پانامے ہی پانامے
ہروقت حکمرانوں کو کوسنے ، ہر لمحے بڑوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنانے اور ہر پل چسکے لے لے کر دوسروں کی دونمبریوں کی تشہریں کرنے والے اگر چند لمحے نکال کر اپنے گریبانوں میں جھا نک لیں تو ہر ایک کو اپنے اندر حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق ’’پانامے ہی پانامے‘‘ ملیں ۔
پہلے ذرا اپنا گذرا کل ملاحظہ ہو !
زندگی کے آخری دنوں قدرت اللہ شہاب یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے کہ !
جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے ، یہاں پہلے میرپور کا وہ پرانا شہر ہوا کرتا تھا کہ جو اُن دنوں جنگ کی نذر ہو کر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا ، ایکدن میں ایک مقامی افسر کے ساتھ جیپ میں اسی کھنڈر بنے شہر کے گردونواح میں گھوم رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک مفلوک الحال بوڑھے اور اسکی بیوی پر پڑی جو گدھے پر دو بوریاں رکھ کر سڑک پر جارہے تھے ، جونہی ہماری جیپ ان کے قریب آئی تو بوڑھے نے ہا تھ کے اشارے سے رکنے کو کہا ، ہم رکے تو میلے کچیلے کپڑوں اور ٹوٹے پھوٹے جوتوں والا بوڑھا قریب آکر بولا’’بیت المال کس طرف ہے ؟‘‘ (آزاد کشمیرمیں سرکاری خزانے کو تب بیت المال کہا جاتا تھا) میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے پوچھا ’’آپ بیت المال کا کیوں پوچھ رہے ہیں ‘‘ بوڑھے نے لمحہ بھر کیلئے مجھے غور سے دیکھا اور پھر بولا’’ دراصل میں اور میری بیوی نے میر پور شہر کے ملبے سے سونے اور چاندی کے زیورات کی دوبوریاں جمع کی ہیں اور اب میں انہیں بیت المال میں جمع کروانا چاہتا ہوں ‘‘ میں نے اسی وقت ایک پولیس اہلکار کو بلوا کر گدھا اس کے حوالے کیا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کو اپنے ساتھ جیپ میں بٹھا کر بیت المال تک لے گیا ، یہاں تک بات سنا کر قدرت اللہ شہاب خاموش ہو کر سر جھکا لیا کرتے اور چند لمحوں بعد جب وہ دوبارہ سر اُٹھاتے تو انکی آنکھیں بھیگ چکی ہوتیں اور پھروہ گلو گیر لہجے میں کہتے ’’میں آج تک پچھتا رہا ہوں کہ میں ان بوڑھے میاں بیو ی کے ساتھ سیٹ پر کیوں بیٹھا تھا ، مجھے تو انہیں سیٹ پر بیٹھا کر خود انکے قدموں میں بیٹھنا چاہیے تھا‘‘ ۔
اب ذرا اپنے ’آج ‘ پر ایک نظر مار لیں !
چھوٹی باتوں اور معمولی قصے، کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر 2005 میں زلزلے کی بات کر لیں یا ہر سال آتے سیلاب کا ذکر چھیڑ لیں یا پھر پچھلے 3 جہازوں کے حادثوں کا تذکرہ کر لیں ،مومنوں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر سب سے پہلے لوٹ مار کی ،مرنے والوں کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر مال سمیٹا ، مرے ہوؤں کے ہاتھ اور کان کاٹ کر زیورات نوچے اور کئی مسلمانوں نے تو لاشوں کی جامعہ تلاشی تک لی ، چلو اسے چھوڑیں ،ابھی پچھلے ماہ ایک غیر ملکی کمپنی کے سروے میں پتا چلا کہ’’ وطنِ عزیز کے 60 فیصد اسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیں استعمال ہو رہی ہیں ،50 فیصد اسپتالوں میں جعلی خون کی بوتلیں لگائی جار ہی ہیں ،اپنے 50 فیصد کارخانے مضرِ صحت گھی تیار کر رہے ہیں ،ہمارا 80 فیصد دودھ ،دودھ نہیں کمیکلز کا مرکب ہوتا ہے ، ہمارے بیسوؤں ہوٹلوں پر دن دیہاڑے گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلایا جارہا ہے ، سیوریج کے پانی سے یہاں سبزیاں اگائی جاتی ہیں ، شہد کے نام پر یہاں چینی ،شکر اور گُڑ کا شیرہ ملے ، سرخ مرچوں میں اینٹوں کابورا، مصالحوں میں جانوروں کی آ نتیں ،جوسز گلے سڑے پھلوں کا نچوڑ ، پھلوں میں میٹھے پانی کے ٹیکے اور تربوزوں میں سرخ رنگ کے انجکشن لگیں اور یہی سروے بتائے کہ’’ 90 فیصد جان بچانے والی دوائیاں جعلی ،گردے اب ڈاکٹر بیچ رہے اور نارمل طریقے سے بچے جننا اس لیئے کم ہو رہا کیونکہ اگر نارمل طریقے سے بچہ پیدا ہو گا تو پھراسپتال مال کہاں سے کمائیں گے ‘‘۔
اب آگے بڑھیئے ، اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب رشوت کو ’چائے پانی ‘ کہا جائے ، ناقص میٹریل سے بنی عمارتیں جب گرتی ہیں تو ملبا بنی لاشوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر دفنا دیا جائے ،اسی ملک میں ایک طرف 48 افراد جب جہاز حادثے میں جانیں گنوا بیٹھیں تو محکمے کا سربراہ بڑی معصومیت سے کہہ دے ’’ہمیں تو بڑی امید تھی کہ جہاز ایک انجن سے لینڈ کر جائیگا‘‘ ، یہ اپنا ہی ملک کہ جہاں ایک طرف سندھ کے 40 فیصد اور بلوچستان کے 80 فیصد علاقوں میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیءں ، وہ بھی اگرخوش قسمتی سے کوئی گھا ٹ مل جائے اور یہاں ایک طرف صرف بھتہ نہ ملنے پر 3 سو انسانوں کو زندہ جلادیا جائے ، لیکن دوسری طرف یہ ظلم و بربریت بڑے صبرو شکر سے سہتی ایسی مخلوق کہ جنکے صحنوں میں تو بھوک اور محرومی ناچ رہی لیکن وہ خود ’دیکھو دیکھو کون آیا‘ کی تھاپ پرمحوِرقص، اب کیا یہ بے انصافی سہنے اور غلامیاں کرنے کے قصور وا ر بھی حکمران اور بڑے ہی ؟ذرا اپنی تابعداری تو دیکھیئے کہ پنجاب کا 60 فیصد بجٹ جب اکیلے لاہور پر لگ جائے تو بنیادی سہولتوں تک سے محروم 7 کروڑ بھُکے ننگے ، مٹی کے مادھو بنے رہیں ، یہاں جیلوں اور حوالاتوں میں سینکڑوں افراد ناکردہ گناہوں کی سزا یوں بھگتیں کہ ابھی چند ہفتے پہلے جب سالہا سال قید بھگت کر ایک قیدی جیل میں مر کر دفن بھی ہو گیا تو ایک عدالت بولی ’’ارے وہ تو بے قصور تھا ‘‘ اور پھر ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جار ہے ، ہمارے 10 کروڑ لوگ کم خوراکی کا شکار ، ہمیں اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے بھی خوار ہونا پڑے اور ہمیں جائز کام کیلئے بھی رشوتیں دینا پڑیں مگر روزانہ بے عزتیاں کروا کر ہم پھربھی ہر جرم کے بعد وکٹری سائن بناتے ’ٹا ٹا بائی بائی‘کرتے مجرموں کے صدقے واری جارہے ،اب بتائیں چپ چاپ یہ سب سہتے رہنا، کیا یہ قصور بھی ہمارے بڑوں کا ہی؟
چلو اگر طبقہ اشرافیہ کی ان کرتوتوں پر اپنی لمبی چپ کو جہالت یا بزدلی سمجھ کر نظر انداز بھی کردیں تو بھی ہمارا بہت کچھ ایسا کہ جو ہضم نہ ہوسکے ، جیسے کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جو قائداعظم کے مزار کی بیسمنٹ میں غیر شادی شدہ ’جوڑوں ‘کو کرائے پر کمرے دیتے پکڑے گئے ، کیا یہ ہم ہی نہیں جو بچوں سے جنسی زیادتی اور قبروں میں دفن مردوں کو بھی نہ بخشیں ، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کی زبانیں جھوٹ کی عادی ہو چکیں ، غیبت جن کا طرۂ امتیاز ،الزام تراشی اور بہتان کے جوچیمئن اور خوشامد اور جی حضوری میں جو پی ایچ ڈی ،کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کے پڑوسی تو بھوکے لیکن ہم عمرے پہ عمرے کیئے جا رہے اور جو بہنوں ،بھائیوں کا حق مار کر الحاج بن چکے ، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کی آنکھوں میں شرم نہیں ، جنہیں اپنی زبانوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور اگر کوئی غرض ہو تو دشمن بھی باپ اوراگر مطلب نہ ہو تو سگا باپ بھی اجنبی، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کا اپنا اپنا مذہب اور اڑھائی اینٹ کی اپنی اپنی مسجداور کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جو بظاہر تو امتِّ مسلمہ کے ٹھیکیدار مگر اصل میں گلی اور محلے دار بھی ہم سے تنگ اور پھر حضورِ والا ! مسجدوں اور مدرسوں کے نام پر کروڑوں جمع کر کے لاکھوں بھی نہ خرچنے والے ،سو د پر قرض دے کر اصل رقم سے زیادہ سود بٹورنے والے ،پٹواری کو ملا کر کمزوروں کی زمینیں ہڑپ کر جانے والے ، بڑی چالاکی سے بے کار مال کو کار آمدپیکنگ میں مہنگے داموں بیچنے والے ، آنکھ بچا کر ناپ تول میں کمی بیشی کرجانے والے ، سرِ عام قلم بیچنے اور بیانگ دہل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دینے والے اور پیسوں کیلئے ملکی وقار تک کو داؤ پر لگا دینے والے، یہ سب کون ہیں ، کیا یہ سب صرف حکمران ہی کر رہے یاپھر یہ سب کوئی ہم سے بندوق کے زور پر کروا رہا، نہیں حضورِوالا نہیں ، یہ سب ہم ہی کر رہے ،اوریہ سب کچھ ہم اپنی مرضی اور اپنی منشا سے کررہے اور روز کررہے ،تبھی تو کہہ رہا ہوں کہ ہر وقت حکمرانوں کو کوسنے ،ہر لمحے بڑوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنانے اور ہر پل چسکے لے لے کر دوسروں کی دو نمبریوں کی تشہریں کرنے والے اگر چند لمحے نکال کر اپنے گریبانوں میں جھا نک لیں تو ہر ایک کو اپنے اندر حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق ’’پانامے ہی پانامے‘‘ ملیں ۔