سقوطِ ڈھاکہ
جہاں کی تاریخ یہی کہ تاریخ سے کچھ نہ سیکھا، جہا ں حافظے کمزور، معدے مضبوط، وہاں بھلا کسی کو کیا لگے ماضی سے، اوپر سے ماضی بھی ’’یادِماضی عذاب ہے یار ب۔ ۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘ والا۔ ۔ لیکن کیاکروں، 46 سال ہونے کو آئے، ملک ٹوٹے، بنگلہ دیش بنے، مگر ابھی بھی دسمبر چڑھتے ہی آنکھیں بھیگنے، خشک ہونے لگیں، بہانے بہانے ’’ ، ، یاد آئے اوراس بار تو معروف اسکالر، محقق جنید احمد کی کتاب "Creation of Bangladesh Myths Exploded" نے سارے ہی زخم ہرے کر دیئے، جو سنی سنائی باتیں ہم تک پہنچیں، کتاب میں ان کا دوسرا رُخ، وہ کہانیاں، مفروضے جو ہمیں کسی اور رنگ وروپ میں دکھائے گئے، کتاب میں کسی اور رنگ ڈھنگ سے، جنیداحمد کی محنت، تحقیق، قابلیت اور تاریخی باریک بینی کی ایک جھلک حاضرِ خدمت، مگرتمام سوالوں کے جوابات اور حتمی نتیجے پر پہنچنے کیلئے کہ حقائق جان بوجھ کر چھپائے گئے، نظر انداز ہوئے، حقائق تک کسی کی رسائی ہی نہ ہوپائی یا پھر ہرا یک نے اپنا اپنا سچ یا جھوٹ بولا، ان سب کیلئے یہ کتاب پڑھنا ضروری!
بات شروع کرتے ہیں، ہمیں بتایا گیا کہ 93 ہزار پاکستانی فوجی ہتھیار ڈال کر قیدی بنے، پتا چلا کہ یہ تو پروپیگنڈا، باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنگلہ دیشی اور بھارتی میڈیا کا پھیلایا ہوا، اسی کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی آگے بڑھایا، حقیقت یہ کہ فوجیوں کی کل تعداد 34 ہزار، پولیس، رینجرز، اسکاوٹس اور ملیشیا 11 ہزار، یوں لڑاکا فوج 45 ہزار، لیکن بھار ت نے بچوں، عورتوں، شہری وفوجی انتظامی افسروں، انکے عملے، ڈاکٹروں، نرسوں، نائیوں، موچیوں اور تمام سویلینزکو فوجی بنا کر تعداد93 ہزار تک پہنچا دی۔
دوسری بات یہ پھیلائی گئی کہ تقسیم کی ایک وجہ مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کا اقتصادی ومعاشی استحصال، یعنی مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان میں نہ کوئی ترقیاتی کام کروایا، ہر معاشی میدان میں بنگالیوں کو نظرانداز کیا، یہ بات عوامی لیگ نے اس خوبصورتی سے پھیلائی کہ عام بنگالی تک ہمنوا بنا اور ایک وقت آیا کہ پورے مشرقی پاکستان کی رائے یہی کہ بنگال تو سونے کی چڑیا، یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہیں، ہمیں محروم رکھا جا رہا، ہمارا پیسہ مغربی پاکستان پر لگ رہا، یہاں جان بوجھ کر ملک کے دونوں حصوں کے تاریخی اقتصادی عدمِ توازن کو بھی نظر اندازکردیا گیا، کسی نے یہ توجہ بھی نہ دی کہ صوبہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی مغربی پاکستان بھی مشرقی پاکستان جیسا ہی تھا، کسی نے یہ بھی نہ سوچاکہ آئے روز کے سیلابوں نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے پیچھے دھکیل دیا اورکسی نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مشرقی پاکستان تو 1943 سے قحط کی لپیٹ میں، مورخین اور ناقدین ملک کے دونوں حصوں کا موازنہ کرتے ہوئے دانستہ طورپر ایک ہی تصویر پیش کرتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی ترقی کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی اور بتایا یہ جاتا رہا کہ بنگال میں خوراک مہنگی، آمدنی کم اور بے روزگاری زیادہ، لیکن اصل کہانی یہ تھی کہ پہلے دن سے ہی مشرقی پاکستان کی ترقی کیلئے کوششیں شروع کی گئیں، بے روزگار بنگالیوں کو پٹ سن کے ان کارخانوں میں روزگار فراہم کیا گیا جو مغربی پاکستان کے صنعت کاروں نے وہاں قائم کئے، ’(یاد رہے پاکستان بنتے وقت بنگال میں ایک بھی پٹ سن کا کارخانہ نہ تھا، تب وہاں سے خام پٹ سن بھارت برآمد کیا جاتا تھا) پھر مرکزی حکومت نے صنعتی ترقیاتی کارپوریشن، سرمایہ کاری کارپوریشن اور صنعتی ترقیاتی بینک کے ذریعے وہاں صنعتی قرضے دلوائے، سرمایہ کاری کروائی اور چٹاگانگ بندرگاہ، چندر گوناپیپر مل، فینچو گنج، فرٹیلائزر کمپلیکس، فولاد کا پہلاکارخانہ، ریلوے وروڈ سسٹم، فضائی کمپنی، دریائی گزرگاہوں کی تعمیر وترقی مرکزی حکومت کی مرہون منت۔
ایک مفروضہ یہ بھی گھڑا گیا کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں پر اپنی ثقافت مسلط کی، گوکہ کمزور سیاسی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے بروقت اس تنازع پر توجہ نہ دی اورایک مخصوص سازشی ٹولے نے معاملے کو اتنا بگاڑ دیا کہ اُردو زبان سے ہی نفرت کی جانے لگی، حالانکہ ثقافتی تسلط کیلئے تو زبان کے ساتھ ساتھ لباس، موسیقی اور غذا کو بھی بدلا جانا چاہیے تھا، لیکن اس حوالے سے کبھی کسی نے کوئی کوشش نہ کی، حقیقت یہ تھی کہ اُردو کو ملک کے دونوں حصوں میں اس لئے لاگو کیا گیا کہ ایک توقیام پاکستان سے پہلے یہی رابطے کی زبان، دوسرا مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان کے صوبوں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں بھی اس وقت علاقائی زبانیں بولی جاتی تھیں لہذا پورے ملک کے کیلئے ایک زبان کا ہونا ضروری تھا اور اُردو یقیناً بہترین چوائس تھی، اگر یہ معاملہ اتنا سنجیدہ اور اہم ہوتا تو سے پہلے اور بعد میں فردوسی بیگم، شہناز بیگم، عالمگیر، شبنم اور رونا لیلیٰ جیسے نام اُردو کو کیوں اپناتے اس سے کیوں محبت کرتے۔
ایک کہانی یہ بھی گھڑی گئی کہ’’ اگر تلہ سازش، ، کیس مغربی پاکستان کی افسرشاہی کی اختراع، یہ من گھڑت، مقصد مجیب الرحمان کو غدار قرار دینا، جیسا کہ سب کو معلوم کہ اگر تلہ سازش کا الزام مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کے دیگر رہنماؤں پر تب لگا جب ملک دولخت کرنے کیلئے ہندوستانی ایجنسیوں سے انکے رابطے ثبوتوں کیساتھ پکڑے گئے، شروع میں تو اسے مغربی پاکستان کا کیا دھراہی کہا گیا مگر جب agartala doctrine جیسی کتابیں آئیں، ہندوستانی دانشوروں، فوجی افسروں اورانٹیلی جنس افسروں کے انکشافات سامنے آئے تو پتا چلا کہ مجیب اور اسکے ساتھی سازش کر رہے تھے، یہ بہت پہلے پکڑا جا تا اگر 1962 میں چین، بھارت اور 65 میں پا ک، بھارت جنگیں نہ ہوتیں، 1967 میں حکومت ِ پاکستان کو سازش کا پتا چلا، 12 جولائی 1967 کو شیخ مجیب سمیت 35 افراد کے خلاف مقدمے قائم کر کے گرفتاریاں ہوئیں، لیکن پھر عوامی دباؤ اور بھٹو صاحب کے اصرارپر 23 فروری 1963 کو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ ’’را‘‘انہی دنوں بنی، اسپیشل فر نٹیئر فورس اور مکتی باہنی بھی اسی زمانے میں وجود میں آئیں، مگر چونکہ تاریخ ہمیشہ کامیاب قوموں کا ساتھ دیتی ہے لہذا اگر تلہ سازش سے تک تمام ملبہ پاکستان پر پھینک دیا گیا۔
یہ کہانی بھی باقاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائی گئی کہ شیخ مجیب بنگالی قوم کا نجات دہندہ، پوری دنیا کو باور کرایا گیا کہ مجیب نے مظلوم بنگلہ دیشیوں کو آزادی دلوائی، حقیقت یہ کہ مجیب اقتدار کا بھوکااور مرکزی حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ انتخابات جیتنے کے باوجود مجیب الرحمان کو اقتدار نہ دیا گیا، یہ درست کہ اسے اقتدار ملنا چاہیے تھا مگر یہ بھی اک حقیقت کہ مجیب کو بھار ت سے مسلسل فنڈز، تربیت یافتہ لوگ اور اسلحہ مل رہا تھا، بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ہر معاملے میں جلتی پر تیل ڈالتا رہا، گوکہ تقسیم کے بعد مجیب ہیرو کہلایا مگر جلدہی اسکی حقیقت سامنے آگئی، سیاہ کارنامے، ظلم وستم سامنے آئے اور جب اقتدار کی خاطر اس نے اپنے ہی لوگوں کو مروانا شروع کر دیا تب ایک دن آزادی کے وہ سپاہی جواس پر جان چھڑکتے تھے، اُنہوں نے ہی اسے قتل کر دیا۔
یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ مغربی پاکستان کی افسر شاہی نے ’’آپریشن سرچ لائٹ ‘‘ کی آڑ میں بے گناہ بنگالیوں کو قتل کیااور اس آپریشن کی آڑ میں فوج نے قتل وغارت و آبروریزی کی، حالانکہ حقیقت یہ کہ جب یحییٰ خان نے مارچ 1971 کو انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو پہلے سے تیار بیٹھے عوامی لیگ کے غنڈے چُھروں، تلواروں، درانتیوں اور ڈنڈوں سے مسلح ہو کر سٹرکوں پہ نکل آئے، ایک منصوبہ بندی کے تحت توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور قتل وغارت گری شرو ع کردی گئی اور 31 مارچ 1971 کو آپریشن شروع ہونے تک اس ایک ماہ میں ہزاروں بے گناہ قتل ہو چکے، سینکڑوں خواتین کی آبروریزی ہوچکی، جگہ جگہ قومی پرچم کی توہین کی گئی، جیلیں ٹوٹ چکیں، امریکی و برطانوی اداروں پر حملے ہوچکے اور اس تمام درندگی کا ماسٹر مائنڈ مجیب الرحمان اپنی رہائش گاہ دھانی منڈی سے مسلسل ہدایات دے رہا، جب نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جرائم پیشہ افرا د نے اپنے تھانے اور چوکیاں بنانا شروع کیں تو فو ج کو آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے عوامی لیگ کی قیاد ت اور اس کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت ملی لیکن آپریشن شروع ہی ہوا تھا کہ نہ صرف بنگالی رجمنٹوں اور ایسٹ بنگال رائفلزنے بغاوت کر دی بلکہ رات کے اندھیرے میں اپنے مغربی پاکستان کے فوجی ساتھیوں کو سوتے ہوئے اہل وعیال سمیت مار ڈالا، لہٰذا ان مشکل گھڑیوں میں انسانی زندگیاں بچانے اور امن قائم کرنے کیلئے فوج کو یہ آپریشن کرنا پڑا، مگر اتنا وحشیانہ یا سفاکانہ ہرگز نہ تھا، جتنا مشہور کیا گیا۔ (جاری ہے )