Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Aisa To Hona Hi Tha

Aisa To Hona Hi Tha

ایسا تو ہونا ہی تھا

آپ نے 1970ء کی دہائی دیکھی ہو تو آپ کو راڈوکی گھڑی، نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر، سونی کا رنگین ٹی وی اور دو گھوڑا بوسکی یاد ہوگی، یہ چاروں صرف چیزیں نہیں تھیں یہ کلچر تھیں اور یہ کلچر "ریال کلچر" کہلاتا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے عربوں کے ساتھ شاندار تعلقات تھے، تیل کا تازہ تازہ سرمایہ آیا تھا، نئے شہر آباد ہو رہے تھے چنانچہ عرب دنیا میں لاکھوں مزدور، مستری، ترکھان، موچی، لوہار، درزی اور تندورچی چاہیے تھے، بھٹو صاحب نے موقعے کا فائدہ اٹھایا، عرب ممالک کے ساتھ ہنرمندوں کی فراہمی کے سمجھوتے کیے اور پاکستان کی دیہی زندگی میں خوشحالی کے دریابہنے لگے۔

پنجاب کے دیہات اس سے قبل تین طبقوں میں تقسیم تھے، پہلا طبقہ زمینداروں پر مشتمل تھا، یہ لوگ زمین، جائیداد اور ڈھور ڈنگر کے مالک ہوتے تھے، یہ لوگ چوہدری کہلاتے تھے، چوہدری کا لفظ اس زمانے میں خوشحالی اور طاقت کی علامت تھا، دوسرا طبقہ آڑھتی کہلاتا تھا، یہ لوگ زمینداروں سے اناج اور جانور خریدتے تھے اور منڈیوں میں فروخت کر دیتے تھے اور تیسرا طبقہ کمی کہلاتا تھا، یہ زمینداروں کی زمینوں پر کام کرتے تھے، کمیوں کے خاندان زمینداروں کے مختلف خاندانوں سے وابستہ ہوتے تھے۔

، یہ وابستگی "سیپ" کہلاتی تھی، کمیوں کا خاندان بڑے فخر سے بتاتا تھا، میں فلاں کا "سیپی" ہوں اور وہ خاندان بھی نہ صرف اسے "اون" کرتا تھا بلکہ اس کے نان نفقے، کپڑے لتے اور دوا دارو کا ذمے دار بھی ہوتا تھا، دیہات کا یہ تیسرا طبقہ ہنر مند، محنتی اور فن کار تھا لیکن یہ محروم اور غریب تھا، گلف کا دروازہ کھلا تو یہ طبقہ دیہاتی کلچر کا رسہ تڑوا کر لیبیا، سعودی عرب، کویت، عراق اور متحدہ عرب امارات چلا گیا، یہ لوگ کیونکہ ہنر مند تھے چنانچہ انھوں نے وہاں جی بھر کر ریال کمائے اوردیہات میں پکے مکان اور چوبارے بنا کر صدیوں کی محرومیوں سے چھٹکارے کا اعلان کردیا۔

زمیندار اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے، کیوں؟ کیونکہ زمیندار زمینداری کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے اور عرب ملکوں میں زمینداروں کی ضرورت نہیں تھی، دوسرا یہ لوگ بیرون ملک کمیوں کے ساتھ مزدوری کے لیے بھی تیار نہیں تھے چنانچہ یہ اقتصادی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور کمی ریالوں کے زور پر ان کی زمینیں، ڈھور ڈنگر اور حویلیاں خریدتے چلے گئے، آخر میں ان لوگوں کی ذاتیں بچیں اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیسرے طبقے کے قابو آتی چلی گئیں، یہ لوگ شاہ، مہر اور چوہدری بھی بن گئے لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی 1970ء کی دہائی میں ہیں۔

آپ اگر اس زمانے کو یاد کریں تو آپ کو سعودی عرب، لیبیا اور دوبئی سے واپس آنے والے ہر شخص کی کلائی پر راڈو کی گولڈن گھڑی، ہاتھ میں نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر اور سامان میں سونی کا رنگین ٹی وی اور بوسکی کے دس بیس سوٹ ضرور ملتے تھے، یہ چاروں چیزیں اس دور میں ریال کلچر اور خوش حالی کا ثبوت تھیں اور یہ ثبوت اس وقت پنجاب کے تقریباً تمام دیہات میں ملتا تھا، لوگ ٹیپ ریکارڈر کندھوں پر لٹکا کر کھیتوں میں پانی دیتے تھے، بوسکی پہن کر چارہ کاٹتے تھے اور دوسروں کو جلانے کے لیے رات کے وقت ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی چھت پر رکھ کر سوتے تھے، یہ کلچر آگے چل کر نئے کلچرز کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

ریال کلچر کی مہربانی سے نمودونمائش پنجاب کا حصہ بن گئی، آپ پورے ملک کا تجزیہ کر لیں، آپ کو جتنی نمود ونمائش پنجاب میں نظر آئے گی آپ کو اتنی پورے ملک میں دکھائی نہیں دے گی، پنجاب کے لوگ فریج اور واشنگ مشینیں بھی ڈرائنگ روم میں رکھا کرتے تھے، دوسرا پنجاب میں چوری، چکاری اور ڈاکہ زنی باقاعدہ پیشہ بن گئی اور تیسرا پنجاب میں بدمعاشی شروع ہوگئی، کیسے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

پنجاب میں ستر اور اسی کی دہائی میں راڈو، ٹیپ ریکارڈ اور ٹی وی والے گھروں میں چوری اور گاڑیوں پر پھرنے والوں پر ڈاکے ضرور پڑتے تھے اور ان چوریوں اور ڈاکوں کے فیصلے عموماً بدمعاشوں کے ڈیروں پر ہوتے تھے چنانچہ چوری اور بدمعاشی دونوں کلچر بن گئیں، میں اس کلچر اور اس کلچرل چینج کاعینی شاہد ہوں، میرا پورا بچپن ان تبدیلیوں میں گزرا، میرے بزرگ جس کو راڈو گھڑی اور بوسکی پہنے اور جس کے چوبارے پر ٹیپ ریکارڈردیکھتے تھے۔

یہ قہقہہ لگا کر کہتے تھے "لو جی اب اس کی باری آگئی" ہمارے بزرگ ان لوگوں کو بدمعاشوں کا رزق بھی کہتے تھے، میرے بچپن میں جب بھی کسی کے گھر چوری ہوتی تھی یا کوئی ڈاکے کا شکار ہوتا تھا تو بزرگ حقہ پیتے ہوئے سر ہلا تے تھے اور ہنس کر کہتے تھے "یہ تو ہونا ہی تھا" میں نے جب بھی اس فقرے کا مطلب پوچھا، میرے بزرگوں نے ایک ہی جواب دیا "بیٹا جب آپ قمیض کے کف تہہ کرکے گھڑی باندھو گے، دن میں دو دو بار کپڑے بدلو گے، چھت پر ٹیپ بجاؤ گئے۔

بیٹھک میں ٹی وی اور فریج رکھو گے، گاڑی میں بازار کے چکر لگاؤ گے اور لوگوں کو گھور کر مونچھ کو بل دو گے تو اس کا کیا مطلب ہوگا" میں خاموش رہتا تھا، بزرگ کہتے تھے "اس کا مطلب ہوگا آپ چوروں اور بدمعاشوں کو آواز دے رہے ہیں اور آپ جب ان لوگوں کو آواز دیں گے تو یہ آواز ضرور سنی جائے گی" میں بزرگوں کی بات سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن پھر سیکڑوں تجربوں نے بزرگوں کی دانائی ثابت کر دی، میں اتفاق پر مجبور ہوگیا۔

عوام آج میڈیا میں یہی "کلچرل چینج"دیکھ رہے ہیں، پاکستان کا پرنٹ میڈیا پنجاب کے پرانے کلچر کی طرح باعزت پیشہ تھا، 2002ء میں الیکٹرانک میڈیا آیا اور اس نے صحافتی انڈسٹری اور ملک دونوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، چینلز کی یلغار ہوئی اور ناتجربہ کار مالکان نے ناتجربہ کار بچوں اور بچیوں کو کیمرے اور مائیک پکڑا کر میدان میں اتار دیا اور ان سورماؤں نے صحافت کے شعبے کو میدان جنگ بنا دیا، رہی سہی کسر ریٹنگ کی دوڑ نے پوری کر دی چنانچہ وہ پیشہ جو ماضی میں مقدس سمجھا جاتا تھا وہ گالی بنتا چلا گیا۔

آپ نے تین دن قبل سوشل میڈیا پر کراچی لیاقت آباد کے نادرا کے دفتر میں ایف سی کے جوان کو خاتون رپورٹر کو تھپڑ مارتے دیکھا ہوگا، میں نے جب یہ منظر دیکھا تو میرے اندر سے آواز آئی "یہ تو ہونا ہی تھا" آپ اگر وہ پروگرام پورا دیکھیں تو آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے خاتون نے وہ تھپڑ خود مروایا تھا، آپ جب کیمرے اور مائیک لے کر لوگوں کو سر عام بے عزت کریں گے اور آپ انھیں غیرت اور شرم کے طعنے دیں گے تو لوگ کیا کریں گے؟ کیا یہ آپ کو تھپڑ نہیں ماریں گے؟

میں اس افسوس ناک واقعے پر خاتون رپورٹر، چینل اور پوری میڈیا انڈسٹری کو ذمے دار سمجھتا ہوں، ہمیں کس نے حق دیا ہے ہم یوں سڑک پر عدالت لگا دیں، ہم وردیوں کو کھینچنا شروع کر دیں اور چھاپے مارنے لگیں، کیا یہ ہمارا کام ہے؟ کیا یہ ہماری ذمے داری ہے؟ نہیں ہم صرف رپورٹ کر سکتے ہیں، تبصرہ کر سکتے ہیں اور حکومتی اداروں اور نظام کی "غیرت" کو للکار سکتے ہیں، ہمیں کسی نے چھاپہ مار کارروائیوں اور عوامی عدالتیں لگانے کا حق نہیں دیا، ہم اپنی حدود سے مسلسل تجاوز کر رہے ہیں، لوگ ہم سے ناراض ہیں اور یہ ناراضی اب تھپڑوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہے، ہمیں سنبھلنا ہوگا۔

ہمیں پروگرامنگ، رپورٹنگ اور میڈیا کی زبان کا کوئی ٹھوس فارمولہ بنانا ہوگا اور ہمیں نوجوانوں کے ہاتھو ںمیں مائیک اور کیمرہ دینے سے پہلے ان کی ٹریننگ کا مناسب بندوبست کرنا ہوگا، آپ کبھی میڈیا انڈسٹری کو جاری ہونے والے نوٹس اور گالیوں کا ڈیٹا جمع کریں، آپ کو ان سب کے پیچھے نئے، ناتجربہ کار اور نان پروفیشنل جرنلسٹ ملیں گے، آپ کو پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا میں آنے والا کوئی صحافی یہ حرکتیں کرتا نظر نہیں آئے گا۔

ہمارے سینئر صحافی کیا کیا نہیں بولتے، یہ کس کس کو چیلنج نہیں کرتے اور یہ کیا کیا نہیں لکھتے لیکن لوگ اس کے باوجود ان کی عزت کرتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ دیوانگی میں بھی اعتدال کی رسی ہاتھ سے پھسلنے نہیں دیتے، یہ مودی کو بھی گالی دیتے وقت مودی صاحب کہتے ہیں، یہ اسے "اوئے چائے والے" نہیں کہتے، یہ آج بھی بے شرمی اور بے غیرتی کو گالی سمجھتے ہیں چنانچہ لوگ اختلاف کے باوجود ان کی عزت کرتے ہیں جب کہ ہمارے نوجوان صحافی صحافت اور اخلاقیات دونوں کا جنازہ اٹھا کر پھر رہے ہیں، یہ کب تک چلے گا؟

صحافت انداز بیاں کاکھیل ہے اوراندازبیاں کیسا فن ہے آپ صرف ایک مثال لے لیجیے، ہم جب کسی کے گھر رشتہ مانگنے جاتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں"ہمیں اللہ تعالیٰ نے سعادت مند بیٹا دیاہے، ہمیں اب سعادت مند بیٹی چاہیے" ہم ان سے یہ نہیں کہتے "ہمار بیٹا سانڈ بن گیا ہے اور ہمیں آپ کی بھینس چاہیے" اور ہم اگر یہ کہیں گے تو پھر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟

ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو 20 اکتوبر کولیاقت آباد کراچی میں ہوا تھا، پھر ہمیں تھپڑ پڑیں گے اور ہمیں یہ تھپڑ پڑ رہے ہیں، ہمارے میڈیا مینجمنٹ کو بندروں کے ہاتھ سے استرے واپس لینا ہوں گے ورنہ یہ لوگ ہم سب کے منہ پر تھپڑ مروائیں گے، یہ ہماری ٹنڈیں کروادیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Sojhal Dharti Vas Ki Chothi Adbi Saqafati Conference

By Haider Javed Syed