فوجی آمروں کی گھاتیں، سیاستدانوں کی وارداتیں(3)
جنرل یحییٰ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر مسٹر بھٹو کی حکمتِ عملی کا ساتھ دیا۔ پہلے تو انہوں نے 1956ء کے دستور کی بات متنازع فیہ بنائی، حالانکہ شروع شروع میں یہ آواز بہت گونج دار تھی۔ یہ مطالبہ فوری مان لیا جاتا اور 1956ء کا دستور بحال ہو جاتا، تو شیخ مجیب الرحمن بھی اُسے تسلیم کر لیتے۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس مطالبے کی قوت کم کی گئی۔ اس کے خلاف بیانات آنے لگے جو سب سے پہلے مولانا بھاشانی اور مسٹر بھٹو نے دیے۔ ابلاغ عام کے ذرائع نے انہیں خوب ہوا دی اور یہ نظر آنے لگا کہ اس مسئلے پر قوم کے اندر شدید اختلاف ہے، چنانچہ جنرل یحییٰ خاں نے اعلان کر دیا کہ 1956ء کا دستور بحال نہیں کیا جا سکتا"۔
"اس اعلان کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورے کیے جائیں گے۔ اس عمل سے ایک اور برے عہد کا آغاز ہوا۔ سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے کے نتیجے میں کئی اور مسائل پیدا ہوئے جو آگے چل کر ناقابل حل بنتے گئے۔ سیاسی جماعتوں کے رویے ہمیں اس وقت معلوم تھے اور آج بھی معلوم ہیں۔ بیشتر قائدین کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ حاکم سے خلوت میں بہت میٹھی باتیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم آپ سے ہر نوع کا تعاون کرنے پر تیار ہیں اور زیادہ مناسب یہ ہے کہ آپ ہی حکومت کرتے رہیں۔ ہم باہر تقریریں کریں گے۔ آپ کے خلاف بھی کچھ کہیں گے، مگر آپ اُسے اہمیت نہ دیں۔ آخر ہمیں عوام کو بھی تو مطمئن کرناہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے"۔
"اس طرز کی ایک نشست میں مجھے بھی شریک ہونے کی سعادت، ملی۔ مولانا بھاشانی، صدر یحییٰ سے کہہ رہ تھے کہ میں تو ایک ایجی نیٹر ہوں، ایجی ٹیشن کرتا رہوں گا، مجھے حکومت کرنا آتی ہی نہیں اور نہ میں حکومت میں آنا پسند کرتا ہوں۔ زیادہ تر سیاسی رہنما اندر اسی انداز میں بات کرتے ہیں، مگر باہر آ کر متضاد رویہ اختیار کرکے فوجی سربراہ کو ایسے مقام پر لے آتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو جاتی ہے: مثلاً جب مشرقی پاکستان کے رہنمائوں سے باتیں ہوئیں، تو انہوں نے پہلے 1956ء کے دستور کی بحالی کا معاملہ اپنی پسند کے مطابق طے کروا لیا اور اس کے بعد یحییٰ خاں کو ایک فرد اور ایک ووٹ، کا اصول تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایک قدم اٹھا لینے کے بعد دوسرا قدم بھی اُٹھانا ہی پڑتا ہے"۔
"فوجی حکام اور سیاسی قائدین کے مابین بہت زیادہ میل جول سے ایک اور خطرہ جنم لیتا ہے۔ وہ یہ کہ فوجی قیادت جب سیاسی قیادت کی ذہنی و انتظامی صلاحیتیں قریب سے دیکھتی ہے، تو اُسے خیال آنے لگتا ہے کہ ہمارے اندر زیادہ صلاحیتیں ہیں، اس اعتبار سے ہمیں حکومت کرنے کا حق زیادہ پہنچتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات سامنے آتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اُن کی معلومات اور تجربے بالکل سطحی ہیں۔ یہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی خام خیالی ہوتی ہے، مگر وہ خود فریبی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے اور یہ خیال جاگزیں ہو جاتا ہے کہ میری عقل اِن سب کی عمومی عقل سے زیادہ ہے اور میں ملکی حالات زیادہ نظم و ضبط اور منصوبہ بندی سے چلا سکتا ہوں۔ پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ میرے ہر حکم اور میری ہر خواہش کو قانون کا درجہ حاصل ہے، تو نفس مزید پھول جاتا ہے اور وہ اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیتا ہے"۔
"آپ سوال کر سکتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جواب کی تلاش میں ذرا گہرائی میں جانا ہوگا۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں مارشل لاء کے زمانے میں عوام کے اندر وہی سیاسی جماعت مقبولیت حاصل کرتی ہے جو فوجی حکومت سے تصادم کی راہ پر گامزن ہو۔ فوجی حکومت کا ساتھ دینے والے سیاسی عناصر اپنا اثر کھو دیتے ہیں اور مخالف قوتوں کے سامنے ٹھہرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ عوام کے اندر مزید مقبول ہونے کے لئے فوجی حکومت کی مخالف سیاسی جماعت مزید آگے بڑھ کر دبائو ڈالتی رہتی ہے۔ اب فوجی حکومت اس سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر دیتی ہے، تو وہ سیاسی عمل رک جاتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کے لئے ضروری ہے اور اگر وہ اسے برداشت کرتی رہتی ہے، تو بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس تحمل کو مارشل لاء کی کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے اور نافرمانی اور اشتعال انگیزی کا رجحان تقویت پاتا ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ملک میں دو ہی قوتیں رہ جاتی ہیں: مارشل لاء کی قوت اور اس کی مخالف سیاسی قوت۔ یہ دونوں قوتیں آمنے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ ایک قوت کو فوج کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دوسری قوت کو عوام کی۔ اس طرح عملی طور پر فوج اور عوام ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے ہیں اور پھر فوجی آپریشن ناگزیر نظر آتا ہے اور انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آنے سے پہلے کوئی اور خوف ناک مرحلہ آدھمکتا ہے"۔
"ہم نے 1970ء کے انتخابات میں کیا دیکھا؟ یہی کہ تقریروں کے ذریعے مارشل لاء کے خلاف سخت رویے اختیار کرنے والی جماعتیں قوت بنتی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن کا مطالعہ کیجیے۔ مارشل لاء نے ان کی باتیں شروع ہی میں برداشت کر لیں اور اس عمل سے شیخ صاحب کے حوصلے بڑھے۔ اس مرحلے پر چھ نکات پر پابندی لگا دی جاتی، تو ایجی ٹیشن شروع ہو جاتا جسے دبانے کے لئے فوج کو سخت اقدامات کرنا پڑتے جن کے نتیجے میں سیای عمل بند ہو جاتا۔ یحییٰ خاں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور شیخ مجیب کو آگے بڑھنے دیا۔ اس نرم پالیسی نے اسے مزید شیر بنا دیا اور اس نے آگے چل کر اعلان کر دیا کہ انتخابات دراصل چھ نکات پہ ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس پر خاصا شور بلند ہوا، مگر فوجی حکومت کوئی موثر اقدام نہ کر سکی۔ یحییٰ خاں نے اسلام کی عظمت اور قومی سالمیت کو تحفظ دینے کے لئے ایل۔ ایف۔ او۔ تیار کیا اور اس کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ اس قانونی ڈھانچے میں چھ نکات کے لئے گنجائش نہیں تھی اور آئین کی توثیق صدر نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔ شیخ مجیب الرحمن نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ میں ایل۔ ایف۔ او۔ تار تار کر دوں گا۔ یحییٰ خاں اس نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مشرقی پاکستان آئے اور انہیں شیخ صاحب کے عوامی دبائو اور قوت کے سامنے جھکنا پڑا۔ انہوں نے اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دستور کی توثیق ایک رسمی سی بات ہے"۔
"وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں باقی تمام سیاسی جماعتیں ماند پڑتی گئیں اور عوامی لیگ کے نعروں سے پورا مشرقی پاکستان گونجنے لگا۔ شیخ مجیب الرحمن کی پالیسی، مارشل لاء سے تصادم کی پالیسی تھی اور مشرقی پاکستان کے عوام اس کی شعلہ بار تقریروں میں تنکے کی طرح بہنے لگے۔ انہوں نے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کو عظیم سیاسی قوت عطا کر دی۔ شیخ صاحب نے انتخابات کے بعد منتخب نمائندوں سے حلف لیا کہ وہ چھ نکات کی پوری طرح پاس داری کریں گے۔ وہ جب مارشل لاء حکام سے ملتے، تو یہی کہتے کہ آپ ان باتوں سے پریشان اور مشتعل نہ ہو جائیے، یہ تو عوام کو مطمئن کرنے والی باتیں ہیں۔ مگر معاملہ بگڑا اور آخر کار ایسا مرحلہ آیا کہ فوج کو اپنی طاقت استعمال کرنا پڑی اور انتقالِ اقتدار کے سارے انتظامات بلبلے کی مانند پھٹ گئے"۔
"انہیں دنوں میں نے مشرقی پاکستان کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ اسلام آباد بھیجی۔ اس میں وضاحت سے یہ کیفیت بیان کی گئی کہ اس خطے میں علیحدگی کے رجحانات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ یہ رپورٹ مختلف فوجی افسروں کی نظر سے گزری۔ اُن میں کرنل قیوم بھی تھے جو چیف مارشل لاء ہیڈ کوارٹرز میں اہم منصب پر فائز تھے ان کا ذہن صاف اور جذبہ پاکستان کے بارے میں بہت مستحکم تھا۔ بنگلہ ادب کے دو معروف اہل قلم منیر چودھری اور کبیر چودھری اُن کے بھائی تھے، مگر ذہنی اعتبار سے بہت دور۔ کرنل قیوم کی ایک تقریر شیخ مجیب کے خلاف ڈھاکہ ریڈیو سے نشر ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہ پاکستان ہی میں رہے اور آج دلجمعی سے وطن کی خدمت کر رہے ہیں"۔
"وہ مفصل رپورٹ جنرل مظفر الدین کے نام سے بھیجی گئی جس کا مسودہ میں نے تیار کیا تھا۔ اُس رپورٹ کے چند ہی روز بعد راولپنڈی میرا آنا ہوا۔ چیف مارشل لا ہیڈ کوارٹرز گیا، تو میں نے کرنل قیوم کو جنرل کریم سے باتیں کرتے سنا۔ جنرل کریم کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ آپس میں کہہ رہے تھے کہ وہ کون سا دماغ چلا فوجی افسر ہے جو مشرقی پاکستان میں تحریکِ علیحدگی کا خطرہ محسوس کر رہا ہے؟ میں آگے بڑھا اور بہت ادب سے کہا کہ وہ پاگل افسر میں ہوں۔ میری بات سن کے کرنل قیوم حیرت میں ڈوب گئے اور بولے سر! آپ کس بنیاد پر یہ بات کہتے ہیں؟ میں نے تفصیل میں جانے کے بجائے ان سے پوچھ لیا کہ آپ کو مشرقی پاکستان گئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ جواب ملا چار پانچ سال ہو گئے۔ میں نے کہا اب جا کر دیکھیے اور پھر خود ہی اندازہ لگا لیجیے۔
ایک مہینے کے اندر اندر وہ مشرقی پاکستان تشریف لے آئے، مجھ سے گورنمنٹ ہائوس میں اہتمام سے ملے اور کہنے لگے کہ آپ سچ کہتے ہیں، یہاں کا تو نقشہ ہی بدلا ہوا ہے، علیحدگی کے رجحانات بہت قوی ہیں اور خطرات منڈلا رہے ہیں"۔
"اس واقعے سے دو تین اہم حقیقتوں کا سراغ ملتا ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ رجحانات و جذبات کا سفر بڑا تیز رَو ہوتا ہے۔ عمارتیں وہیں کھڑی رہتی ہیں، مگر دل کی دنیا بدل جاتی ہے اور اس میں تغیر آ جانے سے گوشت پوست کے انسان کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فاصلے، جذبات سمجھنے میں خاص رکاوٹ بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں عموماً یہی ہوتا رہا کہ بڑے بڑے فیصلے کرنے والے، حالات کی تپش سے بے خبر نکلے۔ بے خبری میں ہونے والے فیصلے دل شکستگی اور برہمی پیدا کرتے ہیں۔ ارباب حکومت کے لئے حالات محسوس کرتے رہنا ازبس ضروری ہے۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں فیصلے پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں ہونے لگے۔ اس دوری نے ذہنی و نفسیاتی کیفیت کا لمس محسوس نہ ہونے دیا اور حالات الجھتے گئے"۔
"فوجی حکومت کے لئے عوام کے صحیح جذبات سے قربت حاصل کرنا مزید دشوار ہوتا ہے۔ اس کے اپنے زاویے اور پیمانے ہیں جو کسی اور انداز کی صورت حال دیکھنے اور ناپنے کے لئے بنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لاء کی حکومتیں جذبات و احساسات پر حکمرانی میں یدِ طولیٰ نہیں رکھتیں۔ (ختم شد)