کپتان معافی مانگیں
ہم سیاست میں انتہاء کے قائل نہیں، ہم پہلے بھی کہتے رہے اوراب بھی کہتے ہیں کہ حکمرانوں اورسیاستدانوں کوانتہاء پرنہیں جاناچاہئیے۔ جہاں سے واپسی کاراستہ نہ ہووہاں جانے کاتک ہی نہیں بنتا۔ سیاست کاکام اورمقصدہی انتہاء سے پہلے پہلے مسائل اورمعاملات کوسلجھادیناہے مگرافسوس ہمارے حکمران اورسیاستدان اقتدار، طاقت اورکرسی کے نشے میں اس قدرمدہوش اورپاگل ہوجاتے ہیں کہ یہ پھرچھوٹے چھوٹے مسائل اورمعاملات کوبھی سلجھانے کے بجائے اس قدرالجھادیتے ہیں کہ وہ پھرحل اورٹھیک ہونے کانام ہی نہیں لیتے۔
سیاست میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی دروازہ کھلارکھناپڑتاہے جولوگ طاقت اورکرسی کے زورپر سیاست میں سارے دروازے بندکردیتے ہیں وقت آنے پرپھران پربھی سارے دروازے بندہوتے ہیں۔ کسی کویقین نہ آئے تواڈیالہ میں بیٹھے قیدی نمبراٹھ سوچارسے ذرہ پوچھ لیں۔ یہ صاحب بھی سیاست میں انتہاء کوپہنچ گئے تھے۔ ہم نے اس وقت بھی کہاتھاکہ اس صاحب کواس نہج اورمقام تک نہیں جاناچاہیئے جہاں سے کل کوپھرواپسی کاکوئی راستہ ہی نہ ہو۔
سیاست میں ہرکسی کومخالف اوردشمن نہیں بنایاجاتا۔ میدان سیاست میں تومرضی، پسنداورخواہش کے برخلاف بھی کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں اوربسانہیں بلکہ اکثراوقات دل اورضمیرکے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی سیاسی مخالف اورغیر سے بنانی پڑتی ہے کیونکہ سیاست میں اچھے وقت کے ساتھ برے ٹائم کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کیا معلوم کہ کس موڑ پر بنا بنایا کھیل خراب اوربازی ہی الٹ جائے۔ اقتداراورکرسی یہ توآنی جانی چیزہے۔ آج ہے توکل نہیں ہوگی۔ کل جومسنداقتدارتھے وہ آج نہیں اوریہ جوآج کرسی واقتدارپربراجمان ہیں کل کو یہ بھی نہیں ہوں گے۔ کرسی واقتداریہ توپھیرنی کا پھیر ہے۔ جس طرح پن چکی گھومتی ہے اسی طرح طاقت اوراقتدارکی کرسی بھی گھومتی رہتی ہے۔ اگلا نمبر اور واری کس کی ہوگی یہ کسی کومعلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر حکمران اور سیاستدان اپنی واری پر سب سے پنگا لیکر بیٹھ جائیں تو پھر نمبر گزر جانے کے بعد آرام سے وہ خود بھی نہیں بیٹھتے۔ کچھ دن پہلے چائے کی میز پر ہم کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے۔
دوستوں میں ایک دوست راشد خان جسے یار دوست پیار سے موٹا بھی کہتے ہیں اور یہ عمران خان کے بڑے شیدائی ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کی طرح تبدیلی کاکیڑاایک زمانے میں اسے بھی بہت تنگ کیا کرتاتھا، اب تووہ کیڑامرچکاہے لیکن خان سے اس کی محبت اورچاہت آج بھی باقی ہے کہنے لگے کہ باقی باتیں چھوڑیں یہ بتائیں کہ ہمارے خان کاکیاہوگا؟ محفل میں بیٹھے ایک دوست نے فوراً کہا کہ آپ نے نہیں سنا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ تمہارے کپتان نے اپنے وقت، اقتدار اور حکمرانی میں جو کچھ کیا تھا آج وہ وہی کچھ تو بھر رہے ہیں۔ بزرگ کہاکرتے تھے کہ جوبوئوگے وہ پھرکاٹوگے۔ گندم بوکرچاول پھرکوئی نہیں کاٹتابلکہ گندم ہی کی فصل پھرکاٹنی پڑتی ہے۔
شیخ سعدی رحمتہ اللہ نے حکایات سعدی میں کیازبردست حکایت بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ چند بڑے لوگوں کے ہمراہ میں ایک کشتی میں بیٹھا ہوا تھا، ایک ڈونگی ہمارے سامنے ڈوب گئی جس کی وجہ سے دو بھائی بھنور میں بری طرح پھنس گئے۔ سرداروں میں سے ایک سردار نے ملاح سے کہاکہ ان دونوں کو پکڑ کر یعنی بھنور سے نکال دیں میں ہر ایک کے عوض پچاس دینار سرخ جو (سونے کا ہوتا ہے) دوں گا۔ ملاح پانی میں گھسا اور ایک کو نکال لایا اور دوسرا ہلاک ہوگیا۔
شیخ سعدی فر ماتے ہیں کہ میرے منہ سے نکلا کہ اس کی عمر باقی نہیں رہی تھی، اسی وجہ سے ملاح تو نے اس کے نکالنے میں دیر لگادی اور دوسرے کے نکالنے میں جلدی کی۔ ملاح ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ جو آپ نے فر مایا وہ یقینی بات ہے لیکن ایک سبب اور بھی ہے میں نے کہا وہ کیا ہے؟ میری دلی رغبت اس ایک کے نکالنے میں زیادہ تھی۔ اس لئے کہ کسی وقت میں جنگل میں تنہاء رہ گیا تھااور اس نے مجھے اونٹ پر بٹھا کرمیری بہت مددکی تھی جبکہ اس دوسرے کے ہاتھ سے میں نے بچپن کے زمانے میں بہت کو ڑے کھائے تھے، اس نے اپنی طرف سے مجھے بہت ماراتھا۔
یہ سن کر میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فر مایا ہے کہ جس نے نیک عمل کیا اپنے نفس کے فائدہ کیلئے کیااور جس نے برا عمل کیا وہ بھی اپنے لئے کیاکیونکہ اس برے عمل وفعل کا نقصان اس کوضرور پہنچے گا۔ اسی حکایت میں شیخ سعدی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک تجھ سے ہو سکے کسی کے دل کو مت چھیل، کسی کومت ستاکیونکہ اس راستے جس پرتم جارہے ہواس میں قدم قدم پر بہت کا نٹے ہیں، ہمیشہ حاجت مند فقیر کے کام کو پورا کر کہ تجھ کو بھی اس سفرمیں بہت سے کام پیش آنے ہیں۔
انسان سے جتناہوسکے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے، ہر ایک کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے چاہئیں۔ حاجت مندوں کی ضرورت حتی الامکان پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پورا تو صرف ایک اللہ ہے باقی کوئی بادشاہ ہے، صدر ہے، وزیراعظم ہے، وزیراعلیٰ، گورنر یا وزیر اور مشیر سب ایک دوسرے کے ضرورت مند ہے۔ انسان تو پیدا ہی بہت کمزور ہے، یہ دولت، صحت، طاقت، اقتدار اور کرسی یہ سب چیزیں توایک ہاں صرف ایک جھٹکے کی مارہے۔ یہاں محرم کومجرم اورمجرم کومحرم بننے میں ٹائم نہیں لگتا۔ ہم نے تویہاں صبح کے تخت نشینوں کوشام سے بھی پہلے مجرم بنتے دیکھاہے۔ اس لئے توکہاجاتاہے کہ دوسرے انسانوں اورغیروں کے ساتھ بھی اچھا برتائو، نیکی اورحسن سلوک کرنا چاہئے تاکہ ضرورت کے وقت پھریہ کام آسکیں۔
کپتان آج اکیلے اس لئے ہیں کہ انہوں نے اقتداراورکرسی کے زمانے میں خودکوسب سے الگ کردیاتھا۔ یہ سب کو اگر چور، ڈاکو اور دشمن نہ بناتے تو آج یہ اس طرح تنہاء نہ ہوتے۔ خودپسندی، خودغرضی اور تکبر و غرور نے کپتان کوکہیں کانہیں چھوڑا۔ وہ جوفرعون کے لہجے میں کل تک دوسروں کولتاڑرہاتھاآج خوداڈیالہ میں وقت کے حکمرانوں کیلئے عبرت کانشان بنابیٹھاہے۔ دوسروں کولتاڑنے اورگھسیٹنے والے اس دنیامیں بڑے آئے اورگئے، آج کسی کانام ونشان بھی نہیں۔
کپتان کی فلاح اسی میں ہے کہ یہ رب سے رجوع کرکے اپنے کئے کی معافی مانگیں۔ رب کے سامنے سر جھکانا اور گڑگڑا کر معافی مانگنایہ بھی عبادت ہے۔ خان اگرسچے دل سے رب سے معافی مانگیں توشائدکہ کپتان اس مشکل اورآزمائش سے کل نہیں آج ہی نکل آئیں کیونکہ دنیاکے ہردرسے انسان مایوس اورناامیدہوجاتاہے لیکن رب کے درسے توآج تک نہ کوئی مایوس ہوااورنہ کوئی خالی ہاتھ آیا۔