اگر یہ الیکشن نیوٹرل ہو گئے
سیف اللہ ابڑو لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں، انجینئر ہیں اور دو کنسٹرکشن کمپنیوں کے مالک ہیں، آصف علی زرداری سے دوستی کی وجہ سے لاڑکانہ کے زیادہ تر ترقیاتی ٹھیکے انہیں ملتے رہے، اربوں روپے کمائے، دولت کے بعد شہرت اور اقتدار انسان کی اگلی منزل ہوتی ہیں، یہ بھی اقتدار میں آنا چاہتے تھے، 2013ءمیں پیپلز پارٹی سے ایم پی اے کا ٹکٹ مانگا، انکار ہو گیا، آزاد الیکشن لڑا، ہار گئے، 2018ءمیں ایک بار پھر ٹرائی کی اور اس بار بھی نہ جیت سکے، کاری گر انسان ہیں۔
یہ 2018ءکے آخر میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، دو سال پارٹی کی خوب خدمت کی، حلیم عادل شیخ ان کی نوازشات کا مرکز تھے، آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے جعلی اکاؤنٹس پکڑوانے میں بھی مدد کی، پارٹی نے ان تمام تر خدمات کے بدلے میں انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا، سندھ کے کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا، حیدر آباد، سکھراور نواب شاہ کے پارٹی عہدیداروں نے گورنر سندھ کو خط بھی لکھ دیا اور یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو گیا۔
سیف اللہ ابڑو واحد مثال نہیں ہیں، پاکستان تحریک انصاف نے اس بار متنازع ٹکٹوں کا انبار لگا دیا، آپ بلوچستان کے عبدالقادر کی مثال لے لیں، یہ بھی کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں، ارب پتی ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خاندانی دوست ہیں، صادق سنجرانی کے ساتھ بھی ان کے مراسم ہیں، 2014ءمیں پی ٹی آئی جوائن کی، دھرنے کے دوران خدمات سرانجام دیتے رہے، 2015ءاور 2018ءمیں آزاد حیثیت سے سینیٹ کا الیکشن لڑا، رقم بھی خرچ کی لیکن کام یاب نہ ہو سکے، یہ بھی اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے لیکن سردار یار محمد رند راستے کی رکاوٹ بن گئے، یہ اپنے بیٹے سردار خان رند کو ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے، یارمحمد رند کی تھپکی سے سوشل میڈیا میں شور ہوا، میڈیا نے خبر اچھالی اور عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے لیا گیا، اب عبدالقادر اور سردار خان رند دونوں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے اور ظاہر ہے یہ ووٹ خریدنے کی کوشش بھی کریں گے۔
سندھ کے کارکنوں نے فیصل واوڈا کے ٹکٹ پر بھی اعتراض کر دیا، فیصل واوڈا این اے249سے ایم این اے ہیں، آبی وسائل کے وفاقی وزیر بھی ہیں لیکن الیکشن کمیشن میں ان کی نااہلی کا کیس چل رہا ہے، یہ امریکی شہریت رکھتے تھے، الیکشن قواعد کے مطابق انہیں کاغذات نامزدگی سے قبل شہریت سے دست بردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے شہریت لیٹ چھوڑی، یہ اڑھائی سال سے نااہلی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ اب زیادہ دنوں تک بچ نہیں سکیں گے چناں چہ پارٹی نے انہیں نااہلی سے بچانے کے لیے سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا۔
کارکن یہ ٹکٹ بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں چناں چہ شور ہو رہا ہے۔ پنجاب کے ایم پی ایز ڈاکٹرز رقا تیمورپر بھی اعتراض کر رہے ہیں، ڈاکٹر صاحبہ 2010ءمیں پی ٹی آئی میں شامل ہوئی تھیں، ن لیگ کے لوگ ان کے بارے میں پروپیگنڈا کر رہے ہیں یہ عمران خان کی سکن اسپیشلسٹ ہیں، یہ ان کے چہرے پر بیوٹیکس کے انجیکشن لگاتی ہیں اور یہ ٹکٹ انہیں ان کی ان خدمات کے صلے میں دیا گیاتاہم یہ بات غلط ہے، ڈاکٹر زرقا پڑھی لکھی اور مہذب خاتون ہیں۔
یہ اچھا فیصلہ ہیں لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی کے ایم پی ایز ووٹ نہ دینے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں اور ن لیگ انہیں یہ بہانہ فراہم کر رہی ہے، یہ ٹکٹ بھی متنازع ہو رہا ہے، ان کی کورنگ امیدوار فرحت شہزادی بھی متنازع ہیں، یہ عرف عام میں فرح خان کہلاتی ہیں اور یہ خاتون اول کی دوست اور احسن جمیل گجر کی دوسری اہلیہ ہیں، کارکن اس ٹکٹ کو بھی ہضم نہیں کر پا رہے، ترجمانوں کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ہوتا، ایک اور متنازع امیدوار لیاقت ترکئی ہیں۔
یہ کے پی کے میں سینئر وزیر شہرام ترکئی کے والد ہیں، ارب پتی ہیں، پارٹی نے پہلے نجیہ اللہ خٹک کو ٹکٹ دیا تھا لیکن ترکئی فیملی کے دباؤ میں آ کر نجیہ اللہ خٹک سے ٹکٹ واپس لے کر لیاقت ترکئی کو دے دیا گیا، ترجمانوں کے پاس اس یوٹرن کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ آپ اب پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف آ جائیے، پارٹی محمد زبیر کو پنجاب سے سینیٹ کا ٹکٹ دینا چاہتی تھی، یہ مریم نواز کی ٹیم میں شامل ہیں، ان کے قریب بھی ہیں لیکن پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں ان پر اعتراض کیا گیا اور یوں یہ ٹکٹ سے محروم ہو گئے۔
پارٹی کا دوسرا بڑا حیران کن فیصلہ راجہ ظفرالحق ہیں، راجہ ظفر الحق پیدائشی مسلم لیگی ہیں، 1993ءسے ن لیگ میں ہیں، 86 برس کے سمجھ دار اور بردبار انسان ہیں، پانچ مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے اور اس لحاظ سے سینئر ترین پارلیمنٹیرین ہیں، یہ اس بار بھی ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن میاں نواز شریف نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا، کیوں؟ اس کے بارے میں خبر گردش کر رہی ہے، مشاہد اللہ خان زیادہ علیل ہیں، یہ ٹکٹ کے طلب گار تھے اور میاں نواز شریف علالت میں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔
یہ پرویز رشید کو بھی ہر صورت سینیٹ میں دیکھنا چاہتے تھے اور بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ کے احسانات بھی فراموش نہیں کرنا چاہتے تھے چناں چہ راجہ ظفر الحق کی گنجائش نہیں نکل رہی تھی، یہ بہرحال راجہ صاحب جیسے سینئر سیاست دان کے ساتھ زیادتی ہے، میاں نواز شریف کو چاہیے تھا یہ راجہ صاحب کو بلا کر انہیں اپنی مجبوری بتاتے تاکہ یہ ٹکٹ کی درخواست ہی نہ کرتے اور سیاست سے باعزت رخصت لے لیتے لیکن ان سے درخواست لے کر انکار کرنا یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے اور میاں نواز شریف کو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا یوسف رضاگیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کے میدان میں اتارنا بڑا معنی خیز ہے، گیلانی صاحب سمجھ دار اور ہر قسم کے موسم سے گزرے ہوئے سیاست دان ہیں، یہ کبھی گیلی زمین پر قدم نہیں رکھتے، یہ پارٹی کا اثاثہ بھی ہیں، پارٹی کا فیس ہیں، ان کی ہار پارٹی کی ہار ہو گی اور پارٹی اور گیلانی صاحب دونوں یہ نہیں چاہیں گے چناں چہ ان کو وفاق سے الیکشن لڑانا ایک بڑی سیاسی چال ہے اور یہ چال صرف آصف علی زرداری ہی چل سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن، مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیں گی لیکن انہیں اس کے باوجود مزید12 سے 15 ووٹ درکار ہوں گے اور یہ ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ یہ ایک ارب روپے کا سوال ہے، پاکستان تحریک انصاف کا خیال ہے پیپلز پارٹی ہمارے ووٹ چوری کرے گی، یوسف رضاگیلانی کا مقابلہ حفیظ شیخ کے ساتھ ہے، آپ وقت کا ستم دیکھیے، حفیظ شیخ 18 مارچ 2010ءسے 19 جون 2012ءتک یوسف رضا گیلانی کے ماتحت رہے ہیں۔
گیلانی صاحب وزیراعظم تھے اور حفیظ شیخ ان کی کابینہ میں وزیرخزانہ لیکن آج یہ دونوں گلیڈی ایٹر بن کر ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں، اگر حفیظ شیخ یہ یدھ ہار جاتے ہیں تو پھر حکومت شدید بحران کا شکار ہو جائے گی، اس کا وزیر خزانہ بھی اُڑ جائے گا اور یہ عملاً وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد بھی ہو گا، عمران خان کو پھر وزیراعظم نہیں رہنا چاہیے، مجھے کل حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار بتا رہے تھے یوسف رضا گیلانی انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ اسلام آباد سے الیکشن لڑ رہے ہیں، فیصلہ ساز قوتیں گیلانی صاحب کو موقع دے کر صادق سنجرانی کی تحریک عدم اعتماد میں 14 سینیٹرز کی چوری کا کفارہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
یہ قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ بھی حکومت کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتیں، سینیٹ آنے والے دنوں میں ایک اہم کارڈ ہو گا اور یہ لوگ اس کارڈ کو اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، یوسف رضا گیلانی آنے والے دنوں میں یہ کارڈ ثابت ہوں گے، یہ چیئرمین سینیٹ بن کر طاقت کے ترازو کو بیلنس رکھیں گے لہٰذاسینیٹ کے الیکشن ایک اہم سنگ میل ہیں، یہ سنگ میل مستقبل کی سیاست کا رنگ اور ڈھنگ طے کرے گا، پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہو گا اور حکومت کے آنے والے دن کیسے ہوں گے؟ یہ فیصلہ تین مارچ کی رات ہو جائے گا۔
پاکستان کی ایک طاقتور شخصیت نے دوسری طرف ہفتے کے روز لندن میں میاں نواز شریف سے رابطہ کیا، یہ ان کی صحت معلوم کرنا چاہتے تھے، میاں صاحب کو کہا گیا آپ کی پارٹی بھی چل رہی ہے، ملک میں سیاست بھی ہو رہی ہے، مستقبل میں بے شمار نئے مواقع آئیں گے اور آپ ان مواقع کا فائدہ بھی اٹھائیں گے، میراآپ کو مشورہ ہے آپ صرف اور صرف اپنی صحت پر توجہ دیں، جان ہے تو جہان ہے، جان نہیں تو کچھ بھی نہیں، میاں نواز شریف نے ان کا شکریہ ادا کر دیا لیکن بات آگے نہیں بڑھائی، میں نے میاں صاحب کے قریبی لوگوں سے اس رابطے کی تصدیق کی۔
ان لوگوں کا کہنا تھا میاں نواز شریف بات آگے نہیں بڑھانا چاہتے، ان کا خیال ہے سیاسی مخالفت کو صرف سیاسی مخالفت تک رہنا چاہیے تھا، اس میں بہو، بیٹیوں اور ماؤں بہنوں کو شامل نہیں کرنا چاہیے لہٰذا یہ کسی قسم کا ڈائیلاگ نہیں چاہتے، یہ صرف "دباؤ بڑھاتے جاؤ اور نتیجہ دیکھتے جاؤ" کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ان کا جتنا نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا، حکومت اب ان کا اس سے آگے مزید کچھ نہیں بگاڑ سکتی لہٰذا یہ سائیڈ پر بیٹھ کر حکومت کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ چاہتے ہیں یہ کھیل خود بخود اپنے انجام تک پہنچے، میرا ذاتی خیال ہے یہ وہ بیک ڈور رابطہ تھاجس کے بارے میں فواد چودھری نے منگل 16 فروری کو ٹویٹ کی اور حکومت جس کی بنیاد پر دعویٰ کر رہی ہے "مریم نواز بھی باہر جانا چاہتی ہیں " یہ بات ٹھیک ہے یا غلط میں سردست کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ حقیقت ہے حکومت سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اور میاں نواز شریف کا پاسپورٹ ختم ہونے کے بعد اس رابطے کی وجہ سے پریشان ہے، یہ سمجھتی ہے یہ الیکشن اگر نیوٹرل ہو گئے یا میاں نواز شریف کو نیاپاسپورٹ جاری ہو گیا تو پھر حکومت نہیں بچ سکے گی اور حکومت کا یہ خوف غلط نہیں۔