیں، جس کے لیے ہم دوسروں سے جینے کا حق چھینتے رہتے ہیں، میں نے ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے اس گودام میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے غرور، اپنی کوتاہیوں اور اپنی نفرتوں کی معافی مانگی، اپنی کھوپڑی پر ہاتھ پھیرا اور دنیا کے اس مہیب قبرستان سے باہر آگیا، باہر سڑک پر زندگی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھی۔