سیاسی بیانات
ہمارے تمہارے دلوں کے وزیر اعظم شہباز شریف کے فوکل پرسن ابوبکر عمر نے کہا ہے کہ" شہاز شریف 2010 میں نوکیا 3310 استعمال کرتے تھے"۔
اور اب بھی وہ اس زمانے کو یاد کر کر کے آہیں بھرتے ہیں کہ کیا بھلا زمانہ تھا۔ نہ سوشل میڈیا تھا نہ ایسے کلپس کی بھرمار ہوتی تھی جو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ سے ہوتے ہوتے چند لمحوں میں کروڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب ایک ویڈیو کلپ سے جان چھوٹتی ہے تو ایک اور گردش کرنے لگتی ہے۔ اس زمانے میں چند چینل ہوتے تھے اور گنتی کے چند اینکرز۔ اب ہر کوئی ایک چینل کھول کے بیٹھا ہوا ہے۔ اور تو اور فیس بک پر بھی نیم مزاحیہ اداکاروں نے مت ماری ہوئی ہے۔
دوسری قباحت یہ ہے کہ دس دس سال پہلے کی میری تقاریر کے کلپس اٹھا لاتے ہیں۔ بھائی جوشِ خطابت بھی کوئی شے ہے کہ نہیں؟ ایک کلپ سن دوہزار آٹھ کا ہے۔ سچ ہے کہ میں نے تقریر میں کہا تھا کہ "آئندہ جب میں آپ سے مخاطب ہوں گا تو بتاؤں گا کہ ملک کو کس طرح عظیم بنایا جائے گا"۔ اب سوشل میڈیا والے سوال کرتے ہیں کہ وہ کون سا طریقہ تھا۔ سیدھا سادہ جواب ہے کہ پائی یان تا حیات وزیر اعظم بنا دیے جائیں۔ اتنی سی بات ہے جو ان ناہنجاروں کے بھیجے میں داخل ہی نہیں ہو رہی۔
کہتا میں کچھ ہوں سوشل میڈیا والے اس کا کچھ اور مطلب نکال لیتے ہیں۔ اب دیکھیں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گریٹس کے دورے پر میرا ان کی پشت پر تھاپڑا محبت کا اظہار تھا مگر سوشل میڈیا اب تک اس کی بھد اڑانے پر تلا ہوا ہے۔ نوکیا 3310 اس لحاظ سے ایک نعمت تھا۔ اس پر ایسی واہیات چیزیں بھیجنے اور اپ لوڈ کرنے کا انتظام ہی نہیں تھا۔ اب وہ اقبال کی نظم ہمالہ کا آخری شعر پڑھتے ہیں اور رندھی رندھی آواز میں مجھے سناتے ہیں
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
اور اشکبار آنکھوں سے اقبال کی عظمت گن گاتے ہیں کہ وہ کس قدر دوراندیش شاعر تھے کہ وہ ان سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی مستقبل کی سرگرمیوں سے آگاہ تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ"الیکشن سے قبل عمران خان کی سیاست ختم ہو جائے گی" اس لیے پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح الیکشن منعقد ہی نہ ہوں اور عمران خان کی مقبولیت کا کام تمام ہو جائے۔ اس سلسلے میں ہمارا الیکشن کمیشن سے پورا پورا مک مکا ہوا ہوا ہے۔ جو کام ہم سیاسی میدان میں نہیں کر سکتے وہ الیکشن کمیشن کے ذریعے کرنے کا احسن انتظام کیا ہوا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو اس کی اس طرح کی کارگزاری پر سینٹ کی ممبری بھی ارزاں کر دی جائے۔
آخر وہ برادری بھائی رانا مقبول سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اب چیف الیکشن کمشنر کے تعاون کی کیا کیا کہانیاں سناؤں۔ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔ یہ محبت کا قصہ ہے جو اصل میں دو روحوں کا میل تھا۔ الیکشن کمشنر نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ کسی نہ کسی کیس میں اس عمران کا مکو ٹھپ دیا جائے گا۔ جب گریڈ 22 کا آفیسر یہ بات کر رہا ہو تو اس پر یقین آنا ایک لازمی امر ہے۔ دوئم اب آپ نو حلقوں کی کہانی سنیں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ پہلے نو حلقوں کے ممبران کے استعفے منظور کئے۔ پھر الیکشن کا اعلان کیا پھر الیکشن ملتوی کر دیا۔ پھر استعفٰی قبول کرنیوالا نوٹیفکیشن معطل دیا۔
ایک بات یاد رکھیں کہ اگر عمران کی سیاست کا خاتمہ الیکشن سے پہلے نہ ہوا تو الیکشن کمشن سے مل کرالیکشن میں ہم جو جیہی تیہی پھیرتے ہیں وہ سب نے دیکھی ہوئی ہے۔ ہم ہر طریقہ آزما رہے ہیں کوئی نہ کوئی طریقہ کارگر ضرور ہو گا۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔
اپنے اخبار کے مطابق "سیہون کے دورے کے دوران وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی کشتی تیل ختم ہونے کے باعث بند ہوگئی۔ کشتی چلانے والی ٹیم کو پانی میں اتر کر کشتی کو دھکا لگانا پڑا"۔
اس کشتی کی مثال اپنے ملکِ عزیز پاکستان کی سی ہے۔ اپنے ملک کا بھی تیل ختم ہی سمجھیے۔ آقا زرداری کے فرمان پر ہم نے سندھی عوام کا اپنے تئیں سارا تیل نکال لیا ہے مگر ایک آدھ قطرہ باقی ہو تو اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سعی مشکور جاری ہے کہ اس کا بھی کوئی انتظام کیا جائے اور ان کو نچوڑ کر جو آدھی پَونی کْپی نکلتی ہے وہ بھی نکال لی جائے۔ اپنی اور آقا زرداری کی پوری کوشش ہے کہ ملک کا تیل ختم نہ ہو۔ اگر یہ ٹنٹا ہی ختم ہو گیا تو کاہے کی سیاست۔ اصل میں تو ہم اس گرادب سے ملک و قوم کی کشتی باہر نکال کر لائیں گے۔ اگر عوام کو کشتی کو دھکا لگانا پڑا ہے تو وہ فکر نہ کریں ہر کام منجانب اللہ ہے۔ انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اور شاعر مرزا محمد رضا خاں برق کہہ گئے ہیں کہ
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
مسلم لیگ ن کے برین اور ہمارے دفاع کے ذمہ دار وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ "نئے آرمی چیف کا تقرر حکومت کا آئینی اور قانونی اختیار ہے یہ حق استعمال کیا جائے گا مگر ابھی غور شروع نہیں کیا"۔ اور جب ہم غور کرتے ہیں تو لگ پتہ جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم ملک کے بڑے بڑے مسائل پر غور کرتے ہیں اور ایسا قدم اٹھاتے ہیں کہ ملک مزید پیچھے چلا جاتا ہے اور ہم اقتدار سے دس دس سال تک نکال دیے جاتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہیں تو اپنے غوروخوض کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑا تھا۔ ویسے بھی سوچنا اور سمجھنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
وما توفیقی الا باللہ