Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Haan Ye Na Ho Ke Hath Se Talwar Gir Pare

Haan Ye Na Ho Ke Hath Se Talwar Gir Pare

ہاں یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے

تین حلیفوں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے وفاقی حکومت سے شکوے شکایات، اپوزیشن جماعتوں سے ایم کیو ایم کے رابطوں اور مسلم لیگ ن و پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں سے بظاہر گماں یہی گزرتا ہے کہ سیاسی بحران تحریک انصاف اور عمران خان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ امریکہ کی موجودہ حکمرانوں سے بے اعتنائی اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو ہمارے سیاسی منظر نامے سے جوڑ کر دیکھا جائے تو اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کی پیش گوئیوں پر یقین آنے لگتا ہے کہ واقعی ع

جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا

آٹھ دس ووٹوں کی برتری سے قائم عمران خان کی وفاقی اور پنجاب حکومت کو چلتا کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور جہانگیر ترین گروپ کافی ہے جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری نے چودھری برادران کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا لالچ دیا ہے مگر فی الحال وضعدار چودھری برادران اپنے اتحادی عمران خان سے بے وفائی پر تیار نہیں کہ انہیں آصف علی زرداری پر تو اعتبار ہے مگر شریف برادران پر نہیں کہ ان کے مطابق میاں نوازشریف نے اپنے برادر خورد میاں شہبازشریف سے کیا گیا وعدہ کبھی ایفا نہیں کیاہم کس شمار قطار میں ہیں۔

فیصلہ کن پوزیشن مگر کسی حکومتی اتحادی کی ہے نہ اپوزیشن میں شامل کسی ایک جماعت کی، اپوزیشن باہمی بے اعتمادی کا شکار ہے اور حکومتی اتحادی محض وفاقی حکومت کی ناقص کارگزاری سے تنگ آ کر اپنی بھیڑیں الگ کرنے کی سوچ نہیں رکھتے، اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی اہلیت صرف "انہی" کے پاس ہے، جن کے بارے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مسلسل یہ کہتے رہتے ہیں کہ جب تک عمران خان کے سر سے ان کا دست شفقت نہیں اٹھتا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے نہ کسی لانگ مارچ اور استعفوں کا فائدہ؟ مہنگائی اور بے روزگاری بلاشبہ عوامی مسئلہ ہے اور حکومتی اتحادیوں کے علاوہ حکمران پارلیمانی پارٹی کے ارکان انہی دو ایشوز کی وجہ سے اپنے حلقوں میں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

مگر حکومتی تبدیلی میں کبھی عوامی مسائل کا بنیادی کردار نہیں رہا، البتہ یہ حکومت کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنتے اور فرد جرم کی تیاری میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اسلام آباد میں تبدیلی کا راگ الاپنے والے پراعتماد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حلقہ امریکہ کی مزید ناراضگی مول لینے اور عالمی مالیاتی اداروں کی حقیقی خواہشات سے روگردانی کرنے کے موڈ میں نہیں، یہ واقفان حال یاد دلاتے ہیں کہ وزیر خزانہ کے طور پر اسد عمر نے آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھائیں اور معاہدے میں تاخیر کی تو راتوں رات وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پلک جھپکنے سے قبل حفیظ شیخ نے وزارت خزانہ اور باقر رضا نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا چارج سنبھال لیا۔

شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو سالانہ قومی بجٹ کا حصہ نہ بنا کر حفیظ شیخ کی پالیسی سے انحراف کیا تو اسے جنوری میں منی بجٹ لانا پڑا اور اب فروری میں مزید ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کر کے اپنے ماضی کے عوام دوست بیانات کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے، سو ایک ایسا عبوری سیٹ اپ زیر بحث ہے جو اندرونی اور بیرونی سٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول اور ملک کی معاشی حالت سدھارنے کا اہل ہو، عمران خان پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے اندرون ملک سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ کیا اور بیرون ملک تعلقات میں مطلوب توازن برقرار نہیں رکھ سکے، معاشی زبوں حالی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔

عبوری سیٹ اپ لانے کے خواہش مندوں کا خیال ہے کہ ان ہائوس تبدیلی اور ڈیڑھ سالہ عبوری انتظام و انصرام سے سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا، قومی معیشت سنبھلے گی اور ہم امریکہ و چین، ایران و سعودی عرب وغیرہ کے مابین سفارتی توازن برقرار رکھنے کی سابقہ پالیسی پر دوبارہ عمل پیرا ہو سکیں گے۔ یہ واقفان حال 1993ء اور 1996ء کی مثال دیتے ہیں جب ایسی ہی تبدیلی کے ذریعے امریکہ کی طرف سے دہشت گرد ریاست قرار دیئے جانے کا خطرہ ٹلا اور ہم مالیاتی دیوالیہ پن کے دائرے سے نکل پائے۔ یقین تو نہیں آتا مگر آثار یہی ہیں کہ ہمارے بعض فیصلہ سازوں کا ؎

دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے

پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

یہ کوئے ملامت واشنگٹن ہے، جاتی امرا اور کراچی کا زرداری ہائوس بھی، تاہم اس آئیڈیا سے اختلاف کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ 1993ء میں اسٹیبلشمنٹ نے میاں نوازشریف کو ایوان اقتدار سے نکال کر مسٹر ٹین پرسنٹ کو گلے لگایا، دنیا بھر کی بدنامی مول لی، غلام اسحاق خان کی قربانی دی مگر حاصل کیا ہوا، صرف تین سال بعد گلے کا یہ طوق اتار کرتبدیلی کے علمبردار مقتدر حلقوں کی خواہش یہ تھی کہ دو اڑھائی سال کا عبوری سیٹ اپ لا کر معیشت سدھاری جائے اور کرپٹ عناصر کو جسدسیاست سے خارج کیا جائے مگر حکومت اور اسمبلیاں توڑنے کے بعد کسی کے پاس نئے انتخابات کے سوا کوئی آپشن نہ بچا اور اقتدار میاں نوازشریف کے حوالے کرنا پڑا، سردار فاروق احمد خان لغاری نے ایک بار خود بتایا کہ جنرل جہانگیر کرامت ان کے پاس آئے اور خواہش ظاہر کی کہ فوری انتخابات کے بجائے عبوری سیٹ اپ پر غور کریں، نگران وزیراعظم ملک معراج خالد ان کے ہمنوا تھے مگر میں نے ڈیڑھ سو افسروں کو سامنے بٹھا کر بتایا کہ اب انتخابات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، یہی امریکہ و یورپ کی خواہش ہے اور انتقال اقتدار کا مروجہ طریقہ، پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ ملک معراج خالد نے انتخابات سے پندرہ روز قبل اعلان کیا کہ ہم انتخابات کے بعد اقتدار انہی لوگوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں جن کی لوٹ مار، بدانتظامی اور نااہلی کے سبب پاکستان بدترین مسائل و مصائب کا شکار ہے۔

پیپلزپارٹی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان ہائوس تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کے کسی مرد معقول کی قیادت میں نئی حکومت کے قیام پر راضی ہے اور کسی عبوری سیٹ اپ کو قبول کرنے پر بھی تیار، میاں شہبازشریف اور ان کے مفاہمت پسند ساتھی بھی اِسے تقاضائے دانش مندی سمجھتے ہیں مگر میاں نوازشریف فی الحال موجودہ حکومت کے خاتمے اور فی الفور نئے انتخابات پر مُصر ہیں جن کا نتیجہ ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کے حق میں برآمد ہو گا لیکن بالفرض اگر وہ سیاسی و خاندانی مصلحتوں کے تحت کسی فارمولے پر راضی ہو بھی جائیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی وہ طے شدہ فارمولے کو پروان چڑھنے دیں گے۔

1995ء میں منظور وٹو کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے انہوں نے پیپلزپارٹی کو مخدوم الطاف احمد کی سربراہی میں حکومت کی تشکیل کا چکمہ دیا اور منظور وٹو کو ڈٹ جانے کی ترغیب دی مگر حکومت ختم ہوئی تو منظور وٹو اور مخدوم الطاف احمد ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ وزیراعلیٰ کا منصب عارف نکئی نے اچک لیا، این آر او کے بعد میاں نواز شریف سے مل کر پرویز مشرف سے جو سلوک کیا وہ کل کی بات ہے۔

آصف علی زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کو خوب تجربہ ہے مگر عمران خان سے نجات پانے کی خواہش ان دنوں غالب ہے اور میاں شہبازشریف بھی قابل قبول نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ایک بار جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا "بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ بھی میاں محمد شریف کے صاحبزادے ہیں " دور کی کوڑیاں لانے والوں کو ماضی کی تاریخ ذہن میں رکھنی ہوگی اور یہ ابدی حقیقت بھی کہ "سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاستدانوں کی آنکھ میں شرم نہیں " ؎

تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر

اتنے نہ در بنائو کہ دیوار گر پڑے

جھک کر سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں مگرسراتنا مت جھکائو کہ دستار گر پڑےدشمن بڑھائے ہاتھ تو تم بھی بڑھائو ہاتھہاں! یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi