عمران تو ہو گا
یہ پہلی بار ہے کہ قوم داد دینے کو بے تاب ہے مگر وہ ہر فن مولا پولیٹیکل انجینئر کہیں دکھائی دیتا ہے نہ سنائی، جس نے ایک "ناتجربہ کار" اور "ناکردہ کار" حکومت کو رخصت کر کے "کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا "اکٹھا کیا "بھان متی کا کنبہ جوڑا" اور پاکستان کی حکمرانی سونپ دی۔ اس تجربہ کار کنبے کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ پٹرول کی قیمت بڑھائے یا برقرار رکھے۔
آئی ایم ایف کی مان کر سبسڈیز کا خاتمہ کرے یا سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیاں برقرار رکھ کر یہ بدنامی مول لے کہ وہ سخت فیصلے کرنے کا اہل نہیں، میاں شہبازشریف جیسا عملیت پسند سیاستدان پہلی بار یہ پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے دھکا کس نے دیا مگر جواب ندارد۔
عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اس پر سب سے زیادہ خوش کاروباری طبقہ تھا کہ مسلم لیگ ن کی شُہرت کاروبار دوست جماعت کی ہے اور میاں شہبازشریف ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر تصور کئے جاتے ہیں، بیوروکریسی سے کام لینے کا ڈھنگ انہیں آتا ہے، خرم دستگیر، احسن اقبال، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل سمیت جتنے ماہرین معیشت و تجارت مسلم لیگ میں موجود ہیں کسی دوسری جماعت میں شاید و بائد۔
عرب ممالک اور ترکی کے حکمرانوں سے شریف خاندان کے تعلقات مثالی ہیں اور مختلف ریاستی اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کے چھوٹے میاں صاحب عادی ہی نہیں بہت بڑے علمبردار ہیں۔ عمران خان کے جملہ مخالفین اور مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام سمیت بارہ تیرہ جماعتی اتحاد کے مداحوں کو یقین تھا کہ نئی حکومت فوری طور پر بڑھتی مہنگائی کو روکے گی، معیشت کا پہیہ چلائے گی اور دوست ممالک سے بآسانی بیس پچیس ارب ڈالر لا کر پٹرول، بجلی، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے عام شہری کو ریلیف دے گی۔
بعض واقف حال معاشی ماہرین اور تجزیہ کار تو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اکیلا چین عمران حکومت کے خاتمے کے عوض پینتیس ارب ڈالر نقد، نصف جن کا ساڑھے سترہ ارب ڈالر بنتا ہے پاکستان کو دان کرنے کے لیے بے قرار ہے بس عمران جائے تو سہی۔
ایک ماہ گزرنے کے بعد حالت مگر یہ ہے کہ ڈالر کی اڑان جاری ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اوپن مارکیٹ میں اس کی قدر چھیانوے روپے تک پہنچ چکی ہے، سٹاک مارکیٹ خزاں کے پتوں کی طرح گر رہی ہے اور اندرون و بیرون سرمایہ کار دم بخود بیٹھے بے یقینی ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ سیاست و معیشت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے تو وہ سرمایہ کاری کے بارے میں سوچیں، بے یقینی کی فضا میں کون اپنا قیمتی سرمایہ ڈبوئے اور یہ بے یقینی کسی اور کی پیدا کردہ نہیں، اتحادیوں کے مختلف مقاصد، مفادات اور رجحانات کا فطری نتیجہ ہے۔
کل تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے موجودہ صورتحال کی نقشہ کشی کرتے ہوئے جب کہا کہ " عوام مفتاح اسماعیل کو دیکھتے ہیں، مفتاح اسماعیل اسحاق ڈار کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ نوازشریف سے رہنمائی چاہتے ہیں اور میاں نوازشریف بے چارے آصف علی زرداری سے مشاورت کے محتاج "تو ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا۔
میاں شہبازشریف کو فری ہینڈ ملتا تو وہ اب تک اپنی حکومت کی نیا کو کنارے لگانے کی کوئی تدبیر کر چکے ہوتے مگر ان کے پائوں میں کئی طرح کی بیڑیاں پڑی ہیں، ان کی حالت پنڈت ہری چند اخترکے اس کردار کی ہے جس نے ؎
کہا ہم چین کو جائیں۔
کہا تم چین کو جائو
کہا جاپان کا ڈر ہے۔
کہا جاپان تو ہوگا
کہا کابل چلے جائیں۔
کہا کابل چلے جائو
کہا افغان کا ڈر ہے۔
کہا افغان تو ہوگا
کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں۔
کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے۔
کہا کوہان تو ہوگا
میاں شہبازشریف کو گھر میں برادر بزرگ و قائد محترم اور ان کی ہونہار صاحبزادی کے جذبات، احساسات کا احترام کرنا ہے، حکومت میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر اتحادیوں کے مفادات کی رکھوالی کرنی ہے اور سیاست میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک، ساکھ برقرار رکھنا لازم ؎
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
بجلی و پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں تو عوام ناراض، نہ بڑھائیں تو آئی ایم ایف خفا اور موجودہ نرخ برقرار رکھیں تو جون میں بجٹ سازی مشکل بلکہ ناممکن۔ جب تک آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا کوئی دوست ملک دست گیری پر تیار نہیں اور آئی ایم ایف سے آسان معاہدے کی کنجی امریکہ کے پاس ہے جس کے مطالبات کی فہرست میں اسرائیل کو تسلیم کرنا شامل ہو نہ ہو، فوجی اڈوں کی فراہمی اور مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کے جذبات و مفادات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تعلقات کی 5 اگست سے قبل کی سطح پر بحالی اور تجارت کا آغاز سرفہرست ہے۔
ایسے مطالبات کی پذیرائی میں پہلے صرف اسٹیبلشمنٹ مزاحم ہوتی تھی اب عمران خان کا ڈر ہے جس نے حکومت گنوا کر مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور اسلام آباد سے لندن، واشنگٹن تک خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، کہا عمران کا ڈر ہے، کہا عمران تو ہو گا۔
میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر بھی حکمران اتحاد سے زیادہ زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں تبھی انہوں نے میاں شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے اتحادیوں اور اقتدار و اختیار کے اصل سرچشموں سے اگست 2023ء تک بے روک ٹوک حکمرانی کی ضمانت حاصل کئے بغیر کوئی سخت فیصلہ کریں نہ ان کے منفی نتائج کی کالک مسلم لیگ(ن) کے چہرے پر ملیں کہ کوئلوں کی دلالی میں صرف منہ کالا نہیں ہوگا پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے مضبوط ووٹ بنک پر بھی ڈاکہ پڑ سکتا ہے۔
مسلم لیگ کے قائد کی یہ تجویز اگرچہ ان کی پُرکاری کا مظہر ہے کہ تیل و بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کابینہ کے بجائے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی غیر معمولی میٹنگ میں کیا جائے جس میں صدر، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی تینوں سروسز چیفس کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان خصوصی دعوت پر شریک ہوں اور سخت فیصلوں کی ذمہ داری قبول کریں، مگر کیا یہ آئینی و سیاسی طور پر ممکن ہو گا؟ اور یہ قومی اداروں کو متنازع بنانے کے مترادف اقدام تصوّر نہیں کیا جائے گا؟ آخر قومی ادارے حکومت کے کسی فیصلے یا اقدام کی قیمت ادا کیوں کریں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے نہ ان کے مسلّمہ آئینی طور پر غیر جانبدارانہ کردار کے عین مطابق۔
اس دلدل سے نکلنے کی واحد اور دانشمندانہ صورت منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا اگلے تین چار ماہ میں انعقاد ہے جس کا بھر پور فائدہ مسلم لیگ ن اٹھا سکتی ہے کہ اس کی ہر سطح پر موثر تنظیم موجود ہے۔ الیکٹ ایبل امیدواروں کی مناسب تعداد موجود اور یہ تاثر پختہ کہ جو اقتدار سے نکالا گیا وہ واپس نہیں آ سکتا سو واحد آپشن مسلم لیگ ہے اور مسلم لیگ میں میاں شہباز شریف، رانجھا سب کا سانجھا، عام انتخابات کو ٹالنے کے لئے اتحادی حکومت اور اس کے خیر خواہوں کو جو پاپڑ بیلنے پڑیں گے وہ اس نیو کلیر ریاست کے جمہوری نظام اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں جو سیاسی طور پر شدید Polarizationاور معاشی سطح پر عملاً دیوالیہ پن کا شکار ہے جبکہ عمران خاں اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری اور تحریک انصاف کے خلاف ریاستی جبر سے قومی سطح پر انتشار و خلفشار پھیلنے کا خطرہ۔
بڑے میاں صاحب حکومت کے لئے اگلے سال اگست تک مضبوط اور محفوظ حکمرانی کی یقین دہانی کس سے مانگ رہے ہیں؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، گزشتہ مارچ میں تحریک عدم اعتماد کا کوئی آرکیٹکٹ قوم سے داد وصول کرنے کا روادار نہیں تو اگلے اگست تک کسی کو حکمرانی کی ضمانت فراہم کرنے کے قابل کہاں؟ ایسا زبردست منصوبہ کہ ساڑھے تین سال تک تحریک انصاف کی حکمرانی کا کڑوا پھل چکھنے والے عوام نے عمران خان کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا اوراس کی ناتجربہ کار وناکردہ کار حکومت سے جان چھڑانے والے ایسا نسخۂ کیمیا ڈھونڈنے کے لئے سرگرداں کہ اقتدار کے کمبل سے جان بھی چھوٹ جائے اور سیاسی کشتی بھی نہ ڈوبے۔