جزاک اللہ
جن لوگوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کو سن رکھا ہے وہ اگر جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئے تو شائد حق بجانب ہیں کہ یہ تینوں حکمران عمران خان سے زیادہ صاحب مطالعہ اور مختلف ایشوز کا گہرا ادراک رکھتے تھے مگر بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور میں سن بلوغ کو پہنچنے والا کوئی شخص اگر گزشتہ روز داد نہیں دے پایا تو پرلے درجے کا گائودی ہے، کم ظرف یا بدذوق۔ بلاول قابل معافی ہے کہ وہ دوسروں کا آموختہ دہرانے اور چاپلوسی سے بہل جانے والا اکتیس سال کابچہ ہے۔ عمران خان کشمیر کا سفیر بن کر جنرل اسمبلی پہنچا، مقدمہ مگر اس نے صرف کشمیریوں کا نہیں، پاکستان، عالم اسلام اور ایک ارب سے زائد عاشقان رسول ﷺ کا لڑا۔ جب وہ امریکی اور یورپی عوام سے مخاطب ہوا کہ جس طرح یہودیوں کی دلآزاری سے بچنے کے لئے آپ نے ہولو کاسٹ کے ذکر پر پابندی لگا رکھی ہے اس طرح مسلمانوں کے بارے میں بھی سوچیں کہ حضور سرور کائنات ﷺ کی اہانت سے ان کے دل دکھتے ہیں، کیونکہ حضور ﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، تو، میں نے سوچا آج اپنے ایک غلام عمران خان کو اسلام کی حرمت اپنی ناموس اور مسلمانوں کی عزت کا دفاع کرتے دیکھ کر یقینا سرور کائنات ﷺخوش ہوں گے۔ رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے جس غلام سے شاد ہوں دنیا و آخرت میں اس سے زیادہ خوش نصیب کون؟
تقریر ختم ہوئی تو مجھے پہلا فون عمران خان کے ایک دیرینہ ناقد کا آیا، اسلام، جہاد افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے انتہا درجے کے اس جذباتی دوست نے عمران خان کی جس انداز میں تحسین کی وہ میرے لئے حیران کن تھی چند ماہ قبل یہ دوست مجھے عمران خان کے ایجنڈے اور غیر ملکی روابط کی اطلاع دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ میں تیل دیکھوں اور تیل کی دھار دیکھوں، ایسا نہ ہو کہ کل کو پچھتانا پڑے۔ یورپ میں گزرے شب و روز اس کے وسوسوں کی اساس تھے، گزشتہ شب مگر وہ اکیلا نہیں اس کے دیگر دوست بھی عمران خان کی قسمت پر عش عش کر رہے تھے جسے جنرل اسمبلی میں اسلام، پاکستان اور کشمیر کے علاوہ ستم رسیدہ اُمہ کے مصائب اجاگر کرنے کا موقع ملا، اس نے اندیشہ سودو زیاں اور خوف ملامت سے بالاتر ہو کر وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو کلمہ گو کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پاتا کہ مبادا انتہا پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار پائے۔ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کو، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرے دل میں ہے
نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مستقبل کی پیش گوئی ممکن نہیں مگر عمران خان کی تقریر اُمہ کو اس خوف سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو گی جو اس پر 9/11نے طاری کیا اور مسلم حکمران شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے شوق میں خوف کی اس کیفیت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
1988ء میں سلمان رشدی کی واہیات کتاب "شیطانی خرافات، منظر عام پر آئی تو نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں عاشقان رسول ﷺ نے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا، بلاول بھٹو کی والدہ محترمہ "شہید جمہوریت" بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں اور مغرب میں اُن کی مقبولیت کا طوطی بولتا تھا مگر ہوا کیا، اس احتجاج میں شریک ہو کرعاشقان رسولؐ کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کے بجائے پولیس کو سختی سے نمٹنے کا حکم ملا، گولی چلی اور نہتے شہریوں کا خون بہا۔ امریکہ اور یورپ میں سلمان رشدی کو ہیرو کا درجہ ملا، امریکی صدرنے وہائٹ ہائوس میں رشدی کا استقبال کیا اور آزادی اظہار کے اس ہیرو کی پذیرائی پر 2005ء میں ہالینڈ کے ایک شہری نے گستاخانہ خاکوں کے ذریعے امریکہ و یورپ کا ہیرو بننے کی سعی کی۔ ایران کے سوا کسی مسلم ریاست نے جارحانہ اور دلیرانہ موقف اختیار نہیں کیا، ہومیو پیتھک قسم کی باتیں ہوئیں اور پھر طویل مجرمانہ خاموشی۔ 9/11کے بعد تو اسلام اور مسلمانوں پر جو بیتی وہ ع
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری
اسلام مسلمانوں کے لئے طعنہ بن گیا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد ممنوع ٹھہری اور جہاد دہشت گردی سے کہیں برترجرم، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر نے مسلمانوں کو انتہا پسند اور بنیاد پرست قرار دیا اور 9/11نے دہشت گرد، مغرب میں کپڑے اتارنا، ننگے پھرنا اور فحاشی و عریانی کے اڈوں کی زینت بننا شیوۂ تہذیب و تمدن، روشن خیالی اور جدیدیت جبکہ حجاب لینا صرف قدامت پرستی کی علامت نہیں، معاشرے کے لئے سنگین خطرہ۔ 9/11کے بعد ہی کشمیریوں اور فلسطینیوں کو فوجی قوت، مسلح فوجیوں، پیلٹ گنوں، توپوں، ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے والے بھارت و اسرائیل امن پسند ممالک قرار پائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ و یورپ کے مضبوط اتحادی۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مسلمانوں کو الا ماشاء اللہ حکمران بھی کم ہمت، بے سمت، غیر نظریاتی اور اقتدار پرست نصیب ہوئے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ امریکہ کی خوشنودی کے طلب گار اور اپنے عوام سے زیادہ ذاتی و خاندانی مفادات کے اسیر۔ اسلامو فوبیا پروان چڑھا، توہین رسالت بنیادی انسانی حق قرار پایا اور کشمیر و فلسطین کے عوام کا خون ارزاں ہوا، کوئی بولا ہی نہیں کسی نے زبان کا زنگ اتارا بھی تو بس اتنا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ عمران خان نے مگر یہ روائت توڑ دی ہے۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ سعودی عرب میں کوئی شاہ فیصل اور مصر میں جمال عبدالناصر نہ سہی ترکی میں طیب اردوان اور ملائشیا میں مہاتیر محمد کی حکمرانی ہے جواپنے پیشروئوں کی طرح امریکی خوشنودی کے طلب گار ہیں نہ امہ اور عوام کے مسائل سے غافل اور نہ اقتدار پر ایمان قربان کرنے کو بے تاب۔ عمران خان نے اسلام، پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ مدلل انداز میں پیش کیا۔ پچاس منٹ کی تقریر میں کوئی لفظ فالتو تھا نہ کوئی حرف ادنیٰ، انداز بیان دلکش و دلآویز اور جذبات و احساسات کی آمیزش اس قدر کہ توازن و اعتدال ملحوظ رہے، عمران خان نے بھارت اور اس کے خیر خواہ امریکہ و یورپ کو ایٹمی جنگ کی دھمکی نہیں دی، اس کے امکانات اور ہولناک نتائج سے آگاہ کیا، کشمیریوں کے ظالمانہ محاصرے سے ہندوستان، پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی نفرت، مایوسی اور بے بسی کی نشاندہی کی اور بتایا کہ اس صورت میں غیرت مند انسان کیا کر گزرتا ہے۔ بلّی کو بھی اگر کمرے میں بند کر کے نکلنے کی راہ مسدود کر دی جائے تو وہ انسان پر حملہ آور ہو جاتی ہے یہ تو سوا ارب زندہ، خوددار اور دلیر انسان ہیں۔ عمران خان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ اس نے چار پانچ دن میں امریکی میڈیا کو ساتھ ملا کر امریکی حکومت کی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد پالیسی تبدیل کرائی۔ ایک زور دار بیان جاری ہوا اور تقریر کے دوسرے روز بھارتی حکومت نے کرفیو میں نرمی کا اعلان کر دیا، امریکہ پر عمران خان، طیب اردوان اور مہاتیر محمد کے علاوہ کس کا دبائو تھا؟ بلاول بھٹو ہی بتا سکتے ہیں جن کا خیال ہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی میں کشمیری عوام کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کر سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو سلامتی کونسل کی تقریر سے قومی لیڈر بنے پھر چل سو چل، عمران خان قومی لیڈر اپنی بائیس سالہ ریاضت، بے باک شخصیت اور کرپشن کے خلاف ایماندارانہ موقف سے بنے، عالم اسلام کی قیادت اس تقریر کے بعد ان کا مقدر بن سکتی ہے بشرطیکہ وہ تقریر تک محدود نہ رہیں، طیب اردوان اور مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر کچھ عملی اقدامات پر سوچیں اور اپنے اردگرد نظریاتی لوگ جمع کریں جو ذاتی مفادات اور ادنیٰ خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے ساتھ چل سکیں، ریاست مدینہ کے تقاضوں کو جو سمجھیں، عمران خان کے لئے زاد راہ ثابت ہوں کشتی کا بوجھ نہیں، کرفیو اٹھا اور کشمیری عوام کے رابطے بحال ہوئے تو وہ اپنے سفیرکی کارکردگی پر شائد پھولے نہ سمائیں۔ جزاک اللہ، رہے حاسدین تو ان کا مقدر جل بھن کر خاک ہونا ہے، قل موتو بغیظکم