پُل صراط !
سوال ہی ایسا تھا، سوچ سوچ پریشان، جواب سے کوسوں دور لیکن سوال کیا، یہ بتانے سے پہلے سوال کرنے والے کے بارے میں بتادوں، آغا جی (ان کی خواہش پر ان کا اصلی نام نہیں بتارہا)، ہمارے جم فیلو، واک پارٹنر، 6فٹ قد، گورا چٹا رنگ، چست، پھرتیلے، جگت باز، شاعر، مصنف، سابق سفیر، وزیر، اپنے وقتوں کے بیڈمنٹن چیمپئن، ہاکی، کرکٹ کے اچھے کھلاڑی، آغا جی، مطالعہ، مشاہدہ کمال کا، سیاست بازی، سفارتکاری، ادب، تصوف، سائنس، فلم، ڈرامہ نگاری، تھیٹر، کھیتی باڑی، کون سا موضوع جو ان کی دسترس سے باہر، ایک شام ٹرمپ کا ذکر چھڑا، ٹرمپ پر ڈھائی گھنٹے بول گئے، ایک دوپہر دال چنے کی بات ہوئی، سوا گھنٹہ دال چنا کی بات کردی، ایک دن کسی نے شعر سنا دیا، وہیں کھڑے کھڑے اس شعر کے جواب میں 20 شعر سنا دیئے، آغاجی، عمر 80 سال، صحت ایسی کہ پورے جم میں "ینگ مین، مشہور، آغا جی، ہمیشہ کہیں جو روزانہ 5نمازیں نہیں پڑھتا، 3نیکیاں نہیں کرتا، کسی کتاب کے 10 صفحے نہیں پڑھتا، 3 میل واک نہیں کرتا، دن میں 16 بار مسکراتا نہیں اور جو روزانہ 3 کپ ادرک والا قہوہ نہیں پیتا، وہ زندہ نہیں، اسے مُردوں میں شمار کیا جائے۔ اب آجائیں سوال پر، گزشتہ شام واک کے بعد ہم ادرک والا قہوہ پینے کیلئے کیفے پر تھے، ذکر چھڑا سیاست کا، بات پہنچی سیاستدانوں پر، چپ چاپ سب کچھ سنتے آغا جی بولے "اجازت ہو تو ایک سوال کر لوں" ہم دونوں بیک وقت بولے "ضرور، ضرور" کہنے لگے "1981 میں نواز شریف صاحب کی سیاست شروع ہوئی، آج 2019، 38 سال ہو گئے، کوئی بتا سکتا ہے کہ ان 38 برسوں میں محمد خان جونیجو سے آصف زرداری تک، غلام مصطفیٰ جتوئی سے چوہدری شجاعت تک، نوابزادہ نصراللہ سے جاوید ہاشمی تک وہ خوش نصیب کون جس سے نواز شریف نے وفا کی اور وزیرخزانہ پنجاب سے تیسری بار وزیراعظم بننے تک کوئی ایک معاہدہ، وعدہ، بات جس پر میاں صاحب آخری لمحوں تک کھڑے رہے" یہ کہہ کر آغاجی نے قہوے کا گھونٹ بھرا، کرسی سے ٹیک لگائی، آنکھیں موندیں، کہا "تمہارے پاس 15 منٹ، تمہارا ٹائم شروع ہوتا ہے" اب۔ آغا جی خاموش ہوئے، ہم دونوں نے سوچنا شروع کر دیا، سوچ سوچ جھلے ہو گئے، نہ کوئی بندہ ذہن میں آئے جس نے میاں صاحب کی وفا پائی، نہ وہ وعدہ، دعویٰ جس پر میاں صاحب ڈٹے رہے، 5منٹ کی سوچ بچار کے بعد میں نے بے بسی کے عالم میں دوست، نامور ٹی وی اینکر عادل عباسی کی طرف دیکھا، وہی عادل عباسی جس کی وزیراعظم کے دورئہ امریکہ رپورٹنگ کی دھوم مچی ہوئی، جب عادل عباسی نے بے بسی کے عالم میں گردن دائیں بائیں ہلا دی تو میں نے ہتھیار ڈال دیئے، کہا "آغا جی ہم نے ہار مان لی، آپ ہی بتادیں"۔ آغا جی نے آنکھیں کھولیں، آگے کی طرف جھکتے ہوئے زیر لب مسکرا کر بولے "جواب بہت آسان، 38سالہ سیاست میں نواز شریف صاحب نے کسی ایک سے بھی وفا نہ کی اور کوئی وعدہ، معاہدہ ایسا نہیں جو میاں صاحب نے پایہ تکمیل تک پہنچایا، جس پر ڈٹے رہے"، یہ کہہ کر آغا جی نے قہوے کا گھونٹ بھرا، چند لمحے خاموش رہ کر کہا "اچھا ایک سوال اور، یہ بتائیں بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد کچھ نہ سے سب کچھ ہو جانے والے زرداری صاحب نے 3حکومتیں بھگتائیں، صدر رہے، 11 سال سے سندھ میں حکومت، کوئی محکمہ، شعبہ جوان سے بچ گیا ہو" یہ سن کر عادل عباسی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "آغا جی کوئی ایک بھی محکمہ، شعبہ نہیں جو بچا ہو"، آغا جی نے قہقہہ لگا کر کہا "جواب درست"۔ میں نے کہا آغا جی ایک سوال میرا بھی، بولے "پوچھو" میں نے کہا "عمران خان کو سال ہو گیا، 12 مہینوں میں ہی مہنگائی، ٹیکسوں نے بھرکس نکال دیا، ڈالر آسمانوں پر، غریب، تنخواہ دار، کاروباری طبقہ رُل گیا، بیڈ گورننس، اوپر سے وعدے، دعوے، نعرے ابھی تک دلی دور است، پورے ملک میں مایوسی، بے یقینی، خوف و ہراس کی فضا، بنے گا کیا، آگے ہو گا کیا، میرا سوال بڑے اطمینان سے سن کر آغا جی پُرسکون لہجے میں بولے "اگر عمران خان کی ٹیم ٹھیک ہوتی، جزا، سزا کا نظام ہوتا، گدھے، گھوڑے میں تمیز ہوتی، زبانوں کا کام دماغوں سے لیا جاتا تو صورتحال بہت بہتر ہوتی لیکن چونکہ یہ نہ ہوا، لہٰذا وہ ہوا، جو نہیں ہونا چاہئے تھا، اب اگلے 3ماہ کی کارکردگی، فیصلے بہت اہم، یہ 3 ماہ فیصلہ کریں گے عمران خان کی سیاست کا، آغا جی کی بات ختم ہوئی، ہم اٹھے اپنی اپنی گاڑی کی طرف چل پڑے، آغا جی دوبارہ بولے "یاد رہے اگلے 3 ماہ عمران خان کیلئے پل صراط"۔
پچھلے دو دنوں سے میرے ذہن میں آغا جی کا فقرہ اٹکا ہوا اگلے 3ماہ عمران خان کیلئے پل صراط، مجھے معلوم جو عمران خان کا ایجنڈا وہ ان کی مضحکہ خیز ٹیم کے بس کی بات نہیں، مجھے معلوم ہماری سیاست ایسی، کوئی سیکھنے، عبرت پکڑنے کیلئے تیار نہیں، کل تک غداری کے فتوؤں سے تنگ مسلم لیگ کے سپوت ایاز صادق آج عمران خان پر غداری کے فتوے لگا رہے، کل تک مذہبی فتوؤں سے گھائل احسن اقبال آج مذہبی فتوؤں سے گھائل کررہے، مجھے معلوم زرداری صاحب کے اندر ہو جانے کے باوجود بھٹو والوں نے کچھ نہ سیکھا، ابھی کل ہی جسٹس گلزار کہہ رہے تھے، محکمہ صحت میں اسامیاں 37، لوگ بھرتی کر لئے307، دو دو لاکھ میں نوکری بیچی جا رہی، کوئی خوفِ خدا، سندھ میں حکومت نامی کوئی شے ہے؟، مجھے معلوم پچھلے حکمرانوں نے ملک کو یوں ماسی کا ویہڑا، نانی کا گھر سمجھا ہوا تھا کہ ممنون حسین 31 دورے کھڑکا گیا، 7 سعودی عرب کے ذاتی دورے بھی سرکاری خرچ پر، 27 کروڑ 82 لاکھ خرچہ، 74 لاکھ کے تحفے بانٹے، ایک کروڑ ٹپ دیدی، یوسف رضا گیلانی نے 48دورے فرمائے، دو ہزار 67افراد کو سرکاری خرچے پر سیریں کرائیں، 9 ذاتی دورے سرکاری خرچ پر، ایک کروڑ ٹپ دیدی، راجہ پرویز اشرف 6 مہینوں کی وزارت عظمیٰ لاٹری میں 9دورے، سعودیہ، اجمیر شریف کے 2ذاتی دورے سرکاری خرچ پر، 3 سو 98 لوگوں کو سرکاری خرچ پر سیر سپاٹے کرائے، 10 کروڑ 69 لاکھ خرچہ، 8 لاکھ کے تحفے بانٹے، 47 لاکھ ٹپ، اب آپ ہی بتائیں، یہ موجی، مفتے فنکار چاہیں گے کہ عمران خان کامیاب ہو، تبھی تو سازشیں ہی سازشیں، بارودی سرنگیں ہی بارودی سرنگیں، منظم پروپیگنڈا، اوپر سے مشکل ترین حالات، نااہل ٹیم، چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے، پھر وقت کم مقابلہ سخت، آغا جی نے سچ کہا "عمران خان اب پل صرا ط پر"۔