یہ کیا نہیں‘ وہ ہوا نہیں‘ یہ ملا نہیں‘ وہ رہا نہیں
2019ء گزر گیا، ہر سال کی طرح یہ بھی کسی کے لئے مسرت و شادمانی کا سال تھا اور کچھ کے لئے مصائب و مشکلات کا دور۔ حاصل و موجود سے بیزاری اور لاحاصل کی تمناّ وبے قراری انسان کی سرشت میں ہے۔ الاّ ہر حال میں خوش اور مطمئن رہنے والے بندگان خاص۔ سال گزرنے پر عموماً ہم کیا کھویا، کیا پایا پر غور کرتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جو کھویا وہ اپنی ہی غلطیوں، کمزوریوں اور بے تدبیریوں کا صلہ تھا اور یہ مقام شکر ہے کہ زندگی کا ایک مزید سال اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے ملا ہے، چاہیں تو نئے سال کو اپنے اور دوسرے کے لئے قابل رشک بنا سکتے ہیں۔ شاعر مزدور احسان دانش مرحوم نے ایک بار دوران گفتگو زندگی کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا ؎
حاصل زندگی، حسرت کے سوا، کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں
عام طور پر ہم زندگی کے شب و روز اسی حسرت و یاس میں گزار دیتے ہیں کہ کاش ہم یہ بھی کر لیتے، وہ بھی کر لیتے، معلوم نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے، وہ مل جاتا، یہ نہ کھوتے تو اطمینان و سکون، ترقی و خوشحالی کی کیفیت عجب ہوتی؟ ہرگز نہیں سوچتے کہ جنہوں نے یہ سب کچھ کر لیا، جنہیں دنیا جہان کی نعمتیں مل گئیں وہ کس حال میں ہیں۔ ہر لحاظ سے مطمئن و مسروریا حسرت و یاس، عبرت کا نمونہ۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے صنعت کار نیب میں پیش ہوئے تو ازرہ مروت میں نے انہیں اپنے دفتر میں چائے پلائی اور حال و احوال پوچھا، ماحول میں بے تکلفی کا عنصر غالب آیا تو میں نے سوال کیا، اتنا کچھ کما کر نیب کے چکر لگاتے ہوئے آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ چند منٹ گھورنے کے بعد بولے! یہ آپ نے کیا پوچھ لیا؟ آصف علی زرداری روحانی شخصیت پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنے گئے تو پہلی کوشش میں چائے کا کپ ٹھیک سے اٹھا نہ پائے، ہاتھوں پر رعشہ طاری تھا اور چہرے پر بے بسی کا تاثر، انسان مگر زود فراموش ہے، زیادہ سے زیادہ کی خواہش اُسے مگن رکھتی ہے۔ قناعت کو وہ کم ہمتی سمجھتا ہے اور حاصل و موجود پر مطمئن نہیں ہو پاتا۔ کثرت کی خواہش انسان کو قبر تک چین نہیں لینے دیتی اور اس سے مغلوب ہو کر وہ اخلاقیات، اقدار، رشتوں اور اردگرد کو بھول جاتا ہے۔
اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے انسان حیلہ جوئی و بہانہ سازی کا سہارا لیتا ہے۔ غلبہ واقتدار کی خواہش ہو یا دولت کا جنون جب انسان پر غلبہ پا لے تو کوئی نہ کوئی اخلاقی جواز وہ گھڑ ہی لیتا ہے۔ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے اور معاشرے کو جنت بنانے کا خواب، بہت سے اللہ کے بندے خلوص نیت سے یہ خواب دیکھتے اور موقع ملے تو کر گزرتے ہیں مگر اکثریت؟ تاجر کی گراں فروشی، ناجائز منافع خوری، حکمران کی مسرفانہ زندگی اور اقربا پروری، دوست نوازی، بیورو کریٹ کا عوام دشمن رویہ اور اپنے ماتحتوں سے غیر انسانی سلوک، عالم کی فتویٰ فروشی اور صحافی کی ژولیدہ فکری، خود پرستی؟ یہ معاشرے کو سدھارنے اور دوسروں کو آسودہ کرنے کے لچھن ہیں یاہوس زر، ہوس اقتدار اور غلبے کی جبلت کا ثبوت۔ دوسروں کی آسودگی کے حقیقی خواہش مندوں کو دولت کے انبار درکار ہوتے ہیں نہ اقتدار و اختیار کے جھمیلوں میں پڑنا گوار۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخشؒ، حضرت معین الدین اجمیریؒ اور سینکڑوں دوسرے ایثار پیشہ بندگان خدا، صدیوں سے انسانوں میں آسانیاں بانٹ رہے ہیں۔ مزارات پر حاضری دینے والوں کو ذہنی سکون کے علاوہ تین وقت کا کھانا بھی دستیاب ہے اور ان سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ مستحق ہیں یا نہیں؟ حضرت ابوالحسن خرقانیؒ نے اپنی درگاہ کے دروازے پر جلی الفاظ میں لکھوایا تھا"ہر کہ دریں جا، مے آیدازنانش بہ پُر سید و از ایمانش مپرسید"(جو بھی یہاں آئے اس سے کھانے کا پوچھو مسلک و عقیدے کی تفتیش نہ کرو)
یہ اقتدار، دولت اور وسائل مانگنے والے نہیں، احسان کرنے والے لوگ ہیں جو گزرے سال کا ماتم کرتے ہیں نہ آئندہ سال سے بے جا امُیدیں وابستہ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ چند برس کی ریاضت، بے غرضی، بے نیازی اور عوام دوستی مرنے کے بعد ان کے مزارات کو بھی فیض رساں بنا دیتی ہے، اللہ تعالیٰ ایسوں پر کرم کرتا ہے تو پھر حدو حساب سے معاملہ آگے نکل جاتا ہے۔ یہ کرم یافتہ لوگ معروف دانشور اشفاق احمد کے بقول"عاجز ہوتے ہیں، پوری عقل کے باوجود سیدھے سادے، تیزی نہیں دکھاتے، الجھاتے نہیں، رستہ دیتے ہیں، روکتے نہیں، غصہ نہیں کرتے، سادہ بات کرتے ہیں، میں نے ہر کرم یافتہ کو مخلص دیکھا، غلطی کو مان جاتا ہے معذرت کر لیتا ہے، سرنگوں ہونے میں دیر نہیں کرتا، جن پر کرم ہوا انہیں دوسروں کے لئے فائدہ مند پایا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے کسی کو نفع ہو رہا ہو اور اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کشادگی پیدا نہ کرے، وہ اور کرم کرے گا، میں نے ہر صاحب کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے، اس کا درجن تیرہ کا ہوتا ہے بارہ کا نہیں۔ حساب پر چلو گے تو حساب ہی چلے گا، دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ہے۔ دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ہے جب زندگی کے معاملات الجھ جائیں اڑ جائیں سمجھو تم نے دوسروں کے معاملات الجھا رکھے ہیں اڑائے ہیں، آسانیاں دو آسانیاں ملیں گی۔"
یہی آسانیاں بانٹنے والے لوگ آج بھی زندگی میں اور بعداز مرگ آسانیاں بانٹ رہے ہیں، لاکھوں نہیں کروڑوں انسان ان کے طفیل آسانیاں بانٹنے کی جدوجہد میں مشغول۔ ہم مگر اہل غرض اور اہل ہوس سال گزرنے پر بیٹھ کر اس ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ ع
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں