جاگیرداری و قبائلی نظام کی تباہ کاریاں
عجیب حکومت ہے، شوگرملز مالکان کو اربوں روپے سبسڈی دی تو چینی دگنی سے زیادہ مہنگی ہوگئی، پٹرول چند روپے سستا کیا تو غائب ہوگیا اور جب مہنگا کیا تو نہ جانے کہاں سے نکل آیا؟
موجودہ حکومت میں معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے کہ کورونا، سیلاب، مہنگائی، گندم چینی کا بحران، سارے مسائل اس کے دور میں آگئے ہیں، گندم ابھی کھیتوں میں تھی کہ مارکیٹ سے غائب، حکومت نہیں بلکہ انوری کا گھر ہے؟
شاید پاکستان کے حکمران یہ تسلیم نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قحط کی صورت حال ہے، عوام کی اکثریت بھوک کا شکار ہے، اگر آج کی اشیائے خوراک، ایندھن اور سروسز کے نرخوں کو دیکھا جائے اور ان کا موازنہ ملک کی اکثریت کی آمدنی سے کیا جائے تو ایک بات بہت واضح ہوتی ہے کہ جس رقم پر ایک خاندان ایک مہینے تک گزارا کرتا تھا، اسی رقم میں اب ایک ہفتہ بھی گزارا نہیں ہوتا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ غریب کم کھاتے ہیں اور خوراک کو زیادہ عرصے تک استعمال کرتے ہیں، اکثر لوگ اور محنت کش رات کو بھوکا سوتے ہیں، غریبوں کے گھر اکثر جھونپڑ پٹیوں (slums)اور گندے علاقوں میں ہوتے ہیں، وہاں صرف بیماریاں بستی ہیں، کسانوں کے گھر بھی کچے ہوتے ہیں، ذرا سی بارش میں گر کر بہت سی جانوں کو ختم کردیتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی کے منشور میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے اور زرعی اصلاحات کا وعدہ تو کیا جاتا ہے، لیکن ان وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں تمام پارٹیاں دھوکے بازی سے کام لے رہی ہیں، جاگیرداری اور سرداری نظام موجودہ دور میں بھی تاریخ کے کباڑ خانے میں پڑے ہیں، پاکستان کے حکمران اور مذہبی طبقے جاگیرداری، قبائلی اور سرداری نظام کی مسلسل حمایت کرتے چلے آرہے ہیں، اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو جاگیرداری، سرداری اور قبائلی نظام ختم کرنا ہوگا۔
اگر خیبر پختونخوا میں قبائلی اور بلوچستان سے سرداری نظام ختم کردیا جائے تو غریب طبقے آزاد ہوجائیں گے، پھر وہ اپنی زرعی زمینوں کے مالک بھی ہوں اور جو ہنر مند ہیں مرضی سے کام کرسکتے ہیں، پنجاب اور سندھ میں جاگیردار اور بڑے زمینداروں کا راج ہے، خیبر پختونخوا کے زرعی ایریاز بھی بڑے زمینداروں کے قبضے میں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازیخان اور راجن پور وغیرہ جیسے قبائلی علاقے بھی موجود ہیں۔
تین دہائیوں سے زرعی اصلاحات کا مسئلہ کولڈ اسٹوریج میں پڑا ہوا ہے، اب تک پاکستان میں جاگیردار، مذہبی اور سرکار کا مراعات یافتہ طبقہ ہزاروں ایکڑ قابل کاشت زرعی زمین کا مالک ہے۔ زرعی اصلاحات پر عمل درآمد نہ کرنے کی بنیاد، سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے 1980ء کے ایک فیصلے کو بنایا گیاہے۔
"مذہبی بنیادوں پر قائم ٹرسٹس"اور جاگیرداروں کو اس فیصلے سے بہت فائدہ ہوا، یوں ملکی سیاست پر آج بھی ان جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، بڑے خاندانوں اور با اثر افراد کا قبضہ ہے۔ محترم عابد حسین منٹو کی اس فیصلے کے خلاف اپیل 2011ء سے سپریم کورٹ میں پڑی ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی سماعت جلد ہو۔
تنازعہ اس وقت شروع ہواجب پنجاب کے ایک خیراتی ٹرسٹ کو ذوالفقار علی بھٹو کی 1977کی زرعی اصلاحات کے تحت اپنی کافی اراضی سے محروم ہونا پڑا، اس ٹرسٹ یا وقف نے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں کیس دائر کردیا، اس کے علاوہ بھی کئی ایسی درخواستیں زرعی اصلاحات کے خلاف دائر کی گئی تھیں، 1990ء میں ان درخواستوں کا فیصلہ ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت نے ان درخواستوں کی مخالفت نہیں کی، افسوس اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی جمہوری حکومتوں میں بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔
پاکستان کی موجودہ بدترین صورت حال اور عوامی سطح پر بھوک کی صورت حال کا تقاضہ ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
جاگیرداری یا(Feudalism) میں زمینیں ایک سے چھین کردوسروں کو دی جاتی ہیں، یہ طریقہ کار بطور رشوت، بادشاہوں اور پھر انگریزوں نے رائج کیا تھا، ان کا طریقہ کار نہ اسلامی تھا اور نہ جمہوری، انھوں نے حکومت کے زور پر پورے برصغیر کے حقوق کو پامال کیا، لاکھوں کسان خاندانوں سے کئی قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے تھے، ان پر اتنا بوجھ تھا کہ جسم وجان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہورہا تھا پھر سرکار کے نام پر ان سے یہ زمینیں لے کر بڑے لوگوں کو خدمات کے عوض دی گئیں، جن کی وجہ سے یہ کسان بے زمین ہاری یا دہقان اور مزارع بن گئے۔
اصولی طور پر ایک فلاحی ریاست میں کسی فرد واحد، خاندان، ٹرسٹ یا کنسورشیم کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ لامحدود وسائل پر قبضہ کرلے، وسائل کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، اکثر یت کو محرومی سے دو چار کردیتا ہے۔ اجارہ داریوں اور دولت کمانے کے چکر میں اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے چلی جاتی ہے، آبادی کی اکثریت کے پاس زندگی گزارنے کے لیے وسائل نہیں بچتے، جب کہ اقلیت تمام وسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔
یہ دنیا میں ہو رہا ہے اورپاکستان میں بھی یہ صورت حال درپیش ہے۔ لاکھوں کسانوں کو بھوکا مار کر چند جاگیردار، اور قبائلی سردار گھرانوں کو راحت دینا آخر کیسے اسلامی ہو سکتا ہے؟ جب قرآنی آیات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ زمین اﷲ کی ہے تو اس پر تمام مخلوق کا حق تسلیم کرنا ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جاگیرداری کے خاتمے کا نعرہ سرمایہ داروں کا ہے، سوشلسٹ انقلاب میں یہ بعد میں شامل ہوا۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت پر مسلط کردہ یہ بھوک غیر ضروری ہے اور اس کو ٹالا جا سکتا ہے اگر حکومتیں اپنی پالیسی صحیح لائن پر بناتیں تو یہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا، اس بحران کی ذمے دار، نامناسب اقتصادی پالیسیاں، گلوبلائزیشن اور عالمی اداروں کی اجارہ داری ہے، ان اداروں نے عالمی سطح پربھوک اور بے روزگاری کے مسئلے کو مزید پھیلا دیا ہے، پاکستان میں ان مسائل کی ذمے دار جاگیرداری اور قبائلی زمین کے نام پر زمین کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، اگر اس اراضی کو تقسیم کردیا جاتا تو لاکھوں خاندانوں کے فارم بن سکتے تھے، وہ خاندان برسرروزگار ہو کر ملک کی اقتصادی حالات میں بہتری کا کردار ادا کرسکتے تھے۔
اس مسئلے کا تعلق چونکہ پوری قوم سے ہے اس لیے اس کو چند جاگیردار خاندانوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، قانون ساز اداروں میں بھی اسی طبقے کی اکثریت براجمان ہے۔ زرعی اصلاحات میں صرف حد ملکیت کا تعین نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے علاوہ مالک اور کسان کے درمیان پیداوار کی منصفانہ تقسیم، کھیت مزدور کی مزدوری کا تعین، قرضوں اور دیگر مراعات کے حصول کے لیے کسانوں کی رسائی ممکن بنانا، زرعی ادویات کی سستے داموں فراہمی، ہل اور کٹائی وغیرہ کے وقت ٹریکٹروں اور دیگر مشینوں کے ریٹ کا تعین ہونا بھی ضروری ہے۔