کیسے کیسے لوگ (4)
یہ بڑے eventfulدن تھے۔ بہت کچھ ہو رہا تھا ہمارے اردگرد، ہمارے ساتھ۔ انہی دنوں امتیاز کے جانے کے بعد میں نے آئو دیکھا نہ تائو، گاڑی میں بیٹھی اور ٹک ٹک کرتی بابا جان کے پاس چلی گئی۔ نہ اپوائنٹمنٹ لی، نہ پروٹوکول دیکھا، نہ متعارف ہونے کا انتظار کیا۔ یہ بڑی غیر معمولی ملاقات تھی۔
جب میں وہاں پہنچی تو انہوں نے مجھے بٹھایا، سبز چائے منگوائی اور پوچھا:کیا بات ہے؟ میں نے اپنی مصیبتوں کا ذکر کیا، جن سے گزر رہی تھی اور پھر کہا کہ ان باتوں کے علاوہ میری اندرونی کیفیت بھی بڑی دگرگوں ہے۔ نہ میں دھیان گیان کر سکتی ہوں، نہ کچھ سوچ سکتی ہوں۔ باتوں باتوں میں یہ بھی کہہ بیٹھی کہ درانی صاحب میرا خیال ہے God is a concept created by manیہ سارے نبی اور پیغمبر تو بس خدا کا نام لے کر لوگوں کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ سارتر کا اثر جو تھا!
بابا جان نے مسکرا کر کہا:"گڈ!ایکسی لینٹ!"میں نے پوچھا: "Why sir?"مجھ پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور کہا:
"Your slate is clean. Anything can be written on it۔"
پھر بابا جان نے مجھ سے کہا:آپ کے یہ جو بہت سے سوال ہیں ان کا جواب دینے کے لئے وقت چاہئے۔ ہر روز صبح آٹھ بجے سے پونے نو بجے تک کا وقت آپ کے لئے مخصوص ہو گا۔ آپ اس وقت کے دوران میرے پاس آ سکتی ہیں۔
بس، پھر کیا تھا، بابا جان سے دوستی ہو گئی۔ میں روز اس وقت کے دوران میں پہنچ جاتی تھی اور اپنے سوالوں کی بوچھاڑ کیا کرتی تھی۔ بابا جان نے مجھے بہت سے لوگوں سے ملوایا۔ پاشا بھائی تو ہر وقت ان کے ساتھ ہوتے تھے مگر وہ بالکل خاموش رہتے تھے۔ ولی بھائی سے ملوایا۔ نیلو سے ملوایا۔ نیلو ایک سائکک خاتون تھیں، انہیں وژن آتے تھے۔ وہ جب بولتی تھیں تو بس شروع ہو جاتی تھیں۔ انہیں مستقبل میں ہونے والے واقعات کے بارے میں وژن آتے تھے اور ایسے وقت میں وہ خود بخود ایک پین اٹھا لیتیں اور لکھنا شروع کر دیتیں۔ انہیں دیوار پر تصویریں نظر آتی تھیں۔ وہ بڑی غیر معمولی خاتون تھیں۔ انہیں پیدائشی ذکر ملا ہوا تھا جو ان کی سانس کا حصہ بن گیا تھا۔
یہ دولت انہیں اپنی والدہ سے عطا ہوئی تھی۔ وہ ہر وقت ذکر میں رہتی تھیں اور یہ سمجھتی تھیں کہ دوسرے سب بھی یوں ہی سانس لیتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ باقی لوگ تو پانچ حواس میں قید ہوتے ہیں۔ اس چھٹی حِس کی بدولت وہ ان حقیقتوں کو دیکھ لیتی تھیں جنہیں ہم جیسے پانچ حواس کے قیدی نہیں دیکھ سکتے۔ اس آگہی نے انہیں نارمل انسانوں سے مختلف بنا دیا تھا اور وہ نفسیاتی طور پر ہمارے لئے ایب نارمل ہو گئی تھیں۔ بعض اوقات ان کے personal illusionsاور ان کے حقیقی وژن آپس میں مل جاتے تھے۔
انہیں ایک نارمل انسان بنانے کے لئے اور معاشرے سے، اپنے گردو پیش سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے بابا جان ان کا علاج کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بابا جان ان کے وژن کے بارے میں بھی جاننا چاہتے تھے اور انہیں توجہ اور غور سے سنتے تھے۔ مثال کے طور پر نیلو نے بھٹو کی پھانسی کا منظر اس وقت دیکھا تھا جب بھٹو اپنے اقتدار کے عروج پر تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھٹو کو پھانسی ہو سکتی ہے۔ بابا جان نیلو کے ایسے وژن بڑی سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے جابر فلیٹس میں ایسی ہی ایک میٹنگ میں نے اٹینڈ کی تھی۔ یہ میٹنگز بڑی خاص ہوتی تھیں اور ان میں صرف بابا جان کے سینئر ساتھی ہی شامل ہوتے تھے۔ مجھ جیسوں کا وہاں کوئی کام نہ تھا لیکن ایک دن ضد کر کے میں بھی اس کمرے میں بیٹھ گئی۔ بابا جان نے مجھے کمرے سے چلے جانے کا نہیں کہا۔ اگر وہ کہہ دیتے تو مجھے جانا ہی پڑتا۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا میں نے کتنی غلطی کی ہے۔ یہ بڑی intenseگفتگو تھی جو میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں اتنی کنفیوژ ہو گئی کہ نہ باہر جا سکتی تھی نہ وہاں بیٹھی رہ سکتی تھی۔ اوہ میرے خدا!
"اتنے یاد آتے ہیں بابا جان مجھے۔ اتنا جی چاہتا ہے کہ وہ یہاں آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں اور مجھ سے کہیں، ادھر آئو، یہاں بیٹھو اور یہ کام کرو، تب میرا کام شروع ہو گا۔ اتنے شفیق تھے وہ، اتنا پیار کرتے تھے جیسے کوئی infinite motherہوتی ہے نا!ان سے بالکل ڈر نہیں لگتا تھا۔ ان سے ہر بات کہی جا سکتی تھی۔ ان کی بات سے disagreeکیا جا سکتا تھا۔ ایک اور بات میں نے بابا جان سے سیکھی تھی؛ان کے کلینک میں جب مریض آتے تھے تو ان میں سے بعض اتنی بدتمیزیاں کرتے تھے، شور مچاتے تھے، مگر جب وہ آتے تو ان سب کو گلے لگا لیتے اور اتنے پیار سے ملتے کہ وہ اور شیر ہو جاتے۔
ایک بار میں نے وہاں کچھ مریضوں کو ڈانٹ دیا جو بار بار شور مچا رہے تھے اور اپنے غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ جب میں انہیں ڈانٹ چکی تو وہاں موجود ایک سینئر ممبر مجھے ایک طرف لے گئے اور بہت شفقت سے کہنے لگے کہ دیکھئے، یہ کوئی عام کلینک نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم یہاں مریضوں کے روپ میں کون کون آتا ہے۔ یہاں آنے والے مریضوں کو ڈانٹنا نہیں چاہیے۔ ایک بار ایک بوڑھا شخص آیا اور تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا تو وہاں موجود بابا جان کی بہو کو ڈانٹنا شروع کر دیا، پھر بابا جان کے بارے میں بھی کچھ ناروا باتیں کہنے لگا۔ بولتے بولتے وہ تھک کر چپ ہو گیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بابا جان اندر سے نکلے اور اس کو گلے لگا کر اس کی کمر تھپکنے لگے۔ وہ بابا جان کے گلے لگا تو بے اختیار رو اٹھا۔
روتے روتے کہنے لگا:میں بہت تکلیف میں ہوں!بابا جان نے اسے تھپکتے ہوئے کہامجھے معلوم تھا کہ آپ تکلیف میں ہیں لیکن آپ کا غصہ آپ کی تکلیف پر حاوی تھا۔ یہ غصہ آپ کی تکلیف کم نہیں ہونے دے رہا تھا۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ آپ کا غصہ اتر جائے تو آپ کو دوا دوں تاکہ وہ اثر کرے۔ اس کے بعد بابا جان نے دوا کی ایک پڑیا اس کے منہ میں ڈالی اور اسے گویا چین آ گیا۔ ایسے تھے بابا جان!ان کی اپنی کوئی ایگوتھی ہی نہیں کہ وہ خفا ہو جائیں۔
یعنی جب آپ خفا ہوتے ہیں کسی سے تو اصل میں آپ کی پرسنیلٹی آ جاتی ہے نا بیچ میں اور جب پرسنیلٹی آتی ہے تو ایگو بھی آ جاتی ہے۔ بابا جان ایگو پر قابو پانے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے اور دوسرے کے درمیان فرق نہیں آنے دیتے تھے۔ اس لئے کہ روحانی راستے میں تو ایگو کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔"کالم کا گزشتہ حصہ پڑھنے کے بعد چونگی امرسدھو لاہور سے محترم سرفراز احمد خان نے خط ارسال کیا جو قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر حاضر خدمت ہے۔
شاہ جی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
آج کے کالم میں آپ نے محترمہ نجیبہ عارف کا ذکر کیا ہے جن کے شوہر کو واپڈا کے ایک ممبر "قریشی صاحب"نے میرٹ پر میگا پراجیکٹ دیا تھا، موصوفہ کو قریشی صاحب کا نام یاد نہیں آرہا۔
یہ قریشی صاحب سابق صدر ادارہ منہاج القرآن و امیر تحریک منہاج القرآن "محمد انور قریشی صاحب رحمۃاللہ علیہ" سابق ممبرپاور واپڈا تھے، نہایت متقی و پرہیز گار شخص تھے۔ غلام اسحاق خان مرحوم جب چئیر مین واپڈا تھے تو انور قریشی صاحب مرحوم ان کے ساتھ ممبر پاور واپڈا تھے اور یہ بھٹو صاحب مرحوم کی حکومت کا زمانہ تھا۔ قریشی صاحب خدمت دین کے جذبے سے سرشار کچھ عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے، بعد میں تصوف سے شغف ہوجانے پر کرمانوالہ شریف میں حضرت سید محمد علی شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ سے بیعت ہوگئے۔ بعد ازاں یہی تعلق انہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے دروس تصوف میں لے گیا۔
میں منہاج القرآن کا ایک دیرینہ کارکن ہوں، مجھے انور قریشی صاحب کے ساتھ 1990 کی دھائی میں بطور سیکرٹری (صدر ادارہ) ایک عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں قریشی صاحب کے تقویٰ و پرہیز گاری کا گواہ ہوں۔ قریشی صاحب کا انتقال 2005-2006 میں ہوا۔ ان کی قبر مبارک اکبر چوک نزد جوہر ٹاؤن، ٹاؤن شپ میں انہی کی تعمیر کردہ "مزمل مسجد" میں ہے۔ ساتھ ہی سادہ مگر وسیع بنگلے میں آپ کی رہائش تھی جو اب انکے بھتیجے کمرشل استعمال میں لاچکے ہیں (قریشی صاحب لاولد تھے)۔
محترمہ نجیبہ عارف سے اگر آپ کا رابطہ ہو تو یہ چند سطور انہیں پہنچا کر ان کی خلش دور فرمائیں۔ شکریہ، جزاک اللہ۔
والسلام (ختم شد)