40علمی نشستیں
خلافت نے ملوکیت کا روپ دھارا اور مسجد و مکتب میں بھی ملوک و سلاطین ظلِ الٰہی پکارے جانے لگے تو خانوادہ نبوتؐ کے تربیت یافتہ علماء و صلحا نے اپنی الگ دنیا بسا لی، سیاست اور روحانیت دو متوازی دھاروں کی صورت الگ الگ رواں دواں، مسلمانوں کی سیاسی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو اپنے اقتدار کی شبِ تاریک کو طول دینے کے لیے ریاستی سرمائے، قبائلی عصبیتوں، مکارانہ چالوں اور ظالمانہ تدبیروں کو استعمال کرنے کے ہنر سے آشنا اور دجل و فریب، ترغیب و تحریص وحشت و درندگی کے جملہ اسالیب برتنے کے خوگر تھے۔
روحانی قیادت کا سرمایۂ حیات خداخوفی، صبر، توکل، تقویٰ، فقر و درویشی، تزکیۂ نفس، امانت، دیانت اور اعلاء کلمۃ اللہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا فروغ نصب العین اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج مقصد حیات۔ قیادت کی یہ تقسیم عمل میں آئی تو مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے زندگی کے ٹھوس اور تلخ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے موخرالذکر قیادت کو اپنی آرزوئوں اور امنگوں کا مظہر ٹھہرا لیا مگر اوّل الذکر سیاسی قیادت کے ذریعے قومی سیاسی ڈھانچے کو برقرار رکھا۔
دوسری قسم کی قیادت کے پاس سلطنت تھی نہ ریاستی مناصب، رعایا کے عام افراد سے بڑھ کر مفلوک الحال اور تنگ دست، اس قیادت کا دائرہ اختیار و اقتدار بہت زیادہ وسیع تھا۔ انسانی دل و دماغ پر حکمرانی کرنے والے یہ صلحاء و اولیا بیک وقت لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے مرجع عقیدت تھے اور بڑے بڑے فرعون صفت سلاطین و ملوک ان سے خوف کھاتے، یہی لوگ تھے جن کی مجلسوں اور خانقاہوں میں مقیم خاک نشیں، عظیم المرتبت کجکلاہوں کو خاطر میں لاتے نہ آنکھ اٹھا کر دیکھتے۔ محمود و ایاز کو ایک صف ہی میں کھڑا کر کے کھری کھری سناتے۔
ہمارے ممدوح حضرت قبلہ سید سرفراز شاہ صاحب کا تعلق صوفیا کے موخرالذکر برگزیدہ سلسلے سے ہے۔ انسانوں کو خدا سے جوڑ کر دلوں پر حکمرانی کرنے والا گروہ، وہ صوفیا جو لوگوں کو اپنے حسنِ کلامِ، حسنِ اخلاق اور حسنِ سیرت سے گرویدہ کرتے، مالک حقیقی کے قریب لاتے اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریزجام پلاتے ہیں۔ جید صوفیا کرام نے کسی اللہ والے کی پہچان یہ بتائی کہ اس کی محفل میں انسان ما سوا اللہ کو بھلا بیٹھے، قلب و روح پاکیزہ خیالات کی آماجگاہ بنے۔ سید سرفراز شاہ صاحب بھی ایسے ہی اللہ والے ہیں۔ ؎
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سید سرفراز شاہ صاحب کی مجلس میں موضوع کوئی بھی زیر بحث ہو، تان ہمیشہ خالق و مالکِ حقیقی اللہ عزوجل سے بالواسطہ نہیں بلا واسطہ جڑنے، مانگنے اور مانگتے چلے جانے پر ٹوٹتی ہے اور انسان کچھ دیر کے لیے صرف اپنے رب کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ خدائے واحد سے گہری وابستگی اور خلق خدا سے محبت کا درس دینے والے شاہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مراقبہ و مکاشفہ کی صلاحیت سے نوازا ہے اور زبان و بیان پر کامل قدرت کی نعمت سے بھی، وہ اپنے حلقہ نشینوں کے ہر سوال کا جواب اس کے ذوق و ظرف کے مطابق عطا کرتے ہیں مگر زور ان کا ہمیشہ قرب الٰہی کے حصول اور اللہ تعالیٰ کےحبیب سید الانبیاء حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و وارفتگی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی پر ہوتا ہے کہ یہی ہر کلمہ گو بلکہ ذی نفس کا مقصود و مطلوبِ حیات ہونا چاہیے۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب بوریا نشین ہیں نہ حامل جبہ و قبا، حُلیے سے جدّت کی علامت مگر قلب و روح پر قدامت اور روحانیت کا غلبہ۔ معروف معنوں میں ملامتی سلسلے کا فرد، محفل میں حقیقی عالم، صوفی اور درویش کی جملہ صفات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
سید قاسم علی شاہ صاحب کی اپنی منفرد شخصیت ہے موٹیویشنل سپیکر کے طور پر ان کی خاص پہچان ہے مگر ہیں وہ بھی درویش منش انسان اور تصوّف و سلوک کی وادیوں کے مسافر۔ قاسم علی شاہ صاحب سید سرفراز شاہ صاحب کے حلقہ بگوش اور خوشہ چیں ہیں اور شاہ صاحب بھی انہیں اپنے خاص الخاص عقیدت مندوں میں شمار کرتے ہیں۔ خانوادۂ سادات کے دونوں سپوت ہم کلام ہوں تو بہت سے لاینحل مسائل کی گرہیں کھلتی ہیں۔ "40علمی نشستیں" سید قاسم علی شاہ کے سوالات اور سید سرفراز شاہ صاحب کے جوابات کا مجموعہ ہے۔
قاسم علی شاہ صاحب نے عقیدت مندی کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھ کر موجودہ دور کے روز مرہ مذہبی، روحانی اور مادی اشکالات کو سوالات کی صورت میں شاہ صاحب کے سامنے رکھا اور سرفراز شاہ صاحب نے سہل و سادہ صوفیانہ انداز میں پیچیدہ مضامین کی عقدہ کشائی کی، اپنے عقیدت مندوں کی ذہنی، رُوحانی اور نفسیاتی الجھنوں کو حکیمانہ انداز میں سلجھایا۔ یہی شاہ صاحب کا مخصوص، منفرد، دل کش اور روح پرور انداز ہے۔ شاہ صاحب کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے مجھے اشاعت سے قبل "40علمی نشستوں" کے مطالعہ کا موقع فراہم کیا اور میں نے غنیمت جان کر کچھ لکھنے کا حوصلہ کر ڈالا۔ ؎
جے یار فرید قبول کرے، سرکار وی توں سلطان وی توں
نہ تاں کہتر، کمتر، احقر، ادنیٰ، لاشئے لا امکان وی توں