Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Yahan Tak To Aaye Wo Majboor Ho Kar

Yahan Tak To Aaye Wo Majboor Ho Kar

یہاں تک تو آئے وہ مجبور ہو کر

جگر مراد آبادی کس موقع پر یاد آئے ؎

تجاہل، تغافل، تکلم، تبسم

یہاں تک تو آئے وہ مجبور ہو کر

بندوق کے زور پر مذاکرات نہ کرنے کی رٹ لگانے والے حکمران اتحاد نے بالآخر تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی مذاکرات آگے بڑھتے ہیں یا شیخ رشید احمد کے بقول محض جھانسہ اور دھوکہ ہیں، جلد پتہ چل جائے گا، پچھلے سال نو اپریل کے بعد جس طرح ہماری سیاسی جماعتیں، آئین کے پاسدار اور جمہوریت کے علمبردار عناصر اور طاقتور حلقے ایکسپوز ہوئے ہیں ماضی میں کبھی نہیں، ایک بھرم تھا، جو ٹوٹا تو ٹوٹتا ہی چلا گیا۔

جن لوگوں کی زبان سے ہمیشہ 1973ء کے آئین کا ذکر سنا وہ آئین سے بدکتے ہیں، جو الیکشن کو ہر مسئلے کا حل بتایا کرتے تھے اب الیکشن کا نام سن کر بائولے ہو جاتے ہیں اور جنہیں مذاکرات سے عشق تھا وہ مذاکرات سے یوں بھاگتے ہیں جیسے کوّا تیر کمان سے، مولانا فضل الرحمن ہر بات 1973ء کے آئین کے تناظر میں کرنے کے عادی تھے اور مذاکرات کے سب سے بڑے چمپئن مگر مذاکرات ہی سے خائف ہیں اور 1973ء کے آئین کی نوّے دن والی شق تو ان کے لئے ڈرائونا خواب بن چکی ہے یہی حال پیپلز پارٹی اے این پی و غیرہ کا ہے میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ(ن) کو ان سب اتحادیوں نے قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے اور چاہتے سب یہ ہیں کہ وہ سپریم کورٹ اور عوام کے سامنے ڈٹ جائیں، نتائج کی پروا نہ کریں مگر فکر و عمل کا تضاد ہے کہ چھپاتے نہیں چھپتا۔

بدھ کے روز پارلیمنٹ میں ہونے والی دھواں دھار تقریروں اور مختلف پریس کانفرنسوں سے لگتا تھا کہ جمعرات ساڑھے گیارہ بجے جب کورٹ نمبر ون میں ایک ہی روز الیکشن والے کیس کا آغاز ہوگا تو اٹارنی جنرل اور حکمران اتحاد کے وکیل فاروق ایچ نائیک فاضل ججوں کے سامنے سپیکر قومی اسمبلی کا خط لہرائیں گے، پارلیمنٹ کی سپریمیسی والا راگ درباری الاپیں گے اور میاں شہباز شریف و بلاول بھٹو کے پالیسی بیانات کے عین مطابق تین رکنی بنچ اور اس کے سابقہ فیصلوں کو کسی صورت میں نہ ماننے کا اعلان کریں گے، عدالت عظمیٰ کو بتائیں گے کہ چونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو غیر سیاسی جماعت ڈیکلیر کر دیا ہے اور آصف علی زرداری بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ایک ہفتے کی جو مہلت ہم نے آپ سے مانگی تھی اس کے اختتام تک مذاکرات ہوئے، نہ آئندہ ہوں گے، لہٰذا اپنا اور ہمارا وقت مزید ضائع نہ کریں مگر ہوا اس کے برعکس دونوں بھیگی بلی بنے راگ ملہار گاتے، معصومیت سے عدالت کو یہ باور کراتے رہے کہ مذاکرات کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ جو وکیل اور رپورٹر کورٹ روم نمبر ون میں اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک آتش فشانی گفتار کا مشاہدہ کرنے پہنچے تھے انہیں سخت مایوسی ہوئی ؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا

سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین حیران ہیں کہ جب حکمران اتحاد تین رکنی بنچ کو مانتا ہی نہیں تو اس کا وکیل اور نمائندہ منت ترلاکیوں لیتے ہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی میں منی/ فنانس بل پیش کیوں کرتے ہیں؟ اور قوم بنی اسرائیل کی طرح حیلہ جوئی بہانہ سازی سے نامنظوری کا طوق پارلیمنٹ کے گلے میں کیوں ڈالتے ہیں، خود فیصلے سے انحراف کا کریڈٹ کیوں نہیں لیتے اور جس فیصلے کے خلاف کل قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں، سپیکر نے فاضل چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو خط لکھ ڈالا، تین ججوں کو استحقاق کمیٹی میں طلبی کی دھمکی دی گئی، اس کے ایک پیرا سے ڈر کر وزیر اعظم میاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے پر کیوں تُل گئے، فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے صرف اتنا لکھا کہ اگر حکومت فنانس بل منظور نہیں کرا سکتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایوان کا اعتماد کھو چکی، لیکن ساتھ یہ وضاحت کر دی کہ ہم اس طرف نہیں جا رہے، اٹارنی جنرل کے اس بیان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وزیر اعظم ایوان کے اعتماد سے محروم نہیں ہوئے، شیخ رشید احمد کا اندازہ درست ہو سکتا ہے کہ حکومت مذاکرات کو وقت گزاری کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے، وہ 14مئی کے الیکشن سے جان چھڑانے کے لئے عدالت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کا جھانسہ دے رہی ہے مگر فل بنچ کے سامنے اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک کے معذرت خواہانہ طرز عمل، سینٹ سیکرٹریٹ میں مذاکرات کے سیشن اور اعتماد کا ووٹ لینے کی مشق سے صاف لگ رہا ہے کہ حکومت پر عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی، آئین شکنی کے باعث نااہلی کا خوف طاری ہے اور وہ مذاکرات کو وقت گزاری کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ حکم عدولی کے مضمرات سے نمٹنے میں مصروف ہے، لیکن کیا بے مقصد اور طویل مذاکرات کے علاوہ اعتماد کے ووٹ سے حکومت پنجاب کے الیکشن کو 8اکتوبر تک ملتوی کر سکتی ہے؟ عدالت عظمیٰ کو بیک فٹ پر لایا جا سکتا ہے؟ اور حکم عدولی کے مضمرات سے نجات مل سکتی ہے۔

حکمران اتحاد کی کوشش اور خواہش یہ نظر آتی ہے کہ عام انتخابات کا اعلان اس وقت تک نہ ہو پائے جب تک کسی کیس میں عمران خان نااہل اور گرفتار نہیں ہو جاتے اور ان کے مہربان تحریک انصاف کو حصوں بخروں میں تقسیم کرنے کا کارنامہ انجام نہیں دیتے، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر متبادل منصوبہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ سے ٹکر لے کر وزیر اعظم نااہلی کا تمغہ سینے پر سجائیں اور حکمران اتحاد یہ بیانیہ لے کر عوام میں جائے کہ اس نے تو بہت زیادہ مقدار میں دودھ، شہد کا انتظام کر لیا تھا، نہریں بھی کھود لی تھیں جن میں دودھ شہد ڈال کر ہم نے عوام کے گھروں تک پہچانا تھا مگر جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ نے موقع ہی نہیں دیا اور جس طرح میاں نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکال کر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ روکا گیا انہیں بھی گزشتہ ایک سال کے دوران بڑھنے والی تباہ کن مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی ختم کرنے سے روک دیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈھونگ بھی اسی مقصد کی خاطر رچایا جا رہا ہے وگرنہ سب جانتے ہیں کہ اس پارلیمنٹ کی حیثیت اور اوقات کیا ہے اور اسے عوام کی حقیقی، نمائندہ، مضبوط اور قابل قبول پارلیمنٹ کے قیام کو روکنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

مذاکرات اگر سنجیدگی سے ہوئے تو تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن کرانے پر اتفاق ہو سکتا ہے اور نیک نیتی کی صورت میں باقی ماندہ اسمبلیاں اگلے ایک ڈیڑھ ہفتے میں تحلیل ہو سکتی ہیں لیکن اگر یہ جھانسہ یا دھوکا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) کو ہوگا جس نے اب تک پنجاب میں امیدواروں کی جانچ پڑتال نہیں کی، ٹکٹ جاری کرنا تو دور کی بات ہے، پیپلز پارٹی ٹکٹ جاری کر چکی ہے، 14مئی کے انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے مدمقابل قابل ذکر حریف ہوگی اور پی ٹی آئی کے منحرفین کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے مایوس امیدوار بھی اس کے سایہ عافیت میں پناہ لیں گے۔

میاں نواز شریف سعودی عرب سے واپس لندن جا چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ فی الحال وطن واپسی پر تیار نہیں، طبی بنیادوں پر میاں صاحب کی لندن میں موجودگی کا بیانیہ بھی "ووٹ کو عزت دو "کے بیانیے کی طرح دھبڑدھوس ہوگیا ہے اور انتخابات خواہ مئی میں ہوں یا اکتوبر میں مسلم لیگ کے لئے مشکل ٹاسک ہیں، اتحادیوں کی ہوس اقتدار اور عیّاری نے پنجاب کی ایک مقبول، مضبوط اور عملیت پسند جماعت مسلم لیگ کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو زرداری نے پیپلز پارٹی اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس ہنستے بستے، ترقی، خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ملک کے ساتھ کیا ؎

ناکامیٔ عشق یا کامیابی

دونوں کا حاصل خانہ خرابی

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry