یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
رات سونے سے قبل ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی رہنمائوں کے گھروں پر پولیس کے کریک ڈائون اور سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کی سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے گھر پر پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی کی فوٹیج دیکھ کر طبیعت مکدّر ہوئی، یہ سوچ کر دماغ چکرایا کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور جمہوریت ان کے نزدیک محض حصول اقتدار کا زینہ ہے، ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے سے ایوان اقتدار میں پہنچو اور پھر آئین، قانون، اقدار و روایات اور سماجی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر وہ سب کچھ کر گزرو جو صدیوں قبل قبائلی معاشرے میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور اپنی ہیبت قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
ریاستی اداروں کا استعمال، پکڑ دھکڑ اور چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی۔ صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ پولیس نے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے پوتے بیرسٹر ولید اقبال کی گرفتاری کے لیے لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج اور ہیومن رائٹس کمیشن کی فعال رکن جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کے گھر پر چھاپہ مارا، پولیس اہلکار زبردستی گھر میں داخل ہوئے اور اکیاسی سالہ باوقار بزرگ خاتون کو ہراساں کیا، جسٹس (ر) جاوید اقبال مرحوم کی بیوہ اور علامہ اقبالؒ کی بہو کے گھر پولیس بھیجنے والوں کو شرم آئی نہ گھر میں داخل ہونے والے اہلکاروں کے قدم احساس ندامت نے روکے، یہ پولیس اہلکار اور انہیں روانہ کرنے والے شاید جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ علامہ اقبالؒ نے جس مسلم ریاست کا خواب دیکھا تھا وہ اب اقتدار کے بھوکے اور دولت کے پجاری سیاسی بونوں کے قبضے میں ہے جن کا نظریہ حیات شکم پروری ہے اور مقصد سیاست اپنے ذاتی، خاندانی، جماعتی مفادات کا تحفظ۔
پولیس خانوادہ اقبالؒ کو یہ احساس دلانے میں کامیاب رہی کہ پاکستان اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر اسلامی، فلاحی، جمہوری ریاست نہیں، ایک فاشسٹ پولیس سٹیٹ ہے جس میں رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی گنجائش نہیں اور قانون، اخلاقیات، تہذیب و شرافت محض ایک خواب ہے، دیوانے کا خواب۔
جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کے دو صاحبزادوں میں سے ایک بیرسٹر ولید اقبال تحریک انصاف سے وابستہ ہیں لیکن دوسرے صاحبزادے منیب اقبال اب بھی مسلم لیگ کے شیدائی ہیں اور ملک و صوبے کے حکمران ان سے بخوبی واقف۔
علامہ اقبال اور بیگم ناصرہ اقبال نہ سہی پولیس مسلم لیگ سے وابستہ منیب اقبال کا ہی احترام کرتی اور چھاپے سے باز رہتی تو اس کا کچھ نہ بگڑتا اور قوم بھی آسودہ خاطر کہ کم از کم اقبالؒ کا خانوادہ پولیس گردی سے محفوظ ہے مگر پھر یہ پنجاب پولیس کیسے کہلاتی اور آئی جی پولیس اپنے باس کے سامنے سرخرو کیسے ہوتے؟ نصف شب سونے سے قبل ٹی وی چینلز پر پولیس کے باوردی اور بے وردی اہلکاوں کو حماد اظہر، فرخ حبیب، عثمان ڈار اور دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کے گھروں میں کودتے دیکھ کر میں نے سوچا کہ خدانخواستہ اگر کسی گھر کا سربراہ یا سکیورٹی گارڈ انہیں چور، ڈاکو اور دہشت گرد سمجھ کر حفاظت خود اختیاری (سیلف ڈیفنس)کے تحت جوابی کارروائی کر دے تو اس بے چارے کا کیا قصور؟ آخر محکمے کے سربراہان اتنی معمولی بات سوچے بغیر اہلکاروں کو کیوں غیر قانونی ڈیوٹی تفویض کرتے ہیں، صبح پتہ چلا کہ ایک پولیس اہلکار کمال احمد اس غلط کاری کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب حکمران اور ان کے قصیدہ گو معصوم بچوں کے باپ کی شہادت پر اپنی سیاست چمکانے میں مشغول ہیں، واقعی سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں شرم نہیں۔
بیگم ناصرہ اقبال کے گھر پر رات گئے شب خون کی اطلاع پر مجھے مشیر کاظمی مرحوم کی ایک نظم یاد آ گئی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد کہی اور یوم اقبالؒ پر پڑھ کر ملک بھر سے داد وصول کی۔ مجھے یقین ہے آج مشیر کاظمی زندہ ہوتے، بیگم ناصرہ اقبال کا وڈیو بیان دیکھتے تو مصور پاکستان کو چشم تصور میں لا کر ایسی ہی مرثیہ نما نظم کہتے، اس قانون شکنی، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ اپنی بہو کی دل آزاری پرآزردہ خاطر و رنجیدہ اقبالؒ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میرے خوابوں کے مسکن پر کیسے کیسے جمہوریت کے علمبردار جمہوریت کش لفنگے مسلط ہیں۔
مشیر کاظمی کی نظم پڑھتے ہوئے سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ کو ذہن میں لائیے، اسباب و واقعات کا احاطہ کیجئے اور باقی ماندہ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کی سوچ، کردار اور طرز عمل پر غور فرمائیے۔ نظم کے چوتھے مصرعے "یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں " میں معمولی تصرف کی جسارت کرتے ہوئے میں نے آدھا کی جگہ "ایسا" لکھا ہے جس کی پیشگی معذرت ؎
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو "ایسا" گوارا نہیں
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
کچھ تمہاری سیاست کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
نقشۂ ایشیاء میں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارا نہیں
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو"ایسا" گوارا نہیں