مرے کو مارے اسحق ڈار
اردو کی مشہور کہاوت "مرے کو ماریں شاہ مدار" اس وقت کہی اور بولی جاتی ہے جب مصیبت پر مصیبت آتی ہے، جب کوئی شخص درد و تکلیف میں مبتلا دوا دارو کا متلاشی ہو اور اس پر نئی مصیبت وارد، ظلم ڈھایا جائے، تو لوگ کہتے ہیں کہ "مرے کو ماریں شاہ مدار" مگر اس کے معانی اور متعلقات سے کم لوگ واقف ہیں۔
مشہور ہے کہ قصبہ مکن پور ضلع کانپور(یوپی) کے بزرگ حضرت بدیع الزمان زندہ شاہ مدارؒ کو مسلسل یاد الٰہی سے یہ قدرت حاصل تھی کہ جو صوفی مرتبہ فنامیں ہوتے، آپ اپنی ریاضت سے اُسے مقام فنا سے نکال کر فناء الفنامیں پہنچا دیتے، وہ صرف اپنے رب کا ہوجاتا، دنیا کا نہ رہتا، اس باعث یہ ضرب المثل زباں زد خاص و عام ہوئی، پاکستانی قوم ہمارے سیاسی و فوجی حکمرانوں کی نااہلی، غلط بخشی، کرپشن اور پاکستان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ، لوٹ کھسوٹ کر باہر لے جانے کی عادت کی وجہ سے مقام فنا کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی، قوت خرید اس کی مسلسل کم اور حکمران اشرافیہ کی ہوس مال زر پیہم افزوں تھی مگر موجودہ حکمران اتحاد نے دس ماہ اور مسلم لیگ (ن) کے ہر فن مولا وزیر خزانہ اسحق ڈار نے گزشتہ چار ماہ میں قومی معیشت کے ساتھ جو سلوک کیا، اس نے ملک کے غریب عوام اور متوسط طبقے کو فناء الفنا کے مقام پر پہنچا دیا۔ جینے کی آرزو تو درکار مرنے کی تمنا سے بھی محروم۔ کفن دفن کاانتظام اس کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے، یقین نہ آئے تو کسی قبرستان کے گورکن اور منتظم سے اخراجات کی تفصیل پوچھ لیں۔
گزشتہ روز حکومت نے قومی اسمبلی میں آئی ایم ایف کا نافذ کردہ منی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ کے خیر خواہ اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے مداح اس خوش گمانی کا شکار تھے کہ غریب عوام اور متوسط طبقے کے ناسور بنے زخموں پر نمک مرچ چھڑکنے سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اپنے اور اتحادی ارکان اسمبلی کو ووٹروں کے سامنے شرمندگی سے اور حکمران اشرافیہ کی رہی سہی ساکھ کو تباہی سے بچانے کے لئے پہلے معاشی اصلاحات کا اعلان کریں گے پھر 1990ء کے عشرے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے دور میں لگنے والے تھرمل پاور پراجیکٹس کے ذمہ داروں کے خلاف عدالتی تحقیقات سے ایوان کو آگاہ کریں گے، جن کی وجہ سے پاکستان کو گروی رکھنے کے عمل کا آغاز ہوگیا کیونکہ ان کارخانوں کو چلانے کے لئے مہنگے تیل کی درآمد، کیپسٹی چارجز کے نام پر بجلی خریدے بغیر ڈالروں میں ادائیگی اور مہنگی بجلی کے باعث برآمدات میں کمی سے ملک کنگال ہوا اور ہم بار بار ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے مزید قرضے لینے اور قومی خود مختاری کا سودا کرنے پر مجبور ہوئے۔
ان کارخانوں کی منظوری دینے والے حکمرانوں، بیورو کریٹس کے لئے کم از کم عمر قید بنتی ہے، وزیر خزانہ کی طرف سے آئندہ قرضے چکانے کے لئے مزید قرض نہ لینے کا اعلان بھی متوقع تھا اور حکمران اشرافیہ کی طرف سے ایثار و قربانی کا تاثر دینے کے لئے 85رکنی وفاقی کابینہ کو دس بارہ تک محدود کرنے، ارکان اسمبلی اور بے وردی و باوردی سرکاری ملازمین، عدالتی اہلکاروں کی مراعات میں نصف کمی، ارکان اسمبلی کے لئے ترقیاتی فنڈز کے نام پر سیاسی رشوت کی بندش۔
سول و خاکی بیورو کریسی سے سرکاری گھر و مہنگی گاڑیاں واپس لے کر انہیں مناسب الائونس دینے اور جن جن لوگوں کو مفت بجلی ملتی ہے انہیں باقی محنت کش عوام کی طرح اپنے بل خود ادا کرنے کا فیصلہ بھی حسب حال ہوتا، حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق بیورو کریٹ ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں ایک کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی رپورٹ موصول ہو چکی اور اس نے بھی کافی معقول سفارشات پیش کی ہیں، اسحق ڈار اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرا سکتے تھے مگر مجال ہے کہ آج تک حکومت نے کسی کو ان سفارشات کی ہوا لگنے دی ہو۔ یہ توقع اس بنا پر وابستہ کی گئی کہ میاں شہباز شریف پنجاب میں ہمیشہ کفایت شعاری کے علمبردار رہے۔
حسب عادت اور اپنے خیر خواہوں کی توقعات کے بالکل برعکس اسحق ڈار نے مگر ایوان میں وہ بجٹ تقریر کی، جس کی منظوری آئی ایم ایف نے دی تھی، عوام کی ناتواں پیٹھ پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادا، بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا کوڑا برسایا، عمران خاں پر تبرا تولا اور یہ جاوہ جا، اب میاں نواز شریف کی جانشیں اور مسلم لیگ کی حقیقی سربراہ مریم نواز شریف اپنے کارکنوں سے کہہ رہی ہیں کہ میرا تو اس حکومت سے کوئی تعلق ہے نہ بجٹ سے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
مریم نواز شریف صاحبہ کی کارکنوں سے بات چیت کی خبر پڑھ، سن کر مجھے فرزند اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال مرحوم یاد آئے، ایک تقریب میں جس کی صدارت وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں مرحوم کر رہے تھے، فرزند اقبال نے کہا کہ کئی مسلم لیگیں بن گئی ہیں، سب قائداعظم کی جانشینی کی علمبردار، میں پرانا مسلم لیگی، کنفیوژ ہو جاتا ہوں کہ کس کو اپنی جماعت سمجھوں اور قائد اعظم کا وارث۔
وائیں صاحب ادھار رکھنے والے نہیں تھے باری آنے پر بولے جج صاحب آپ اس مسلم لیگ کو اپنا سمجھیں، جس کے پانچ سال تک سینیٹر رہے اور اب ٹکٹ کے علمبردار ہیں، آپ کنفیوژ کیوں ہوتے ہیں۔ جس حکومت میں مریم نواز شریف صاحبہ کو وزیر اعظم کے مساوی یا تھوڑا سا کم پروٹوکول مل رہا ہے، اس دور میں پورے خاندان اور سنگی، ساتھیوں کو مقدمات سے ریلیف ملا اور حکمرانی کے مزے لوٹنے کا موقع، یہ اگر ان کی حکومت نہیں تو پھر کس کی ہے؟ خلائی مخلوق ملک پر قابض ہے، یا ان کا کوئی دشمن جو مسلم لیگ اور شریف خاندان کو عوام کی عدالت سے غریب و متوسط طبقے کے قتل عمد کے جرم میں سزا دلوانے کے درپے۔
پاکستان معاشی زوال کی اس منزل تک صرف دس ماہ میں نہیں پہنچا، ماضی کے جملہ سیاسی و فوجی حکمران شریک جرم ہیں، قرضوں کی دلدل میں بھی ہم عرصہ دراز سے پھنس چکے مگر سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی موجودہ تباہ کن فضا موجودہ حکمرانوں کا عطیہ ہے۔ جو روایتی کمبل کی طرح اقتدار سے لپٹے ہیں، چھوڑنے کا نام لیتے ہیں نہ اپنے دعوئوں اور وعدوں کے مطابق پرفارم کرنے کا، اسحق ڈار مرے ہوئے عوام کو مارنے سے قبل اگر حکمران اشرافیہ کی طرف سے بھی ایثار و قربانی کی علامت کوئی اقدام کرتے، ایوان کو مژدہ سناتے تو منی بجٹ کے مارے عوام نہ سہی، مسلم لیگ کے معقول خیر خواہ اور مداح اپنے دل کو یہ تسلی ضرور دیتے کہ حکومت کی نیت ٹھیک ہے، ارادے نیک اور ملک کو سدھارنے، بائیس کروڑ انسانوں، زندگی سے بیگانوں، چلتے پھرتے زندانوں کو جینے کا حق دینے کی خواہش موجود۔ اسحق ڈار مگر یہ کیوں سوچتے؟
آئی ایم ایف نے انہیں سوچنے کا موقع دیا نہ حکمران اتحاد نے حق۔ سوچنا ہم آپ جیسوں کا کام ہے، غم دوراں، غم جاناں، غم عقبیٰ، غم دنیا جن کے مشاغل ہیں اور "سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" جنہیں بیرون ملک اکائونٹس میں پڑی دولت گننے سے فرصت ہے نہ سیاسی مخالفن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے سوا کسی چیز سے غرض، ہمارے، آپ کے مصائب و آلام کا انہیں کیا علم؟ کیا پروا؟