توہین پارلیمنٹ
صدیوں سے بغداد کے علماء و فقہا پر تبرا ہورہا ہے کہ جب وحشی منگول مسلم سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے دارالخلافہ کی طرف بڑھ رہے تھے، عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں اور ریاست تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی، یہ اصحاب فہم و دانش اس بات پر باہم دست و گریباں تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ اقبالؒ کو بھی انہی سے گلہ تھا کہ ؎
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
کسی نے خواب میں بھی سوچا نہ تھا کہ اقبال کے تصورات کے مطابق "برصغیر میں مسلمانوں کی پناہ گاہ" اور قائداعظم کے الفاظ میں"اسلام کی تجربہ گاہ" دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی کبھی چین، کبھی سعودی عرب اور کبھی متحدہ عرب امارات سے ڈیڑھ دو ارب ڈالر کی بھیک مانگ رہی ہوگی اور اس کے قانون ساز و حکمران پارلیمنٹ میں دو تین نہیں، چار تین کی بحث سے جی بہلا رہے ہوں گے۔ چار ماہ تک ملک بھر میں بحث مباحثے کے باوجود یہ طے نہ ہو پائے گا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں آئین کے مطابق الیکشن 90 روز میں ہوں گے یا جب حکومت، الیکشن کمیشن اور نگرانوں کا جی کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہ ماننے والی حکمران اشرافیہ نے "توہین پارلیمنٹ" کے عنوان سے ایک قانون منظور کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اس پوتر، معصوم عن الخطا اور ہر طرح کی جرح و تنقید سے بالاتر ادارے کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی قابل دست اندازی پارلیمنٹ جرم ہوگی اور جس طرح عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں اپنے منصب سے برخاست کیا اسی طرح پارلیمنٹ اور اس کی قائمہ کمیٹی بھی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے کسی جج یا چیف جسٹس کو سزا دینے کی مجاز ہوگی۔
قانون کے جملہ خط و خال تو امید ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک منظر عام پر آ چکے ہوں گے مگر ہمارے سابق وزیراعظم اور موجودہ حکمران اتحاد کے گاڈ فادر میاں نوازشریف کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ انہیں چیف جسٹس کو کم از کم ایک رات حوالات میں بند کرنے اور "ہماری جناب" میں گستاخی کا مزہ چکھانے کا موقع ملے۔
میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب ان کی کابینہ کے اہم ترین وزیر، میاں نوازشریف اور چیف جسٹس پاکستان سجاد علی شاہ کے مابین چپقلش شروع ہوئی تو بڑھتے بڑھتے ذاتی دشمنی میں بدل گئی، میاں نوازشریف کے ایک متنازع بیان پر چیف جسٹس نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، جس پر وزیراعظم خوب برافروختہ ہوئے۔
گوہر ایوب خان اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب "ایوان اقتدار کے مشاہدات" میں لکھتے ہیں"اسی دوران وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ 5 نومبر کو وزیراعظم نے مجھے فون کیا اور قومی اسمبلی کے اپنے چیمبر میں پہنچنے کی ہدایت کی۔ جب میں وہاں پہنچا تو قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے چیئرمین نوابزادہ اقبال مہدی اور دوسرے ممبر بھی کیبنٹ روم میں موجود تھے۔ وزیراعظم نے استحقاق کمیٹی کے چیئرمین سے کہا کہ وہ صورت حال کے بارے میں مجھے بتا دے۔ چیئرمین استحقاق کمیٹی نے بتایا کہ وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو استحقاق کمیٹی کے سامنے بلانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم سمیت وہاں موجود تمام لوگوں نے اس فیصلے کی تائید کی۔
میں نے انہیں بتایا کہ ایوان کے قواعد و ضوابط کے تحت کمیٹی کے چیئرمین کو اتنا بڑا قدم اٹھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ میں نے انہیں خبردار کیا کہ ان کے اس قدم کا سخت ردعمل ہوگا۔ میں نے سپیکر کی حیثیت سے قواعد مرتب کئے ہیں۔ آپ لوگ چیف جسٹس کو کمیٹی کے سامنے بلانے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ اگر آپ نے انہیں بلا بھی لیا تو وہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے جو کمیٹی اور وزیراعظم کے لیے باعث توہین ہے۔
میری بات سن کر اس موضوع پر مزید کچھ نہیں کہا گیا۔ وزیراعظم نے مجھے اپنے ساتھ وزیراعظم ہائوس جانے کو کہا۔ گاڑی میں وزیراعظم ہائوس جاتے ہوئے نوازشریف نے اپنا ہاتھ میرے گھٹنے پر رکھا اور کہنے لگے۔ گوہر صاحب! مجھے کوئی ایسا راستہ بتا دوکہ میں چیف جسٹس کو گرفتار کرکے کم از کم ایک رات کے لیے جیل بھجوادوں۔ میں نے وزیراعظم سے کہا "خدا کے لیے۔ ایسی باتیں سوچنا بھی ٹھیک نہیں۔ اس سے پورا نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ " میری بات سن کر نوازشریف خاموش ہو گئے"۔
سید سجاد علی شاہ خوش قسمت تھے وزیراعظم کے زیر عتاب آنے کے بعد بھی جیل جانے سے بچ گئے، البتہ ایک بے گناہ بیوروکریٹ کی بھری عدالت میں ہتھکڑی کھلوانے کی جو گستاخی انہوں نے کی تھی اس کی سزا چیف جسٹس کے منصب سے معزولی کی صورت میں بھگتی۔ یہ ہتھکڑی وزیراعظم نے اس بیوروکریٹ کو فیصل آباد کی ایک کھلی کچہری میں لگوائی تھی۔
موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ساتھی ججوں سے خطا ہوئی۔ انہوں نے پے در پے ایسے مقدمات میں عمران خان اور حکمران ٹولے کے دیگر حریفوں کو ریلیف دیا جس کی سزا تاحیات نااہلی، عمر قید اور سر عام توہین و تضحیک تجویز کی گئی تھی، پنجاب اسمبلی کے لوٹے ارکان کی نااہلی اور حمزہ شہبازشریف کو دیئے جانے والے ووٹ کی منسوخی کم جرم نہ تھا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبل کی تحلیل پر آئین کے مطابق الیکشن کرانے کا حکم جاری کردیا جو اس لحاظ سے زیادتی ہے کہ حکمران اتحاد دھونس دھاندلی سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اور وہ اپنی مرضی، منشا اور سہولت کے مطابق پورے ملک میں ایک ایسی شبھ گھڑی انتخابات کا انعقاد چاہتا ہے جو اس کی کامیابی کے لیے موزوں ہو، مثلاً 8 اکتوبر مگر سال رواں نہیں 2024۔
14 مئی کو پنجاب کے انتخابات کے حکم کو پہلے توچار تین کی بحث میں غتر بود کرنے کی کوشش کی گئی، پھر پارلیمنٹ کی ایک قرارداد کی آڑ میں فنڈز روکے گئے مگر عدالت پھر بھی باز نہ آئی لہٰذا حکم عدولی کے مضمرات سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لایا گیا جو پہلی ہی سماعت میں معطل ہوگیا۔ اب توہین پارلیمنٹ کا قانون متعارف کرانے کی تیاری ہے جو اگر عدالت عظمیٰ نے معطل نہ کر دیا تو امید ہے کہ معتوب ججوں کے لیے علاج بالمثل ثابت ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ دیرینہ خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بھی بن جائے، دنیا برامید قائم۔
مجھے معلوم نہیں کہ دنیا کے کس جمہوری ملک میں توہین پارلیمنٹ کا قانون موجود ہے اور اب تک کتنے لوگ اس قانون کی زد میں آئے؟ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں شدومد سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ توہین عدالت کا قانون منسوخ کیا جائے۔ نئے قانون کی منظوری طرفہ تماشہ ہوگی۔ پارلیمنٹ ہمارے ملک کا ایسا ادارہ ہے جو وجود میں ہی دوطرفہ مخالفت، مخالفانہ پروپیگنڈے اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے عمل سے آتا ہے۔ برقرار بھی اس توہین آمیز مخالفت کی بنا پر رہتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن پورے دورانیے میں ایک دوسرے کے خلاف ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے، الزام تراشی جاری رکھتے اور بھرپور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میڈیا بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کی کمزوری، غلطیوں اور شہ زوریوں کا بھانڈا خوب پھوڑتا ہے۔ پارلیمان کی کارکردگی، آئین پسندی اور حق نمائندگی کی ادائیگی پر جرح و تنقید کا ہر ادارے اور شہری کو استحقاق حاصل ہے اور کوئی عوامی نمائندہ یا منتخب ایوان اس حق واختیار کی نفی نہیں کرسکتا مگر یہ تاریخ کا پہلا ایوان ہے جو عدالتی حکم عدولی سے بچنے بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مصداق ایک آئینی ادارے کو نیچا دکھانے کے در پے ایسی قانون سازی پر مُصر ہے۔
عدلیہ تو خیر اس قانون کو خود دیکھ لے گی لیکن اگر ایسا کوئی قانون بنا تو اس کی زد میں میڈیا لازماً آئے گا اور یہ ڈریکونین قانون صبح، دوپہر، شام میڈیا کے خلاف استعمال ہوگا جس کا احساس ملک کے بزعم خویش میڈیا کو جانے ہے کہ نہیں؟ کیا منگول لشکر کی آمد سے قبل مسلم سلطنت کے زعما ایسے ہی باہم دست و گریباں نہ تھے جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اکابرین ملت آج ہیں؟ طوائف الملوکی کا یہی عالم نہ تھا؟ البتہ غربت و افلاس، بیروزگاری، اشرافیہ کی لوٹ مار اور بدامنی ایسی نہ تھی جیسی اب ہے، تاریخ گواہ ہے۔