وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وفاقی دارالحکومت میں سازشوں کا بسیرا روز اول سے ہے اور قیاس آرائیوں کی فراوانی بھی، بے یقینی کی جو فصل مگر گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ میں اُگی اورخوب پھلی پھولی وہ ماضی میں شائد و باید۔ یہ بے یقینی کا ثمر ہے کہ جو ڈالر فروری میں 174/175پر بآسانی دستیاب تھا اب دو سو روپے میں بھی جس خوش نصیب کو مل جائے وہ پھولا نہیں سماتا، غضب خدا کا طالبان کے افغانستان میں ڈالر کی قدرو قیمت نوّے پچانوے افغانی سے زیادہ نہیں مگر پاکستان میں دو گنا زائد، اقبالؒ نے بے یقینی کو غلامی سے بدتر بتایا ؎
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
اور یہ بھی کہا ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں، یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
غلطی ناداں اور دانا دونوں کرتے ہیں، جو کام دانا کرتا ہے وہی ناداں بھی کرتا ہے۔ فرق بس اتنا کہ دانا اپنی غلطی سے سبق سیکھتا اور فوری سدھار لیتا ہے ناداں ناقابل برداشت خمیازہ بھگتنے کے بعد دانا کے راستے پرچلتا اور تاعمر پچھتاتا ہے۔ یہی حالت اب ہماری حکمران اشرافیہ کی ہے، اندازوں کی غلطی تھی، عمران خان کی عوامی مقبولیت بالخصوص نوجوان نسل میں پذیرائی کا کسی نے گوشوارہ تیار کیا نہ بارہ تیرہ جماعتی اتحاد کی اہلیت و صلاحیت اور فیصلہ کرنے کی قوت پر سنجیدگی سے غور ہوا اور نہ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ عالمی سطح پر مہنگائی اور کساد بازاری سے متاثر پاکستان میں اس عفریت سے نمٹنے کے لئے جن غیر معمولی وسائل کی ضرورت ہے مخلوط حکومت ان کا بندوبست کیسے کریگی؟ بروقت نہ کرپائی تو گلشن کا کاروبار خوش اسلوبی سے چل پائے گا یا نہیں؟ بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ عمران خان جائے اور میاں شہباز شریف جناب آصف علی زرداری و مولانا فضل الرحمن کے جلو میں تخت اسلام آباد پر متمکن ہوں۔ ہم خوش ہمارا خدا خوش۔
1993ء میں میاں نواز شریف اور صدر غلام اسحق خان کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا تو دونوں اطراف سے حکمران پارٹی کے ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے جتن کئے جانے لگے، قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور میاں صاحب سے بدظن حامد ناصر چٹھہ بھی میدان میں اُترے، ایک صحافی نے چٹھہ صاحب سے پوچھا آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟ اور نواز شریف کا متبادل، مسلم لیگ میں سے کون ہو گا، عام سوچ یہی تھی کہ مسلم لیگی ارکان اور غلام اسحق خان بے نظیر بھٹو سے ہاتھ نہیں ملائیں گے اور ان ہائوس تبدیلی کی راہ ہموار کی جائیگی یہ سوال اسی تناظر میں ہوا، مُنہ پھٹ حامد ناصر چٹھہ نے ترنت جواب دیا "ہمارا مقصد واضح ہے نواز شریف جائے، خواہ اس کی جگہ کھٹومل رام ہی آ جائے" کھٹو مل رام سادہ لوحی اور سیاسی بے مائیگی کی شہرت رکھنے والے اقلیتی رکن قومی اسمبلی تھے۔ عمران خان حکومت کا خاتمہ کرتے وقت بھی شائد یہی سوچا گیا، کسی نے سیاسی نتائج و عواقب پر غور کیا نہ معاشی مضمرات کے بارے میں سوچا، نتیجہ معلوم۔
وفاقی دارالحکومت میں اب طرح طرح کی سازشی کہانیاں گشت کر رہی ہیں، معاشی ٹیکنو کریٹ کی زیر قیادت چار چھ ماہ کی نگران حکومت، عمران خان اور تحریک انصاف کو لانگ مارچ اور دھرنے کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی مشاورت اور سخت فیصلوں کے سیاسی نقصانات کی پروا کئے بغیر موجودہ اتحادی حکومت کو اگلے اگست تک برقرار رکھنے کی ضد۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور ان کے دیگر اتحادی اپنی جگہ سچے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ محض ڈیڑھ دو ماہ کے اقتدار کے لئے دائو پر نہیں لگائی تھی، اگر نئے انتخابات ہی ان کی کل کمائی ہے تو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد عمران خان نے اپوزیشن کی جھولی میں ڈال دیے تھے پھر عدالتی جنگ، لوٹا سازی، ایم کیو ایم، باپ اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی بلیک میلنگ کے علاوہ عمران خان کی تین سالہ کارکردگی کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ تو کوئلوں کی دلاّلی ہوئی جس میں ہاتھ مُنہ کالا۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز حیرت زدہ ہیں کہ مسلم لیگ پر سازش، بوٹ پالش اور حکمرانی کا لیبل لگ گیا، اختیارات کی تہمت بھی، مگر میاں شہباز شریف کے دور حکمرانی میں اب تک دنوں کی سزائیں برقرار ہیں اور مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت۔ شہباز شریف سے پوچھیں تو وہ مجبوریوں کی طویل داستان سنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور آصف زرداری سے مشورہ کریں تو موصوف صبر کی تلقین پر اکتفا کرتے ہیں۔ "وچلی گل" دونوں کو معلوم ہے ؎
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چاہو سو آپ کرو ہو، ہم کو عبث بدنام کیا
مخلوط حکومت میں زرداری سمیت جملہ اتحادیوں کے پوبارہ ہیں، وہ اقتدار کا آم بھی چوس رہے ہیں اور گٹھلیوں کے دام بھی وصول کریں گے جبکہ مہنگائی اور ناقص کارگزاری کا سارا خمیازہ مسلم لیگ بھگتے گی کہ وہی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔
غلطی ہوئی اور ایسی ویسی نہیں پہاڑ سی غلطی، ادراک بھی شائد ہر سطح پر ہے، سدھارنے کو مگر کوئی تیار نہیں جس سے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں، بے یقینی بڑھ رہی ہے اور عوام کی زندگی اجیرن، پچھلے سال نومبر دسمبر میں مژدہ سنایا جا رہا تھا کہ مارچ میں عمران خان کی رخصتی اور اتحادیوں کے اقتدارسنبھالنے سے قوم موسم بہار سے لطف اندوز ہو گی مگر 10اپریل کے بعد فیض صاحب کا ایک شعر قوم کے پلے پڑا ہے جسے گنگنا کر وہ بچوں کا پیٹ پال سکتی ہے نہ اپنا معاشی مستقبل سنوارنے کے قابل ؎
نہ گل ہی کھلے، نہ تم سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
فیصلہ ساز تذبذب کا شکار ہیں اور اتحادی میاں شہبازشریف کو ہلّہ شیری دینے میں مشغول کہ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ فوری حل کے سوا بے یقینی کے خاتمے کا کوئی دیرپا نسخہ ہے نہ سیاسی، معاشی استحکام کی ضمانت۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے مطالبات پورے کرنے کے لئے جو جرأت رندانہ، یکسوئی اور قوت درکار ہے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث موجودہ حکومت میں مفقود ہے، ایک ماہ سے پوری قوم حکمرانوں کے اور چھور دیکھ رہی ہے، اتحادیوں کا اجلاس ہوتا ہے، ذرائع سے خبریں چلتی ہیں اور پھر ایک اور اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے، ٹھوس فیصلوں کے بعد دوسرا اجلاس بلانے کا کیا مقصد؟ ؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
سخت معاشی فیصلوں کے لئے نگران حکومت موزوں ہے اور انتخابی اصلاحات بھی وہی مناسب جن پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو، ورنہ اگلا الیکشن بھی بے کار کی مشق اور قوم کے لئے سفر رائیگاں، فوری فیصلوں اور کم از کم اتفاق رائے سے ہی موجودہ ڈیڈ لاک کا خاتمہ ممکن ہے۔ مگرآج کا کام کل پر ڈالنے کی عادی اشرافیہ وسوسوں کا شکار! ؎
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں، کہ خیال روز جزا گیا