انجام کا آغاز
شکست و ریخت بھارت کا مقدّر ہے، وقت کا تعین ہم نہیں کر سکتے، قادر مطلق نے کرنا ہے جس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ نریندر مودی نے تقسیم کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ بھارت کی کیرالہ سمیت پانچ ریاستوں نے "قانون شہریت" کو تسلیم نہیں کیا۔ ممتابینرجی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ جموں و کشمیر کے بعد بھارت کی وہ ریاستیں پابندیوں کا شکار ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں نہ ان ریاستوں کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے کہ مداخلت کا الزام لگاسکے۔ یہ مکافات عمل ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ جو بات ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ٹویٹ میں کہی، اس سے ملتی جلتی بات 1971ء میں عوامی جمہوریہ چین کے دور اندیش اور ذہین رہنما چو این لائی نے کہی تھی۔" بنگلہ دیش کا قیام بھارت کی فتح نہیں، اس کی شکست و ریخت کا نقطہ ہے"آغاز پاکستان اگر 1971ء کے سانحے سے سنبھلنے کے بعد ٹامک ٹوئیاں نہ مارتا، بھارت سے شکست کا بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کرتا تو شکست و ریخت کا آغازجلد ہوتا مگر وہ جو کہتے ہیں دیر آید درست آید، امریکہ سمیت بھارت کا کوئی ہمدرد و بہی خواہ پاکستان پر یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ وہ کیرالہ، آسام اور دیگر ریاستوں میں احتجاج، ہنگامہ آرائی اور بغاوت میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔
بھارت کے اتحاد و استحکام میں سیکولرازم کو اہم بلکہ بنیادی عنصر قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ فریب کاری ہے۔ 5اگست کے وحشیانہ اقدام کے بعد پاکستان میں بھی یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ نریندر مودی نے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے سیکولر تصور کی نفی کی، بھارت کو انتہا پسند ہندو ریاست بنا دیا، گاندھی کو ان دنوں پاکستان میں اہنساکا پجاری اور مسلمانوں کا دوست ثابت کرنے کے لیے باریک کام ہو رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے لکھا ہے کہ جب پٹیل ہندوستان کی تقسیم میں روڑے اٹکا رہا تھا اور قیام پاکستان کو کسی صورت میں تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا تو یہ گاندھی تھا، جس نے مولانا آزاد کو پیغام دے کر پٹیل کے پاس بھیجا کہ وہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے فارمولے کی مخالفت نہ کرے۔ ایک بار ہندوستان کو آزاد ہونے دے، مسلم لیگ اور مسلم قیادت اس قابل نہیں کہ وہ نوزائیدا ریاست کو سنبھال سکے۔ چھ ماہ میں پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان بھارت کی جھولی میں آ گرے گا۔ پاکستان کے اثاثوں کی واپسی کے لیے اس کا مرن برت اور بھارت چھوڑنے کا اعلان ایک ڈرامہ تھا، ورنہ قیام پاکستان کے وقت ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کا جوقتل عام ہوا اس پر گاندھی نے مرن برت رکھا نہ پٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ کی کبھی مذمت کی۔ سیکولرازم بھی گاندھی کی اہنساپالیسی کی طرح بھارت کا فراڈ تھا، جس کا پردہ بار بار ہندو مسلم فسادات کی صورت میں چاک ہوا اور جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی میں سے کسی نے کبھی ان بلوائیوں کو سزا نہ دی، جو وقفے وقفے سے مسلمانوں کی جان و مال کے ضیاع میں ملوث رہے۔ گولڈن ٹمپل اور اندرا گاندھی کے قتل کے موقع پر مسلمانوں اور سکھوں کا جتنا خون سیکولر بھارت میں بہا، نریندر مودی کے سانحہ گجرات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں، گالی مگر صرف مودی کو پڑتی ہے۔
مسلمانوں سے نفرت بھارت کی انتہا پسند کانگریسی اور غیر کانگریسی قیادت کے رگ و پے میں جذب ہے، پینسٹھ سال سیکولرازم، لبرلزم اور جمہوریت کی عملداری کے بعد کوئی معاشرہ اچانک نریندر مودی کے نعروں سے مسحور ہو کر ہندو توا کا پجاری بنتا ہے نہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق تلف کرنے پر تل جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برہمن ہندو قیادت کے خیالات مسلمانوں کے بارے میں کم و بیش وہی تھے جو آج نریندر مودی اور امیت شا کے ہیں۔ نوجوان نسل کو باور کرایا جاتا تھا کہ سامنے مسلمان اور سانپ آ جائے تو پہلے مُسلے کا سر کچلیں کہ یہ سانپ سے زیادہ موذی ہے۔ سانپ کی تو اس مشرک معاشرے میں کسی نہ کسی جگہ پرستش کی جاتی تھی اور ہے مسلمانوں سے مگر ہر سو نفرت کا پرچار ہوتا، ریلوے سٹیشنوں پر ہندو پانی، مسلم پانی کی آوازیں اور رسوئی میں کسی مسلمان بچے کے داخل ہونے پر بھرشٹ ہونے کی تکرار، ذات پات اور چھوت چھات کے مرض میں مبتلا تنگ نظر سماج کی انفرادیت تھی، جس پر کانگریس نے سیکولرازم کا نقاب ڈال کر ستر سال تک پوری دنیا اور بھارتی اقلیتوں کو دھوکہ دیا، جموں و کشمیر کیخصوصی حیثیت کا خاتمہ، بھارت میں ادغام اور قانون شہریت کے نفاذ سے اس پروپیگنڈے کی نفی ہوئی کہ ستر سال میں بھارت ایک روا دار معاشرے میں تبدیل ہو چکا، یہاں اقلیتیں محفوظ ہیں اور انہیں برابری کے حقوق حاصل۔ قانون شہریت دراصل پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ہندو انتہا پسندوں کو اپنے ممالک کے خلاف اکسانے اور بغاوت کی صورت میں پناہ اور مستقل شہریت کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ الطاف حسین نے اس بنا پر ہندو مذہب اختیار کیا کہ وہ بھارتی شہریت اختیار کر کے برطانوی عدالت میں زیر سماعت مقدمات سے جان بچا سکے۔ 1971ء میں بھارت نے جو جوا پاکستان کے خلاف کھیلا اب نریندر مودی دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف کھیل کر مہا بھارت کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اردگرد کے کتنے ممالک میں عیسائی، یہودی یا دیگر مذاہب کے لوگ ہیں جو بھارتی شہریت قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف غیر ملکی ہندوئوں کو راغب کرنے اور اپنے دائرہ اثر میں لانے کا شرانگیز منصوبہ ہے جو بالآخر بھارت کی شکست و ریخت کا باعث بنے گا۔
کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے قانون شہریت کی مخالفت کی وجہ یہی ہے کہ ممتا بینر جی جیسی شخصیات شیطانی منصوبے کے مضمرات سے آگاہ ہیں اور دوسروں کے گھر میں آگ لگانے کے نتائج کا اندازہ لگانے کے قابل:
جو جلاتا ہے کسی کو خود بھی جلتا ہے ضرور
شمع بھی جلتی رہی، پروانہ جل جانے کے بعد
آغاز جموں و کشمیر سے ہوا، کشمیری مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ اقدامات پر بھارت میں وہ ردعمل نہیں ہوا جو قانون شہریت کے نفاذ پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ پاکستان کو مسلکی، مذہبی، لسانی نسلی، علاقائی تعصبات کی آگ میں دھکیلنے والا بھارت اب خود اندرونی نفرت، تنگ نظری اور تقسیم کا شکار ہے۔ دہلی سے کیرالہ تک ہنگامے جاری ہیں، جگہ جگہ فوج ہنگاموں کو فرو کرنے میں مصروف ہے مگر کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ مودی حکومت کاپہلا سال ہے مزید چار سال میں یہ فصل پک کرتیار ہو گی، پانچ ریاستیں قانون شہریت قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ تئیس ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکوں کی تقویت مل رہی ہے اور انہیں افرادی قوت حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔ شکست و ریخت بھارت کا مقدر ہے۔ نریندر مودی کے ہاتھوں؟ یا کوئی اور یہ کارنامہ انجام دے گا؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ آغاز ہو گیا ہے، انجام خدا کو معلوم۔