اُڑان پاکستان، ایک خواب
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کی معاونت سے معاشی ترقی منصوبے "اُڑان پاکستان" کا آغاز کردیا گیاہے۔ اُڑان پاکستان منصوبہ ان شاء اللہ 2029ء تک 3ٹریلین اور 2035ء تک 10ٹریلین ڈالرزکی معیشت بنانے کے لیے ایک جامع روڈمیپ کے طورپر کام کرے گا۔ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے 5ایز برآمدات، ای پاکستان، ماحولیات، توانائی، شفافیت اور خودمختاری پرتوجہ مرکوز کرتے ہوئے دائمی معاشی مسائل سے نمٹنے کی خاطر 5سالہ "اُڑان پاکستان" پروگرام کاآغاز کردیا ہے۔
اِس منصوبے کاآغاز وفاقی وزراء اور چاروں صوبوں کے نمائندوں کی موجودگی میں اسلام آبادمیں کیاگیا۔ وزیرِاعظم نے فرمایاکہ آئی ٹی، زراعت، کان کنی اور معدنیات کے شعبوں کی ترقی سے متعلق 5سالہ منصوبے کی کامیابی قومی اتحاد، سیاسی ہم آہنگی، سیاسی جماعتوں، اداروں اور تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں سے منسلک اور مربوط ہے۔ اِس منصوبے کے تحت سالانہ 60ارب ڈالرزکی برآمدات کاہدف رکھاگیا ہے۔
اُڑان پاکستان فی الحال توایک دِل خوش کُن خواب ہی ہے جس کی تعبیربھی ان شاء اللہ ایسی ہی ہوگی لیکن 54ماہ کے بعد 10جنوری کو پی آئی اے نے اسلام آبادسے پیرس کے لیے پہلی اُڑان بھرچکی۔ یورپی یونین کی پابندی کے خاتمے کے بعد اب پی آئی اے کی پروازیں دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔ پیرس کے لیے طیارے میں 323 سیٹوں کی گنجائش تھی جوپہلے ہی بُک ہوچکی تھیں۔ اِس طرح پی آئی اے کو 11کروڑ روپے سے زائدکا نہ صرف ریونیو حاصل ہوگا بلکہ یورپی آپریشنزکی تقریباََ ساڑھے 4سالہ معطلی بھی ختم ہوگئی۔
پیرس پہنچنے پرپی آئی اے کے مسافروں کا شاندار استقبال ہوااور ایئرپورٹ پرکیک کاٹنے کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ معطلی کیوں اور کیسے ہوئی؟ مئی2020ء میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی وجہ سے یہ معطلی عمل میں آئی۔ 25جون 2020ء کواُس وقت کے وزیرِہوابازی غلام سرور خاں نے پارلیمنٹ میں بیان دیاکہ 262پاکستانی پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں جن میں سیرین ایئرکے 10اور ایئربلیو کے 9کپتان بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پی آئی اے کے 148پائلٹس گراؤنڈ اور 128کے خلاف انکوائری مکمل ہوچکی اورجوپائلٹ ریکروٹ ہوئے وہ سب 2018ء سے پہلے کے 2ادوار کے لوگ ہیں۔
وزیرِہوابازی کے اِس بیان کے بعد 30جون کو یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے معطل کردیئے۔ اِس کے بعد برطانیہ نے بھی PIAکی پروازوں پرپابندی عائد کردی۔ ویت نام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے مشتبہ لائسنس کی اطلاعات کے بعدتمام پاکستانی پائلٹس کوگراؤنڈ کردیا۔ اِس کے علاوہ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز نے بھی وہاں کام کرنے والے پائلٹس اور فلائیٹ آپریشن افسران کے لائسنس کی جانچ پڑتال کے لیے پاکستانی حکام کوخطوط لکھ دیئے۔
بعدازاں تحقیقات سے ثابت ہواکہ وزیرِہوابازی کابیان غلط تھااور محض چند پائلٹس کے لائسنس ہی مشکوک تھے۔ اِس پر اُس وقت کے وزیرِاعظم عمران خاں نے بھی تسلیم کیاکہ اِس معاملے کومِس ہینڈل کیاگیا۔ اٹارنی جنرل نے بھی عدالت میں غلطی تسلیم کی اور اسلام آبادہائی کورٹ نے کہاکہ غلام سرورکا بیان لاپرواہی پرمبنی تھا۔ سوال مگریہ ہے کہ جوشخص پاکستان کی بدنامی کاباعث بنااور ڈانواں ڈول PIAکو مکمل طورپر برباد کرگیا، کیااُس کے لیے کوئی سزا نہیں اور کیاوہ قومی مجرم نہیں؟
آج PIAکا یہ حال ہے کہ اِس کاکوئی خریدار نہیں حالانکہ یہی وہ ایئرلائن ہے جس کانعرہ بجاطور پر "باکمال لوگ، لاجواب سروس" تھا۔ یہی وہ ایئرلائن ہے جس کے ہاتھوں متحدہ عرب امارات کی ایمرٹس ایئر تشکیل پائی لیکن کچھ لوگوں کے ذاتی مفادنے اِس کی تباہیوں کی داستان رقم کی۔
آج PIAاُڑان بھرچکی اور اُمیدِواثق کہ اُڑان پاکستان منصوبہ بھی ان شاء اللہ بہت جلداپنی رفعتوں کوچھونے لگے گا کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ منصوبہ ہے اُن کی نیت نیک، محنت انتھک اورلگن بے حساب۔ وجہ یہ کہ یہی وہ حکومت ہے جوڈیفالٹ ہوتے پاکستان کی نیّا کوکنارے تک لے آئی جس کی تعریف اُس کے ازلی و ابدی دشمن عمران خاں نے بھی کی۔ اڈیالہ جیل میں بیٹھے بانی کی یہ خواہش کہ پاکستان کے 3ٹکڑے ہوجائیں، ایٹمی پروگرام کیپ ہوجائے اور پاکستان ڈیفالٹ کرجائے لیکن اُس کی یہ خواہش ہمیشہ تشنہ ہی رہے گی۔
اُس نے اوورسیز پاکستانیوں کوحکم دیاکہ وہ پاکستان میں ترسیلاتِ زَر کم ازکم بھیجیں لیکن ہوایوں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستانیوں نے دسمبر 2024ء میں ہی 3.07ارب ڈالرز بھیج کر دسمبر 2023ء سے 29فیصد زائد ترسیلاتِ زَرکیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستانیوں نے سعودی عرب سے 77کروڑ، متحدہ عرب امارات سے 63کروڑ، برطانیہ سے 45کروڑ، یورپ سے 36کروڑ اور امریکہ سے 28کروڑ ڈالرز بھیجے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستانیوں نے 33فیصد زائدرقوم بھیجیں جو 17ارب 84کروڑ ڈالرز ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کرگھاٹ گھاٹ کاپانی پینے والے پی ٹی آئی کے رَہنماء شیخ وقاص اکرم نے کہاکہ اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات روکنے کی اپیل کااثر اگلے دو، تین ماہ میں نظر آئے گا۔۔ شرم تم کومگر نہیں آتی۔
یوں تو ہم سوشل میڈیاپر سُنتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت نے صرف چندماہ میں پاکستان کی تاریخ کاسب سے زیادہ قرض لیااور بانی تحریک کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھنے والے اِس جھوٹ پریقین بھی کرتے آرہے ہیں لیکن اصل حقیقت کچھ اورہے۔ گورنرسٹیٹ بنک جمیل احمدنے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ اڑھائی سال میں غیرملکی قرض میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایاکہ رواں مالی سال میں کم ازکم 35ارب ڈالرکی ترسیلات آئیں گی۔ قلیل عرصے کے لیے 8ارب ڈالرکا پوراقرض بھی واپس کردیا گیاہے۔
گورنرسٹیٹ بنک کے اِس بیان کے بعداُمید بندھ چلی ہے کہ شرح سودبھی بہت جلد 9فیصد یعنی سنگل ڈیجٹ تک پہنچ جائے گی۔ صاف ظاہرہے کہ جب شرح سود سنگل ڈیجٹ تک پہنچے گی تومعیشت کاپہیہ تیزی سے رواں ہوجائے گا۔ شاید اِسی لیے وزیرِاعظم میاں شہبازشریف باربار کہتے آرہے ہیں کہ موجودہ IMFپروگرام آخری ہوگا جس کے بعد ہم اُسے خُداحافظ کہہ دیں گے۔ ہوناتو یہ چاہیے کہ پوری قوم "اُڑان پاکستان" منصوبے کی کامیابی کے لیے متحد ہوجائے کہ اِسی میں سب کابھلا ہے لیکن کیا عمران خاں بھی ملک وقوم کی بہتری کے لیے اپنی ضِد، انا اور نرگسیت کو تیاگ کراِس منصوبے میں شامل ہوسکیں گے؟ ہمیں تواِس کی اُمیدکم کم ہی نظر آتی ہے لیکن شاید۔۔