Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Allah Ka Laakh Laakh Shukar Hai

Allah Ka Laakh Laakh Shukar Hai

اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے

ہم اگر ٹائم مشین میں بیٹھ کر1900کے شروع میں چلے جائیں تو ہمیں دنیا میں صرف دو سپر پاورز ملیں گی، سلطنت عثمانیہ اور برٹش ایمپائر، عثمانی خلیفہ کا حکم تین براعظموں اور پورے عالم اسلام پر چلتا تھا، آپ سلطنت کے حجم کا اندازہ صرف فوج کے سائز سے لگا لیجیے۔

سلطنت عثمانیہ کی فوج میں 28 لاکھ 70 ہزار فوجی تھے، بحری جہازوں، رائفلوں، توپوں اور گھوڑوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا لیکن پھر یہ سلطنت چند برسوں میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور آج اس کی داستان ارطغرل ڈرامے کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی، یہ سلطنت چند برسوں میں کیسے ختم ہو گئی؟ یہ ایک حیران کن اسٹڈی ہے، میرا دعویٰ ہے آپ اگر دل کھلا کر کے صرف اس ایک حقیقت کو سمجھ لیں گے تو آپ کو پورے عالم اسلام کا المیہ سمجھ آ جائے گا، آپ کو اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے اندازے کے لیے بھی زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑے گی۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کی بنیاد 34ویں خلیفہ سلطان عبدالحمید دوم نے رکھی، یہ 1876 میں خلیفہ بنا، دنیا اس وقت تک تبدیل ہو چکی تھی، لوگ بادشاہوں کے آمرانہ مزاج سے تنگ تھے، یورپ میں جمہوریت آ چکی تھی لہٰذا ترک عوام نے سلطان پر جمہوریت کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، سلطان نے دباؤ میں آ کر عثمانی سلطنت میں پہلا آئین نافذ کر دیا، پارلیمنٹ بنائی اور مدحت پاشا کو وزیراعظم بنا دیا لیکن یہ نام کا وزیراعظم تھا، اصل اختیارات بدستور سلطان کے پاس تھے، اس سیاسی منافقت پر عوامی احتجاج شروع ہو گیا، سلطان نے آئین منسوخ کر کے پارلیمنٹ توڑ دی اور اس کے بعد 30 سال تک پارلیمنٹ بحال نہ ہو سکی۔

عوامی احتجاج زور پکڑتا رہا، فوج اور سول انتظامیہ دونوں سلطان کے ہاتھ میں تھی، سلطان نے کتابوں، اخبارات اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی، عوام کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا، بادشاہ نے فوج کو عوام کو دبانے کا حکم دے دیا لیکن ترک فوج نے انکار کر دیا، جنرلز نے بادشاہ کو مشورہ دیا آپ اس کا سیاسی حل نکالیں، عوام پر فوج کشی نہ کریں، فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی، یہ جواب بادشاہ کو اچھا نہ لگا، اس نے ساری عسکری قیادت بدل دی، سلطان نے جونیئر اور کم زور افسر اٹھائے اور انھیں سینئر پوزیشنز پر لگا دیا اور وہ افسر سلطان کی منشا کے مطابق عوام کو دبانے لگے، ٹیکس کولیکشن، لاء اینڈ آرڈر، بادشاہ کی سیکیورٹی اور خفیہ معلومات سب فوج کے حوالے کر دیا گیا، اس دور میں تین پاشا ابھر کر سامنے آ گئے۔

طلعت پاشا، جمال پاشا اور انور پاشا، ترکی میں پاشا نام نہیں ہوتا عہدہ ہوتا ہے اور یہ میجر جنرل کے برابر ہوتا ہے، طلعت پاشا کو داخلہ اموردے دیے گئے، جمال پاشا کے پاس نیوی تھی جب کہ انور پاشا بری فوج کا سپہ سالار اور وزیر جنگ تھا، آپ آج بھی گوگل پر تھری پاشا ٹائپ کریں آپ کے سامنے یہ تین نام آ جائیں گے، کیوں؟ کیوں کہ پچھلے سو سال سے ان تینوں پاشاؤں کو یونیورسٹیوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جا رہا ہے چناں چہ ان پر مسلسل تحقیق جاری ہے اور یہ تحقیق ثابت کرتی ہے حکمران جب اپنے اقتدار کے لیے کم زور لوگوں کو اہم ترین پوزیشنز پر بٹھاتے ہیں تو پھر حکمرانوں اور قوموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے! یہ تین پاشا سلطنت کے اصل اختیارات کے مالک تھے۔

انھوں نے "کمیٹی آف یونین اینڈ پراگریس" بنا لی اور سلطان کو بھی اس کمیٹی کے فیصلوں کا پابند کر دیا، سلطان شروع میں کمیٹی کے احکامات مانتا رہا لیکن پھر اسے اچانک یاد آ گیا میں ارطغرل کا بیٹا ہوں، سلطان میں ہوں اور میں نے ان تینوں کو تعینات کیا تھا چناں چہ اس نے انھیں ہٹانے کا فیصلہ کر لیا، انٹیلی جینس تینوں پاشاؤں کے پاس تھی، انھیں بھنک پڑ گئی، انھوں نے ترک نوجوانوں کی پارٹی "انجمن اتحاد وترقی" کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔

انجمن نے ملک بھر میں دھرنے شروع کر دیے، شیخ الاسلام بھی پاشاؤں کے قبضے میں تھا، پاشاؤں کے حکم پر شیخ نے سلطان کی معزولی کا فتویٰ دے دیا، تینوں پاشا شاہی محل دولما باشے گئے، سلطان کو اٹھایا، بحری جہاز میں بٹھایا اور جلاوطن کر دیا، پاشاؤں نے اس کے بعد 1909 میں سلطان محمد الخامس کو تخت پر بٹھا دیایوں جنرل اپنی مرضی کا بادشاہ لے آئے، آپ کمال دیکھیے سلطان عبدالحمید دوم اپنی مرضی کے جرنیل لے آیا تھا اوربعد ازاں جرنیل اپنی مرضی کا بادشاہ لے آئے۔

عثمانی سلطنت کے تینوں پاشا اسمارٹ تھے، یہ جانتے تھے خوف حکمرانی کا واحد اصول ہے، آپ لوگوں کو خوف زدہ کر دیں کوئی آپ کے اختیارات کو چیلنج نہیں کرے گا لہٰذا تینوں نے جی بھر کر خوف کو بطور تکنیک استعمال کیا، انور پاشا 28 لاکھ 70 ہزار فوج کا کمانڈر تھا، جمال پاشا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی نیوی تھی جب کہ طلعت پاشا دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے داخلہ امور کا مالک تھا چناں چہ ان لوگوں نے اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے پوری سلطنت کو قبرستان بنا دیا، بادشاہ خوف زدہ تھا کیوں کہ یہ جانتا تھا۔

ان لوگوں نے اپنے محسن سلطان عبدالحمید کو اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا، میں کس کھیت کی مولی ہوں، عوام خوف زدہ تھے کیوں کہ عوام کو ڈرانے کے لیے انور پاشا نے آرمینیا اور یونان پر فوج چڑھا دی تھی اور دس لاکھ لوگ مار دیے تھے لہٰذا پوری سلطنت میں خوف طاری ہو گیا، یورپ اس زمانے میں عثمانی سلطنت کو "انور لینڈ" کہتا تھا، یہ سلسلہ 1914 تک چلتا رہا یہاں تک کہ جنگ عظیم اول کے امکانات نظر آنے لگے، پاشا جانتے تھے جنگیں آمریت کا بہت بڑا دفاع ہوتی ہیں، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو دنیا کی زیادہ تر جنگیں ملٹری ڈکٹیٹرز کے دور میں ہوتی نظر آئیں گی۔

کیوں؟ کیوں کہ ملٹری ڈکٹیٹرز جنگ کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرتے ہیں، گولا بارود اور لاشیں ہمیشہ ڈکٹیٹرز کو تحفظ دیتی ہیں لہٰذا یہ لوگ بھی شدت سے جنگ کا انتظار کرنے لگے، جرمنی نے 29 اکتوبر 1914 کو روس پر حملہ کیا اور اگلے ہی دن انور پاشا نے روس کے ساحلوں پر بمباری شروع کر دی اور عثمانی سلطنت کو جرمنی کا اتحادی ڈکلیئر کر دیا، سلطان محمد کو پاشاؤں کا "حکم" ہوا اور سلطان نے خلیفہ کی حیثیت سے پہلی عالمی جنگ کو "مقدس جنگ" قرار دے دیا، اس نے انور پاشا کوجنگ کے تمام اختیارات بھی دے دیے اور یوں سلطنت عثمانیہ اس جنگ کا حصہ بن گئی جو کسی بھی طرح ان کی جنگ نہیں تھی۔

اس حماقت کا یہ نتیجہ نکلا ترکی کے 26 لاکھ لوگ اور دس لاکھ 20 ہزار فوجی مارے گئے، سلطنت بھی تباہ ہو گئی، عرب علاقے ترکوں کے ہاتھوں سے نکل گئے، سلطان محمدحالات کی سنگینی سے واقف تھا لیکن وہ صرف محل تک محدود ہو چکا تھا، وہ توپ کاپی محل کے تبرکات کے کمرے میں بند ہو جاتا تھا اور نبی اکرمؐ کا خرقہ مبارک پکڑ کر ساری ساری رات روتا رہتا تھا اور اپنی غلطی کی معافی مانگتا رہتا تھا، اس دوران عراق اور شام میں ترک فوج کو بری طرح مار پڑی اور یہ دونوں ملک خلافت کے ہاتھ سے کھسک گئے، یہ خبر سن کر بادشاہ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا اور وہ محل کے اندر انتقال کر گیا، سلطان کا ایک کزن سلطان محمد ششم 57 سال سے جیل میں تھا۔

تینوں پاشاؤں نے اسے جیل سے نکالا اور تخت پر بٹھا دیا، وہ سلطان محمد سے زیادہ نااہل اور کم زور تھا، دوسری طرف عراق اور شام میں شکست کے بعد فوج میں بغاوت ہو گئی، کرنل مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے جرنیلوں کے خلاف بغاوت کر دی، طلعت پاشا اور جمال پاشا کو اپنا انجام صاف نظر آ رہا تھا چناں چہ انھوں نے استعفیٰ دیا اورملک سے فرار ہو گئے جب کہ انور پاشا تاجکستان میں مارا گیا، سلطان محمد نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے برطانوی ایجنٹ احمد عزت پاشا کو وزیراعظم بنا دیا اور احمد عزت پاشا نے رہا سہا ملک برطانیہ کے حوالے کر دیا، بچی کھچی فوج مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں اکٹھی ہوئی۔

جنگ آزادی شروع ہوئی اور مصطفی کمال پاشا نے جرمنی، برطانیہ، فرانس اور روس چاروں سے اپنے علاقے واپس لینا شروع کر دیے، مصطفی کمال نے سلطان محمد جیسے نااہل بادشاہ سے جان چھڑانے کے لیے 1922 میں خلافت کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا، آخری بادشاہ سلطان محمد کو جلا وطن کر دیا گیا، یہ شروع میں مالٹا گیا، پھر شریف مکہ کی دعوت پر حج کے لیے گیا، سلطان محمد عثمانی تاریخ کا واحد بادشاہ تھا جس نے حج کیا تھا لیکن یہ حج بھی معزولی کے بعد کیا گیا تھا گویا کسی عثمانی بادشاہ کو حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی، یہ حج کے بعد مصر گیا لیکن عوامی احتجاج پر اسے سکندریہ سے نکال دیا گیا، دنیا میں اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

اٹلی کے بادشاہ وکٹر عمانویل کو اس پر ترس آگیا اور اس نے اسے اٹلی کے شہر سان ریمو میں کرائے پر چھوٹا سا ولا لے دیا، اس نے زندگی کے آخری تین سال اس چھوٹے سے ولا میں گزارے، 1926میں اس کا انتقال ہوا اور اسے دمشق کی مسجد سلطان سلیم اول میں دفن کر دیا گیا، مجھے اس کی قبر پر جانے کا اتفاق ہو چکا ہے اور یوں تین جرنیلوں اور تین سلطانوں کی حماقت اور ہوس اقتدار سے دنیا کی آخری اسلامی خلافت اختتام پذیر ہو گئی، عثمانی سلطنت کو 28 لاکھ 70 ہزار کی دنیا کی سب سے بڑی فوج بھی نہ بچا سکی۔

تاریخ گواہ ہے بادشاہ جب اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مضبوط ادارے کم زور لوگوں کے حوالے کرتے ہیں تو پھر کم زور افسر اپنی مرضی کا بادشاہ لے آتے ہیں اوریوں یہ ایک دوسرے کو بدلتے رہتے ہیں اور آخر میں سلطنت ختم ہو جاتی ہے تاہم اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، ہم یہ تاریخی غلطی نہیں دہرا رہے لہٰذا ان شاء اﷲ وہ وقت دور نہیں جب دنیا کے ہر اس ملک میں ہمارا جھنڈا ہو گا جس میں کبھی عثمانی سلطنت کا پرچم ہوتا تھا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari