Sunday, 12 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Dilli

Dilli

دلی

آج صبح جب میں نے اپنا وٹس ایپ کھولا تو میری نظر کے سامنے سے ایک کتاب گزری (How to read a person like a book)، میں نے اس دوست کو جواب دیا کہ اس اہلیت کو حاصل کرنے کے لیے پہلے آپ کو سینکڑوں اچھی بری کتابوں کو پڑھنا ہوگا۔ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا لیکن اس کے بعد میں کتاب اور انسان کے تعلق بارے سوچنے لگ گیا کہ ان میں اشتراکات کی بھرمار ہے۔ جیسے کسی انسان کے بہت سے موڈ ہوتے ہیں اور وہ وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح کتاب کے بھی بہت سے موڈ ہوتے ہیں جو انسان کے موڈ سے ڈائیریکٹ تعلق رکھتے ہیں۔

کسی وقت کوئی کتاب آپ کا دل موہ لیتی ہے تو کسی دوسرے وقت وہی کتاب آپ کو منہ چڑانے لگتی ہے۔ کبھی آپ ایک کتاب کے بیانیہ میں غرق ہو جاتے ہیں تو کبھی وہی کتاب آپ کو کڑوے شربت کی طرح حلق سے اتارنا پڑتی ہے۔ یہ تمہید مجھے اس لیے باندھنا پڑی کہ اس کتاب نے بھی میرے ساتھ یہی رویہ اختیار کیے رکھا۔

پہلے پہل جب میں نے یہ کتاب پڑھنا شروع کی تو میں نے اسے دس میں سے چار نمبر دیے کیونکہ کسی ڈھلتی عمر کے سکھ کے اپنے کھسرے نما معشوق کے ہمراہ جنسی واقعات پڑھنے کا مجھے کوئی خاص شوق نہ تھا۔ ایک بار تو دل کیا کہ کتاب چھوڑ دوں پھر خود کو تسلی دی کہ اچھی کتاب کا راستہ بری کتابوں سے ہو کر گزرتا ہے تو خوشی خوشی پڑھنے لگ گیا۔

جوں جوں کتاب آگے بڑھتی گئی اس کے نمبر بھی بڑھتے گئے اور کتاب کے اختتام تک میں اسے سات نمبروں سے نواز چکا تھا۔ وہ سات نمبر بھی دہلی کی تاریخ کے جو خشونت سنگھ نے ایک الگ ہی زاویے سے ہمارے سامنے بیان کی۔

خوشونت سنگھ ہندوستان کے مشہور ادیب، مترجم، کالم نگار اور مورخ تھے۔ آپ نے بطور صحافی زندگی کے تیس برس ہندوستان کے مشہور جرائد میں کام کیا۔ اس کتاب کو مصنف نے مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے جس میں ایک باب ان کی اپنی زندگی کے اوپر ہے اور ایک باب دہلی کی تاریخ پر۔ جنُ ابواب میں ان کا اپنا ذکر ہے ان میں مصنف کی شخصیت کا عکس اس ایک جملے سے ہی ہمارے سامنے واضح ہو جاتا ہے:

"میں دلی کی طرف اسی طرح واپس آتا ہوں جیسے غیر ممالک میں رنڈی بازی سے طبیعت سیر ہو جانے پر اپنی محبوبہ بھاگ متی کی طرف آتا ہوں"۔

بابا رج کے شوقین مزاج واقع ہوا ہے۔ مختلف ایمبیسیوں میں اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے ساری زندگی انگریزی شراب اور لڑکیوں کی کمی نہ ہوئی۔ جب بھی کسی گوری کو بھارت کے مختلف مقامات کی سیر کروانی ہوتی اس کا اخیر ہمیشہ مصنف کے "فلیٹ" پر ہوتا۔ اس کی اپنی زندگی تین چیزوں پر مشتمل تھی۔ دو اول الذکر اور تیسری تنہائی۔ جسے غلط کرنے کے لیے بھاگ متی ہمیشہ موجود ہوتی تھی۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک طرف تو عورتوں کے معاملے میں سنگھ صاحب کا معیار اتنا اونچا ہے کہ دیسی مال کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ دوسری طرف ایک 50 روپے روزانہ پر اپنا جسم بیچنے والا/والی (بھاگ متی مرد ہے یا عورت، یہ پورے ناول میں واضح نہ وہ سکا) کے بغیر مصنف کا ایک منٹ بھی گزارا نہیں۔ اب یہ سچی محبت تھی، عادت تھی یا مجبوری، یہ بات مصنف نے قاری کی صوابدید پر چھوڑ دی ہے۔

اگر دہلی کی تاریخ کی بات کی جائے تو اس نے اس ناول کو جکڑے رکھا اور اس حصے کو مصنف نے بہت خوبصورت انداز سے بیان کیا۔ چونکہ اس تاریخ کے بیان کے کیے مصنف نے لوگوں کی بیاضوں ُ اور خودنوشتوں سے استفادہ حاصل کیا تو زیادہ تر ناول صیغہ واحد متکلم میں ہے۔ اگر اس تاریخ کو مختصر بیان کیا جائے تو مغل دور میں لوگوں کا رہن سہن اور بودوباش اور اورنگزیب عالمگیر کی کہانی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس کے بعد نادر شاہ کا حملہ کے کیسے ایک ایرانی بادشاہ نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔

میر تقی میر کا بیان خاص پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس میں اس دور کے شاعروں اور مشاعروں پر روشنی پڑتی ہے (گو کہ شمس الرحمٰن فاروقی اس معاملے میں ُ بہت آگے نکل چکے ہیں مگر خشونت سنگھ نے بھی تاریخ کے اس دور کو زندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے)۔ اس کے بعد 1857 کاُ غدر جس کے بغیر دہلی اور ہندوستان کی تاریخ بالکل ادھوری ہے اور آخر میں گوروں کا احسان کہ کیسے انہوں نے "نئی دہلی" آباد کی، کس طرح انہوں نے پرانی دل کو برقرار رکھتے ہوئے نئے شہر کی بنیاد رکھی اور نئی دہلی میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔

Check Also

Vietnam Aisa Na Tha

By Khalid Mehmood Rasool