Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. General (R) Bajwa Ka Mobayyana Interview

General (R) Bajwa Ka Mobayyana Interview

جنرل(ر) باجوہ کا مبینہ انٹرویو

زندگی بھر اپنی جان پہچان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسروں اور جوانوں سے یہی سنا کہ دوران جنگ اگر کسی فوجی جوان یا افسر کو گولی لگ جائے، وہ زخمی ہو یا شہید تو اس کے ساتھی بالخصوص سینئر جان پر کھیل کر اسے پچھلے مورچے میں لاتے، زندہ ہونے کی صورت میں مرہم پٹی اور شہادت کا اعزاز ملنے پر تجہیز و تکفین کا بندوبست کرتے ہیں۔ کبھی کوئی سینئر اپنی جان بچانے کے لئے جونیئر کو دشمن کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے آرمی چیف کے اعلیٰ ترین منصب سے چھ سال بعد ریٹائر ہونے کے بعد آخری خطاب میں اگرچہ یہ کہا کہ وہ اب گمنامی کی زندگی گزاریں گے مگر وہ جو شاعر نے کہا تھا ع

چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافرلگی ہوئی

ملک بھر کے صحافیوں سے ملنے، پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے تک گپ شپ لگانے اور خوب پھلجھڑیاں چھوڑنے کا چسکا آنجناب کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا، چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق 29نومبر سے اب تک انہیں جو بھی صحافی کہیں ملا انہوں نے موقع ضائع کئے بغیر ان تمام موضوعات پر اظہار خیال کر ڈالا، جنہیں لوگ اشاروں کنایوں میں بیان کرنے سے بھی کتراتے تھے۔

پہلے سینئر صحافی اور اینکر جاوید چودھری سے طویل نشست کی اور عمران خان کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑے، پھر منصور علی خاں سے حال دل کہا اور جاوید چودھری کے کالم میں لکھی گئی باتوں کی تردید کر دی، تازہ ترین شاہکار شاہد میتلا سے ان کی گفتگو ہے جس کو شاہد میتلا انٹرویو قرار دے رہے ہیں مگر کامران شاہد کے بقول جنرل صاحب اس انٹرویو سے انکاری ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا جاوید چودھری اور شاہد میتلا سے ان کی کوئی ملاقات ہوئی؟ کیا دوران گفتگو انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ، ملازمت میں توسیع، میاں نواز شریف سے مختلف مواقع پر اہم قومی اور فوجی اُمور بالخصوص نئے آرمی چیف کے تقرر، 2022ء میں الیکشن کے انعقاد پر انہوں نے براہ راست یا بالواسطہ مشاورت کے علاوہ عمران خان سے دو ملاقاتوں کے حوالے سے کوئی بات کی؟ ان ملاقاتوں میں مختلف صحافیوں چودھری غلام حسین، حامد میر، صابر شاکر، ارشد شریف، ارشاد بھٹی، سید طلعت حسین وغیرہ کے بارے میں انہوں نے ریمارکس دیے؟ بعض ٹی وی اینکرز کو ملازمت سے نکلوانے، انہیں آف سکرین کرانے اور کچھ کو نوکریاں دلانے کا تذکرہ ہوا یا نہیں؟

اگر ان غیر رسمی یا اتفاقیہ ملاقاتوں میں یہ سب ذکر اذکار ہوا اور دوران ملازمت صحافیوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ بریفنگ کی طرح وہ بے جھجک، بے تکان ہر موضوع پر بولتے رہے تو جاوید چودھری اور شاہد میتلا کا کیا قصور؟ اعتراض تو صرف اس بات پر ہو سکتا ہے کہ یہ آف دی ریکارڈ باتیں تھیں جنہیں انٹرویو کہا جا سکتا ہے نہ ان کے حوالے سے شائع کرنا مناسب؟

جاوید چودھری اور شاہد میتلا نے قمر جاوید باجوہ صاحب سے جو بھی باتیں منسوب کیں وہ سابق آرمی چیف کے انداز فکر، طرز کلام اور افتاد طبع کی عکاس ہیں، مجھے ذاتی طور پر پانچ یا چھ بار کبھی کم اور کبھی زیادہ صحافیوں کے ساتھ باجوہ صاحب کی بریفنگ میں شرکت اور ان کی کھلی ڈلی باتیں سننے کا موقع ملا جن کو ذہن میں لا کر ہر واقف حال بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان انٹرویوز میں کیا غلط ہے اور کیا درست؟ باجوہ صاحب کی اس خوبی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ ہر موضوع پر بات کرنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہوتے ہیں، ہر سوال کا جواب تفصیل سے دیتے ہیں اور بسا اوقات ناگفتنی کہہ گزرتے ہیں، مثلاً تین درجن صحافیوں کے سامنے ایک بریفنگ میں یہ کہہ دینا کہ ہم طویل عرصہ سے امریکہ اور چین کو بہلا پھسلا کر اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں یا سابق وزیر اعظم عمران خان کو بتانا کہ میرے پاس آپ کی قابل اعتراض ویڈیوز ہیں وغیرہ وغیرہ۔

سید طلعت حسین اور حامد میر اپنے حوالے سے وضاحت کر چکے ہیں۔ عمران خان نے بھی ایک دو باتوں کا سیاق و سباق بیان کیا۔ کامران خان نے جنرل فیض حمید کی طرف سے ملنے والی وضاحت کا تذکرہ کیا کہ وہ سب کچھ اپنے باس یعنی آرمی چیف کے حکم پر کر رہے تھے اور کوئی ڈی جی سی یا ڈی جی آئی ایس آئی اتنا با اختیار نہیں ہوتا کہ وو جو مرضی کرتا پھرے، پورے ملک کو چھڑی پر گھمانے والا آرمی چیف تعرض ہی نہ کرے اور آخری دن تک ناز نخرے اٹھاتا پھرے۔

میاں شہباز شریف کے بارے میں باجوہ صاحب نے جو کہا وہ دونوں کے لئے باعث ندامت ہے، ایک آرمی چیف منتخب وزیر اعظم کی کلاس لے اور بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ چپ کرکے سب کچھ سنتا رہے، ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالے یہ وزیر اعظم کی خوبی ہے نہ ایک ماتحت افسر کا باعث فخر کارنامہ، تاہم وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے ابھی تک کوئی وضاحت نہیں آئی۔

باجوہ صاحب تردید کریں یا وضاحت لیکن ان کی لب کشائی اپنے علاوہ اپنے ساتھ کام کرنے والے فیض حمید جیسے سینئر فوجی افسروں کے خلاف سنجیدہ نوعیت کی چارج شیٹ۔ اسی رفتار سے اگر وہ بولتے رہے تو ان کے پرانے اور تازہ مخالفین کو کچھ کہنے کی حاجت نہیں وہ خود ہی یہ ثابت کر دیں گے کہ پہلے میاں نواز شریف اور بعدازاں عمران خان نے جو کہا وہ چنداں غلط نہ تھا۔

مجھے عمران خان سے غرض ہے نہ نواز شریف سے کچھ لینا دینا، فیض حمید جانیں اور ان کے سابقہ باس؟ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ جس ادارے میں اپنی جان پر کھیل کر جونیئرز کے تحفظ کی دیرینہ اور قابل رشک روایت کا تذکرہ زندگی بھر سنا، اس کا ایک سابق سربراہ اپنے فیض حمید جیسے دیرینہ ساتھیوں اور دیگر جونیئر افسروں کا دفاع تو خیر کیا کرتا، موقع ملتے ہی اپنی غلطیوں کا ملبہ بھی ان پر ڈال کر اپنے آپ کو پاک پوتر ثابت کر رہا ہے۔

یہ بھی باور کرایا کہ چھ سال تک اس ملک میں جو کچھ بھی ان کے جونیئرز نے کیا، انہیں بطور آرمی چیف اس کا علم ہوا نہ قبل از وقت روک تھام کی توفیق ملی، بس ایک دو مواقع پر انہوں نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑی اور یہ مٹی ان غلطیوں پر ڈال دی جو ان کے جونیئرز سے سرزد ہوئیں۔ نہ چاہتے کلیم عاجز یاد آ گے ؎

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar