’’ایک تھا میاں نواز شریف‘‘
میں میاں نواز شریف کو ایک بار پھر 1992ء میں لے جانا چاہتا ہوں، وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، فوج افغانستان، انڈیا اور امریکن پالیسی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی جب کہ وزیراعظم تمام امور اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتے تھے۔ غلام اسحاق خان صدر تھے، ان کے پاس 58(2B) تھی، یہ ایک صدارتی حکم کے ذریعے ملک کی تمام اسمبلیاں اور حکومتیں توڑ سکتے تھے، یہ بھی میاں نواز شریف سے نالاں تھے۔ یوں میاں نواز شریف کے خلاف محاذشروع ہوگیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا گیا، محترمہ نے 16نومبر 1992ء کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا، گو نواز گو کا نعرہ اس لانگ مارچ میں پہلی بار ایجاد ہوا تھا۔
میاں نواز شریف خوش قسمت انسان ہیں، قدرت انھیں ہمیشہ بڑے بحرانوں سے بچالیتی ہے، آپ میاں نواز شریف کی پوری سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ کوان کے پروفائل میں قسمت زیادہ اور صلاحیت اور پرفارمنس کم نظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہر سازش اور ہر بحران سے مکھن کے بال کی طرح نکال لیتا ہے، یہ جب بھی مار کھاتے ہیں، یہ اپنی سنگین غلطیوں کی وجہ سے کھاتے ہیں، یہ ہمیشہ آخر میں بم کو ٹھڈا مارتے ہیں اور دوبارہ پہلی سیڑھی پر چلے جاتے ہیں، میاں صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ اپنے لیے خود ہی کافی ہوتے ہیں۔ قدرت نے 1992ء میں بھی ان کا ساتھ دیا، میاں صاحب کی حکومت ایک ہفتے کی مہمان رہ گئی تھی کہ اچانک 8 جنوری 1993ء کو جنرل آصف نواز جنجوعہ کا انتقال ہوگیا۔
محترمہ کے کندھے سے ہاتھ ہٹ گیا، بحران ٹل گیا، جنرل عبدالوحید کاکڑ نئے آرمی چیف بنے، یہ خاموش طبع پروفیشنل سولجر تھے، یہ محلاتی سازشوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، جنرل کاکڑ نے فوج کو سیاست سے نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ادارہ اس وقت تک میاں نواز شریف کے خلاف ہوچکا تھا، آرمی چیف اپنے رفقاء کار کے دباؤ میں آ گئے اور یہ دو ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، صدر غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993ء کو میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کردی، قومی اسمبلی توڑ دی، میاں نواز شریف 25 اپریل کو سپریم کورٹ چلے گئے۔
قسمت نے ایک بار پھر یاوری کی سپریم کورٹ نے 26 مئی کو قومی اسمبلی اور میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی، میاں صاحب نے فوراً قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور 27 مئی کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا، آرمی چیف نے یہ فیصلہ قبول کرلیا تاہم صدر اور وزیراعظم کے دفاتر کے درمیان نئی لڑائی شروع ہوئی اور فوج ایک بار پھر اپنے سپریم کمانڈر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔"شیٹل ڈپلومیسی" شروع ہوئی اور آخر میں 18 جولائی 1993ء کو جنرل عبدالوحید کاکڑ تین جنرلوں کے ساتھ ایوان صدر گئے، اپنے سپریم کمانڈر صدر غلام اسحاق خان اور باس وزیراعظم میاں نواز شریف کو اکٹھا بٹھایا اور دونوں سے استعفیٰ لے لیا۔
میں میاں نواز شریف صاحب کو ایک بار پھر 1992ء میں لے جانا چاہتا ہوں اور ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں، آپ 1992ء اور 1993ء کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں، آپ کو محسوس ہوگا ملک کا طاقتور ترین ادارہ جب کسی کے خلاف ہوجاتا ہے تو خواہ آرمی چیف تبدیل ہو جائے، خواہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی جگہ جنرل عبدالوحید کاکڑ آ جائے فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا، فیصلہ اس بار بھی تبدیل نہیں ہوگا، وزیر دفاع نے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چار کور کمانڈرز اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ریٹائرمنٹ کی سمری پر دستخط کیے، کل نئے ڈی جی آئی ایس آئی اور چار نئے کور کمانڈرز کا نوٹیفکیشن بھی ہو گیا، وزیراعظم نے فیصلہ میرٹ پرکیا، جنرل رضوان اختر کا کیریئر بے داغ ہے، یہ کراچی کے حالات ٹھیک کر کے اپنی نیک نامی میں اضافہ بھی کر چکے ہیں۔
یہ یقینا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرح خود کو سیاست سے دور رکھیں گے، یہ کسی دھرنے، احتجاج یا جلسے کو سپورٹ نہیں کریں گے، یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا بھی خیال رکھیں گے، عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے بھی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ختم ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود خطرات قائم رہیں گے، یہ بحران اتنی آسانی سے نہیں ٹلے گا۔ میاں صاحب کے لیے اب حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا، یہ ایک بحران سے نکلیں گے تو دوسرا شروع ہو جائے گا، یہ اس سے نبٹیں گے تو دوسرا سانپ پٹاری سے باہر آ جائے گا، یہ اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں گے، یہ اسے ماریں گے تو بچھوؤں کا مرتبان ٹوٹ جائے گا اوریہ خود کو بچانے کے لیے کبھی دائیں بھاگیں گے اور کبھی بائیں اور کبھی آگے جائیں گے اور کبھی پیچھے۔
اب سوال یہ ہے میاں صاحب خود کو اس صورتحال سے بچا کیسے سکتے ہیں، میاں صاحب کے پاس صرف دو آپشن ہیں، یہ آصف علی زرداری کے ماڈل پر چلے جائیں یا پھر میاں شہباز شریف ماڈل کا انتخاب کرلیں، آصف علی زرداری صرف سیاست کھیلتے رہے۔ انھوں نے ملک کے ہر اس کھلاڑی اور ہر اس ادارے کو کسی نہ کسی چکر میں پھنسائے رکھا جس سے ان کے اقتدار کو نقصان پہنچ سکتا تھا، ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کسی نہ کسی ایشو میں الجھے رہے اور آصف علی زرداری نے اس الجھاؤ میں پانچ سال پورے کر لیے، میاں صاحب کے پاس پہلا آپشن یہ ہے، یہ آصف علی زرداری بن جائیں، یہ کچھ نہ کریں صرف پانچ سال پورے کریں۔
پانچ سال بعد حکومت عمران خان کے حوالے کر دیں اور خان صاحب کو اپنے اور زرداری صاحب کے حصے کی غلطیاں کرنے دیں، خان صاحب ایک آدھ سال میں ناکام ہو جائیں، مڈ ٹرم الیکشن ہوں، میاں صاحب اور آصف علی زرداری مل کر حکومت بنائیں اور یہ مل کر وہ سب کچھ کریں جو لوگ کرنا چاہتے ہیں، میاں صاحب کے پاس دوسرا آپشن میاں شہباز شریف ماڈل ہے، ملک کی تمام جماعتوں اور اداروں کو بہرحال کھلے دل سے یہ ماننا پڑے گا میاں شہباز شریف کام کرتے ہیں، پنجاب آج ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں سے آگے ہے اور لوگ سندھ، بلوچستان خیبر پختونخواہ، بلتستان، فاٹا اور کشمیر سے پنجاب میں آباد ہو رہے ہیں، کراچی کے 80 فیصد سیٹھوں نے اپنے دفاتر لاہور میں بنا رکھے ہیں اور یہ اپنے خاندان اسلام آباد شفٹ کررہے ہیں یا پھر لاہور۔
میاں صاحب کو بھی اپنی پوری حکومت کو لانگ شوز پہنا کر میاں شہباز شریف کی طرح پانی میں اتارنا ہو گا، یہ فوج کے ساتھ اپنے اختلافات کو کولڈ اسٹوریج میں رکھیں، افغان، انڈیا اور امریکن پالیسی سے چند برسوں کے لیے پیچھے ہٹ جائیں، فوج کو دل سے اپنا سپریم اور محب وطن ادارہ مانیں، اپنی پوری ٹیم کو ترقی اور تبدیلی کا چارٹر دیں اور جو شخص اٹھارہ گھنٹے کام نہ کرے، اسے فارغ کر دیں۔
میں آج بھی دل سے یہ سمجھتا ہوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں ہیں، یہ درست کہہ رہے ہیں۔ ملک کی خاموش اکثریت کو صرف ان کے طریقہ کار اور متبادل سسٹم کی عدم موجودگی پر اعتراض تھا، یہ لوگ اگر دھرنے کے بجائے آئینی طریقہ استعمال کرتے، یہ اچھی زبان اختیار کرتے، یہ دن کو سیلاب زدگان کے ساتھ ہوتے اور رات کو دھرنے میں آتے، یہ باقاعدہ متبادل نظام دیتے، یہ چھوٹے صوبوں کو ساتھ ملا لیتے، یہ کنٹینروں کے بجائے ورکروں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوتے، ان کے خاندان بھی ان کے ساتھ ہوتے، ان پر بین الاقوامی اور لوکل اسکرپٹ کا الزام نہ لگتا اور یہ لوگ 14 اگست 2014ء کے بجائے 14 اگست 2015ء کو باہر نکلتے تو میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو چکی ہوتی، میری میاں صاحب سے درخواست ہے، آپ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا منگوائیں اور اس پورے ایجنڈے کو اپنی حکومت کا منشور بنا لیں۔
آپ فیصلہ کر لیں آپ کی حکومت ایک سال میں اس پورے ایجنڈے پر اسی فیصد عمل کرے گی، آپ سادگی اختیار کریں، میٹنگ نہ کریں، فیصلے کریں اور ان فیصلوں پر عمل کرائیں، آپ اپنے پورے خاندان کے اثاثے ڈکلیئر کردیں، خاندان کو سیاست سے باہر نکال دیں، بلدیاتی الیکشن کرائیں، شہروں، قصبوں اور دیہات پر توجہ دیں، اپنی ٹیم میں اضافہ کریں، دوسری پارٹیوں کے اچھے لوگوں کو ساتھ شامل کریں، رضا ربانی، اعتزاز احسن، خورشید محمود قصوری، شاہ محمود قریشی، مشاہد حسین سید، سردار آصف احمد علی، ہمایوں اختر، فاروق ستار، غلام احمد بلور، اسد عمر اور سراج الحق شاندار لوگ ہیں، آپ انھیں اقتدار میں شامل کریں، ریٹائر جرنیلوں اور سابق آرمی چیفس کی مدد بھی حاصل کریں، آپ صرف اقتدار کو انجوائے نہ کریں، ملک کی قیادت کریں، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو فارغ نہیں کر سکے گی۔
آپ کو بہرحال پوری حکومت کو میاں شہباز شریف بنانا ہو گا یا پھر آصف علی زرداری ورنہ دوسری صورت میں اگلا بحران آپ، آپ کی پارٹی اور آپ کی سیاست تینوں کے لیے آخری کیل ثابت ہو گا اور آپ صرف سیاسی کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائیں گے اور اگلی نسل یہ کہہ کر آپ کو یاد کرے گی "ایک تھا میاں نواز شریف"۔