Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Allah Dekh Raha Hai

Allah Dekh Raha Hai

اللہ دیکھ رہا ہے

بزرگ صحافی جناب رفیق ڈوگر کی معرکتہ الآرا کتاب تو "الامین" ہے، سیرت النبی ﷺ کی معتبر کتاب، مگر باقی کتابیں بھی لاجواب ہیں۔ ملنے گیا تو انہوں نے "ڈوگر نامہ" عنائت کیا، جس کا ایک باب عبرت انگیز ہے۔ قوانین قدرت سے منحرف لوگوں کی گرفت اور اطاعت گزار بندوں کی تا ابد الآباد تکریم و توقیر کے چند واقعات پیش خدمت ہیں، لکھتے ہیں:

"چودھری محمداشرف حکومت پنجاب کے سیکرٹری تھے اور جنوری کا مہینہ آنے سے پہلے ہی صحرائی خاموشی کے روپ رنگ دیکھنے کے پروگرام کا اعلان کر دیتے"چلنا ہے دو چار راتیں خاموشی کے ہاں گزاریں گے کسی صحرا میں " ایک دفعہ چولستان کی خاموشی سے ہم کلام ہونے کے سفر پر تھے کہ لال سہانرا ریسٹ ہائوس کے منیجر اور علاقہ مجسٹریٹ نے ایک ننھے سے صحرائی سانپ کے، کائنات کے خالق و مالک کے حکم پر لال سہانرا آ کر فوری انصاف کا معجزہ دکھانے کے بارے میں بتایا، منیجر نے مجھے ایک خوبصورت بستر اور کمرہ دکھایا"آپ کے لئے یہ کمرہ ہے رات کی خاموشی میں کمرے سے آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں گھبرانا نہیں وہ کمرے کے مکیں کو کچھ نہیں کہتیں "خاموش آوازوں کی بیداری سے بات چل نکلی اور مختلف افسر اپنے اپنے تجربات بیان کرنے لگے تو لال سہانرا کے منیجر نے کائنات کے خالق و مالک کے ایک ننھے سے سانپ کے ذریعے ایک نوجوان مجرم کو فوری اور سب کی نظروں کے سامنے سزائے موت دینے کا واقعہ سنایا، علاقہ مجسٹریٹ نے اس تصدیق کی اور بتایا کہ "ابھی تک مجرم کی شناخت نہیں ہو سکی"

منیجر نے بتایا "میں سامان ضرورت لینے گیا تھا کہ چولستان کے صحرا سے آنے والی ویگن کے ڈرائیور نے اڈے کے قریب آتے ہی پورے زور سے ہارن بجانا شروع کر دیا۔ ڈرائیور کبھی ایسا نہیں کرتے، اڈے پر اور سڑک پر آنے جانے والے سب لوگ حیران تھے، ڈرائیور کے ویگن روکتے ہی ویگن میں سوار افراد بھاگنے کے انداز میں ویگن سے نکلے اور مردوں نے اپنی چادریں تان کر گول دائرہ بنا لیا۔ اردگرد سے گزرنے والے رُک گئے، میں بھی ان دیکھنے والوں میں کھڑا تھا کہ ہم میں موجود ایک نوجوان زمین پر گرگیا اس کی ناک اور منہ سے خون بہنے لگااور کوئی ایک لفظ کہے بغیر وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہوا کیا ہے اسے؟ ہم اس کی طرف دوڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس کی ٹانگ سے ایک ننھا سا سیاہ سانپ چمٹا ہوا ہے اور اس کے کاٹنے سے اس نوجوان کے ناک منہ سے خون بہنے لگا تھا اور وہ چند لمحوں میں اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا" وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ اس کے ہاتھ سے گری سائیکل کے ساتھ لٹکتے تھیلے کو شناخت معلوم کرنے کے لئے کھولا گیا تو سب نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا، اس کے تھیلے میں کسی خاتون کے کہنیوں سے کاٹے گئے دونوں بازو تھے جو سونے کے زیورات سے بھرے ہوئے تھے، وہ ویگن صحرا سے آئی تھی جہاں سے چلی وہیں سے اس سیاہ سانپ نے بھی اس میں جگہ بنا لی تھی۔ لال سہانرا کے بس سٹاپ کے قریب پہنچے تو ویگن میں سوار ایک خاتون نے شور مچا دیا "میری شلوار میں سانپ داخل ہو گیا ہے"

"اسی وجہ سے ویگن ڈرائیور نے ہنگامی سائرن بجانا شروع کر دیا تھا اور ویگن میں سوار مردوں نے اپنی چادریں تان کر گول دائرہ بنایا تھا۔ سب مردوں نے اپنے منہ اور رخ باہر کی طرف رکھے تھے خاتون نے شلوار کھولی تو سانپ نکل کرگول دائرہ بنانے والے اور وہاں کھڑے مردوں میں سے بھاگتا ہوا اس نوجوان تک گیا تھا اور اسے کاٹ لیا، صحرا سے لال سہانرا تک کے طویل سفر میں سانپ ویگن میں رہا مگر کسی مسافر کو نہ کاٹا، عورت کی شلوار میں داخل ہوا اسے بھی نہ کاٹا۔ اس کی شلوار سے نکل کر اس مجرم تک گیا اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ کٹے ہوئے بازوئوں کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ بازو کسی نوعمر لڑکی کے ہیں۔"

"ہم بچیکی سکول میں زیر تعلیم تھے اور چھٹی کے وقت بازار میں ایک بزرگ درزی کی دکان پر اس کی باتوں سے بھی اسباق حاصل کیا کرتے تھے ایک دوپہر ایک اور بزرگ اس کے پاس بیٹھے تھے اور کچھ لوگ بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ہم بھی ایک طرف بیٹھ گئے۔ وہ بزرگ کوئی ٹھیکیدار تھے اور کسی نہر کی کھدائی کے دوران ایک سانپ کا چشم دید واقعہ سنا رہے تھے "نہر پر ملتان کو جانے والی سڑک کے لئے پل بنانا تھا، میں نے پل کی جگہ کی کھدائی سے نکلنے والی مٹی دور لے جا کر پھینکنے کے لئے صوبہ سرحد کے ایک گدھوں کے مالک کو اجرت پر رکھا ہوا تھا۔ ایک دوپہر میں کرسی پر بیٹھا کھدائی اور مٹی اٹھانے لے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ جب ایک نوعمر لڑکا گدھے لے کر آتا ہے تو کھدی ہوئی جگہ میں سے بل کے اندر سے ایک سانپ سر باہر نکال کر اسے دیکھتا رہتا ہے اور جب وہ لڑکا گدھے لے کر وہاں سے چلا جاتا ہے تو سانپ سوراخ میں چھپ جاتا ہے۔ میں سانپ کو سوراخ سے نکلتے وقت اورجاتے دیکھتا رہا جب گدھوں کے دوسرے گروپ کو لانے لے جانے والا وہاں آتا تھا تو سانپ سر باہر نہیں نکالتا تھا۔ میں نے گدھوں کے مالک کو بلایا اور اسے کہا کہ "اس لڑکے کو فوری چھٹی دیدو" اس نے اس کی جگہ دوسرے لڑکے کو گدھے لانے لے جانے پر لگا دیا اوراسے کہا "تم جائو ڈیرے پر صفائی کرو" ان کا ڈیرہ وہاں سے کچھ فاصلے پر تھا وہ لڑکا دور چلا گیا تو میں نے وہ جگہ کھودنے کو کہا جہاں سے سانپ اسے دیکھنے کو سر نکالتا تھا وہ کسیوں سے جگہ کھودنے لگے تو سانپ کا جسم کٹ گیا وہ اسے بھی مٹی کے ساتھ دور پھینک آئے، آسمان پر اڑتی ہوئی ایک چیل اس مٹی پر اتری اور مٹی سے سانپ کا جسم اٹھا کر ادھر کو اڑنے لگی جدھر وہ لڑکا گیا تھا۔ میں نے پیچھے آدمی دوڑائے لیکن ان کے جانے سے پہلے ہی وہ لڑکا مر چکا تھا۔ چیل نے بلندی سے نیچے آ کر اس سانپ کا سر اس لڑکے کے سر پر پھینک دیا تھا، سانپ کے کٹ جانے کے بعد بھی اس کا مُنہ سلامت تھا اور اس نے اس لڑکے کے سر پر ڈنگ مار کر اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا"

"اردو کے نامی گرامی شاعر شہزاد احمد الطاف گوہر کی روٹی سکیم جائن کرنے سے پہلے ایک فیکٹری میں ملازم ہوتے تھے۔ ایک واقعہ ایک دفعہ انہوں نے بتایا تھا"فیکٹری میں دن کی شفٹ میں کام کرنے والے چھٹی ہونے پر گھروں کو جارہے تھے ان میں ایک نوجوان فیکٹری کے قریبی سٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا، شیخو پورہ کی طرف سے ایک تیز رفتار مسافر بس قریب آئی تو اس کا اگلہ پہیہ الگ ہو گیا۔ ڈرائیور نے ہنگامی بریک لگا کر بس روک لی بس میں سوار مردوزن سب محفوظ رہے لیکن بس سے الگ ہونے والے پہیہ نے سٹاپ پر کھڑے اس فیکٹری ملازم لڑکے کو اس تیزی سے ٹکر ماری کہ وہ زمین پر گرا اور پاس کھڑے دیگر ملازمین کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔

بی اے قریشی مغربی پاکستان کے سیکرٹری رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میوزیم کے ایڈمنسٹریٹرنے ایک دفعہ بتایا کہ دربار حضرت داتا گنج بخش ؒکی عمارت کی تعمیر نو کا فیصلہ ہوا تو نئی عمارت اور اس کے احاطہ کی چار دیواری کی تعمیر کا کام ان کی ذاتی نگرانی میں ہوا تھا"مزار داتا صاحب کے اردگرد بہت بڑا قبرستان بن چکا تھا ان قبروں کو کھود کر سلامت اجسام کو دوسری جگہ منتقل کرنے اور باقی قبروں کی جگہ صاف کردینے کا منصوبہ بنا کر میں نے اپنے محکمہ کے ملازمین کی ایک ٹیم بنا دی۔ وہ یہ خدمت رات کے وقت انجام دیتے تھے تاکہ اہل شہر احتجاج نہ کریں، ایک رات اس ٹیم کا سربراہ میرے گھر پہنچ گیا اور بتایا کہ سرکاری ملازموں کی ٹیم نے کام بند کر دیا ہے؟۔ کیوں کام بند کر دیا ہے سرکاری ملازموں نے؟ اس نے بتایا "میرے ساتھ چلو اور دیکھ لو اور ملازمین سرکار کو خود آمادۂِ کار کرو" میں اس کے ساتھ داتا ؒدربار گیا اور کھودی قبر میں سوئے ہوئے مسلمان کو دیکھ کر ششدر رہ گیا اس کے کفن پر مٹی کا داغ تک نہیں تھا۔ یہ ہے کون؟ میں نے اس کی قبر کا کتبہ پڑھا تو لکھا تھاکہ وہ انگریز تھا اور لاہور میں قیام کے دوران قرآن پاک پڑھ کر مسلمان ہو گیا تھا" ایمان کامل انعام کامل۔ بے داغ کفن میں قبر میں زندگی بسر کرنے والے خواتین و حضرات پر خالق و مالک کے انعامات کے چشم دید واقعات مزید بھی ہیں مگر تفصیل درکار ہے۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad