مریم نواز کی صاف گوئی
یہ شاید اعترافات کا موسم ہے، مریم نوازشریف اس صاف گوئی پر داد کی مستحق ہیں، یہ جرأت آج تک کسی سیاستدان نے نہیں دکھائی، خود ہی مان لیا کہ میاں نوازشریف کے دور اقتدار میں میڈیا ہائوسز کو سرکاری اشتہارات وزیر اطلاعات پرویز رشید یا سیکرٹری اطلاعات نہیں، محترمہ کی مرضی سے ملتے اور بند ہوتے تھے۔ جو از یہ پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل چلاتی تھیں اور میڈیا سیل ہی یہ طے کرتا کہ کون سا میڈیا ہائوس سرکاری اشتہارات کا حق دار ہے، کون نہیں۔
اس صاف گوئی کے بعد یہ سوال بر محل ہے کہ ایک غیر منتخب خاتون کس حیثیت میں سرکاری فنڈز میڈیا ہائوسز میں مرضی سے تقسیم کرتی تھیں؟ 1950ء کے عشرے سے سرکاری اشتہارات پر وزارت اطلاعات کی اجارہ داری ہے اور ہر سول و فوجی حکمران نے سرکاری فنڈز کو حلوائی کی دکان کی سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ پڑھی ہے، ماضی کے سول اور فوجی حکمران یہ تکلف البتہ روا رکھتے کہ سرکاری فنڈز سرکاری افسروں کے ذریعے استعمال ہوں، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری سے پہلے حکمرانوں کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں، بھائی اور بہنیں امور مملکت میں دخل انداز تو ضرور ہوئے، افسروں کے تقرر و تبادلے، دوست احباب اور قریبی رشتہ داروں کے لیے جائز و ناجائز مراعات کے طلبگار بھی مگر ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف میں سے کسی نے سرکاری فنڈز کی تقسیم اپنے بچوں کو سونپی نہ انہیں سرکاری اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی۔
ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے فوج چھوڑ کر پہلے کاروبار اور پھر سیاست میں منہ مارا مگر فیلڈ مارشل کے قریبی ساتھیوں اور بدترین ناقدین میں سے کسی نے یہ شہادت کبھی نہیں دی کہ گوہر ایوب سرکاری اختیارات استعمال کرتے تھے۔ یہ شرف و اعزاز ملک کے دو مقبول سیاسی خانوادوں بھٹو زرداری خاندان اور شریف خاندان کو حاصل ہے کہ انہوں نے سرکاری دودھ کی رکھوالی اپنے بچوں، بچونگڑوں کو سونپی۔
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی چہیتی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو وزارت خارجہ لا بٹھایا، آن جاب ٹریننگ کی سہولت فراہم کی۔ جیل جانے کے بعد تمام سینئر رہنمائوں کو نظر انداز کرکے پارٹی کی قیادت بھی بیگم نصرت بھٹو کو سونپ دی، یہ موروثی اور خاندانی سیاست کا نقطہ آغاز تھا، پھر چل سو چل، کون نہیں جانتا کہ میاں نوازشریف کے تیسرے دور حکمرانی میں وزیراعظم ہائوس عملاً مریم نوازشریف کے تابع تھا، وزارت اطلاعات میں ان کا سکہ چلتا اور اشتہارات کی تقسیم روزانہ کی بنیاد پر وہ خود کیا کرتیں، جس طرح آج کل عمران خان صبح صبح اپنے میڈیا منیجرز سے ملتے اور ان کی گزشتہ روز کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں نمبر دیتے، ٹاسک سونپتے ہیں اسی طرح مریم بی بی بھی سرکاری خرچ پر میڈیا سیل چلاتی اور ناپسندیدہ میڈیا ہائوسز کا معاشی گلا گھونٹنے کے احکامات صادر کرتی تھیں۔ میڈیا کے حوالے سے میاں نواز شریف کی سوچ کیا تھی؟ 1990ء میں پہلے وزیر اطلاعات بننے والے شیخ رشید احمد نے اپنی کتاب "فرزند پاکستان" میں تفصیل بیان کی ہے، پڑھئے اور داد دیجئے، لکھتے ہیں:
" میری وزارت اطلاعات کے دوران کئی مشکلات تھیں۔ میر خلیل الرحمن مرحوم نے نوازشریف سے ملاقات کے دوران ایک بہت خوبصورت بات کہی کہ اقتدار کو جس خوبصورت چوکھٹ میں اتارنا ہوتا ہے بعض لوگوں کو یہ کام آتا ہے۔ بظاہر ہم سرکار کے حامی سمجھے جاتے ہیں لیکن ہم بھی کوئی کم زیر عتاب نہیں رہتے۔" مجید نظامی گو نوازشریف کے اہم مشوروں میں شریک تصور کئے جاتے تھے لیکن نوازشریف صاحب کا عارف نظامی سے یہ سلسلہ نہ تھا حکومت کے خیال میں عارف نظامی کا جھکائو پیپلزپارٹی کی طرف تھا جبکہ نوازشریف کے والد میاں محمد شریف صاحب مجید نظامی کا نہ صرف احترام کرتے بلکہ صلاح و مشورہ میں بھی ایک دوسرے کے شریک کار تھے لیکن ایک بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود میں میر شکیل اور نوازشریف کے مابین کھچائو کی بنیاد نہ ڈھونڈ سکا جبکہ میر شکیل الرحمن کے والد میر خلیل الرحمن کا نوازشریف احترام کرتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں ختم نہ کرسکا۔ دونوں کی پسند اور ناپسند ایک جیسی تھی۔ اچھی گاڑی، اچھا گھر اور اچھی گھڑی او رکسی زمانے میں جب نوازشریف پنجاب کے چیف منسٹر تھے تو میر شکیل اور نوازشریف یک جان دو قالب تھے۔
عارف نظامی نے میڈیا کانفرنس میں بڑا سخت مقالہ پڑھا تھا اور میری رائے تھی کہ یہ مجید نظامی کی رائے کے بغیر نہ پڑھا ہوگا۔ ایک دن جب مجھے نیشن کے اشتہارات بند کرنے کا حکم ملا تو میں نے ان پر عمل نہ کیا اور دو تین دفعہ احکامات کے باوجود جب میں نے عمل نہ کیا تو نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری انور زاہد کے پاس گیا اور ان کو اصل صورتحال بتائی کہ کل میاں صاحب لاہور جائیں گے تو شاید یہ احکامات بدلے ہوں۔ وہ مجھ سے متفق تھے اور ان کے خیال میں، میں نے درست کیا۔ لیکن جب نوازشریف نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کام کر دیا ہے تو میں نے انہیں کہا کہ کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ابھی روک دو۔ میں نے وہ احکامات جاری ہی نہیں کئے تھے۔ لاہور چونکہ نوازشریف کی جان تھی اس لیے مناسب کوریج ملنے کے باوجود بھی وہ جنگ لاہور سے ناخوش تھے بالخصوص اطہر مسعود سے توقع نہیں رکھتے تھے، ان کے خیال میں ان کے بڑے بھائی اظہر سہیل کا کیس اور تھا لیکن اطہر مسعود سے وہ بہت زیادہ توقعات رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت سی باتیں مجھے بتائیں۔ وہ دی نیوز سے مطمئن نہ تھے۔
رات کھانے پر ایک دن شہبازشریف سے میری تُو تُو میں میں ہو گئی۔ میں نے یہ کہا کہ شہبازشریف ہی دی نیوز کو ہینڈل کریں گے اور نیوز اخبار کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی۔ نوازشریف نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا "جب ایک نیوز ایڈیٹر پرائم منسٹر کے بھائی کے ساتھ بریک فاسٹ کرے یا آپ کے بھائی کے ساتھ ڈنر کرے وہ وزیر اطلاعات کو کیا سمجھے گا۔" چودھری نثار اور پرنسپل سیکرٹری وہاں موجود تھے۔ تو تو میں میں بڑھ گئی میں نے نوازشریف کو صاف صاف کہا کہ آپ کم از کم شہبازشریف کو کوئی وزارت دیں تاکہ منسٹریاں اس کی مداخلت سے محفوظ رہیں۔ اس دن کے بعد سے شہبازشریف سے ملتے تو ہم مسکرا کے لیکن میں کوئی بات دل میں چھپا نہیں سکتا تھا۔ شہبازشریف اور میرے درمیان اختلاف رائے رہتا، انہیں قائل کرنا مشکل کام ہوتا لیکن وہ نوازشریف کے ساتھ میرے خلوص اور محبت سے آگاہ تھے۔"
"نوازشریف پرخلوص اور ٹھنڈی سوچ اور دوسروں کا احترام کرنے والے انسان ہیں جبکہ شہبازشریف میرے بھائیوں کی طرح ہی تھے لیکن ان کی باتوں سے مجھے اختلاف تھا اور وہ بھی وزیراعظم ہائوس سے ایک چھوٹی انفارمیشن منسٹری چلانا چاہتے تھے جو میں نے کامیاب نہ ہونے دی جس کا بدلہ انہوں نے مجھ سے وزارت صنعت کے دوران ایک غیر منتخب شخص اسحاق ڈار کو وزارت صنعت میں سٹیٹ منسٹر سرمایہ کاری بورڈ لگا کرلیا اور ان کو چیف ایگزیکٹو کے اختیارات بھی سونپ دیئے جس پر میں نے اعتراض کیا۔
نوازشریف کے ساتھ اخبارات کے مالکان میں سے میر شکیل الرحمن، عارف نظامی نوائے وقت گروپ، حمید ہارون ڈان کے تعلقات زیادہ بہتر نہ تھے اور لکھنے والوں میں سے حامد میر، شاہین صہبائی، اظہر سہیل، ماریانہ بابر، نجم سیٹھی، نصرت جاوید اور ملیحہ لودھی حکومت پر خوب تنقید کرتے تھے۔ خاص طور پر جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز رات کی تارپکی میں ملیحہ لودھی کے گھر جاتے تو ان عام سی ملاقاتوں کو آئی بی کے حضرات بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے او راپنی قلم کی تحریروں سے زیادہ آرمی اور ایمبیسی سے اپنے رابطوں کی وجہ سے 124 الف سے بھی انہیں گزرنا پڑا۔"